ثقافت کے زندہ امین ایوارڈ اور ہم

سعد اللہ جان برق  جمعـء 18 مئ 2018
barq@email.com

[email protected]

بہت بڑا اور سخت فیصلہ تھا، تیس ہزار روپے ماہوار کم نہیں ہوتے اور پھر ہم کوئی رئیس اور امیر وکبیر بھی نہیں، قلم مزدور ہیں جو عرصہ دراز سے کاغذ کے کھیت میں ’’قلم کا ہل‘‘ چلا کر دو وقت کی روٹی کماتے ہیں، تیس ہزار روپے سے ہمارا بہت کچھ جو ’’بگڑا ہوا ہے سنور سکتا تھا لیکن فیصلہ جب ’’ضمیر‘‘ کا ہو اور ضمیر ابھی فوت بھی نہ ہوا ہو تو پھر دل ایسی فاقہ مستیاں کرہی لیتا ہے اور دل بھی وہ جو باغی بھی ہو اور احمق بھی۔

ہر خوشی میں کوئی غم یاد دلا دیتا ہے

دل کا یہ رخ میری نظروں سے نہاں تھا پہلے

شاعر کی نظروں سے اپنے دل کا یہ ’’رخ‘‘ نہاں ہو گا لیکن ہم سے دل کا یہ رخ کبھی چھپا نہیں رہا ہے بلکہ ہر وقت سامنے ہی جلاد کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ چنانچہ کے پی کے حکومت نے محکمہ ثقافت کے ذریعے فنکاروں اور وغیرہ وغیرہ (شاعر و ادیب وغیرہ وغیرہ کے لیے تیس ہزار روپے ماہانہ کا جو وظیفہ ، اعزازیہ یا نان ونفقہ شروع کیا ہے وہ ہمارے سامنے تھا اور ہم لے سکتے تھے اور لینا چاہتے بھی تھے لیکن اس کم بخت دل نے ضمیر کے بہکاوے میں آکر ہاتھ پکڑ لیا کہ پہلے یہ پتہ کرو کہ یہ ہے کیا؟ کیونکہ اس ملک میں یہ فیشن یہ چلن اور یہ بدعت ایک عرصے سے چل رہی ہے کہ ہر ہر طرح سے بھیک کی حوصلہ افزائی ہو اور گلی گلی کوچے میں بھکاری ہی بھکاری ہوں چنانچہ ’’حق‘‘ کو بھی بھیک کی طرح دیا جاتا ہے۔

جو ہو سکتا ہے کسی اور کے لیے قابل قبول ہو لیکن ہم اس سے نفرت کرتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ یہ انسان کے منہ پر ایک غلیظ طمانچے کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور بدقسمتی سے اس ملک میں انکم سپورٹ بھیک سے لے کر مختلف کارڈز بینی فٹ یہاں تک پینشن اور تنخواہ بھی ’’بھیک‘‘ بنا کر دیے جاتے ہیں۔

مزید بدقسمتی یہ کہ ہماری تربیت بہت ہی ٹیڑھے آدمی نے کی ہے جو ہمارے دادا تھے اور ان کا یہ قول کہ میں ایسے ویسے ست (پنجابی میں شاید اسے ’’سد‘‘ کہتے ہیں؛ پر اپنے گھر میں بھی کھانا نہیں کھاتا تو باہر کیا کھائوں گا، اب یہ بڑی نقصان والی بات ہے لیکن کیا کیا جائے ذہن میں گہری اتری ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم نے بھی ان تیس ہزار روپوں کو لینے سے انکار کر دیا ہے، انکار ہی سمجھ لیجیے کیونکہ جو وضاحت ہم نے مانگی ہے وہ کوئی کرے گا نہیں اور اس وضاحت کے بغیر ہم لیں گے نہیں۔

ہم صوبائی حکومت کے بھی شکر گزار ہیں اور محکمہ ثقافت کے بھی کہ انھوں نے صوبے میں پہلی بار ’’مستحق‘‘ فنکاروں کے لیے تیس ہزار روپے ماہانہ کا وظیفہ جاری کیا اور اب تک تقریباً تمام فنکار لے بھی چکے ہوں گے۔ اور پھر اس کمیٹی کے بھی شکر گزار ہیں جن کے اراکین نے ’’ناپسندیدگی‘‘ کے باوجود ہمارا نام کاٹا نہیں شامل کیا۔

مستحق،کسمپرس اور مسکین فنکاروں کے لیے یہ ایک نعمت عظمیٰ پہلی مرتبہ سرکار سے جاری ہوئی ہے تو بظاہر ہے کہ قابل ستائش ہے لیکن جہاں تک بات ہماری آجاتی ہے توہم اسے تب تک قبول نہیں کر سکتے، چاہیں بھوکوں مرجائیں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اعتراف فن ہے یا امداد۔  اب تو قطار میں میرے آگے وہ فنکار کھڑا ہے۔

جس نے عمر بھر کسی قوال کی سنگت میں تالی بجائی ہے اور پیچھے وہ فنکار ہیں جس نے کسی گلوکار کے ساتھ ایک دو دفعہ طبلہ بجایا ہے۔ اس میں غرور تکبر یا حقارت کی کوئی بات نہیں، بحیثیت انسان کے ہم اسے اپنے آپ سے بھی زیادہ محترم سمجھتے ہیں لیکن جب ’’کام‘‘ کی بات آئے گی تو ایک مزدور اور مستری یا ایک مزدور اور انجینئر کی یا ڈرائیور اور کلینر کی تنخواہ یکساں کیسے ہو سکتی ہے۔

چنانچہ ہم نے یہ سوال ایک اخباری بیان کے ذریعے بھی کیا ہے اور محکمہ ثقافت کے افسران سے بالمشافہ بھی پوچھا ہے کہ ہمیں اتنا بتایا جائے کہ یہ اعتراف فن ہے، خدمات کا معاوضہ ہے یا خیرات۔ اگر خیرات ہے تو ہم اسے اس وجہ سے نہیں لے رہے کہ کم ہے یا ہم ضرورت مند نہیں ہیں بلکہ اس وجہ سے نہیں لیں گے لیکن اس طرح ہم بغیر استحقاق کے کسی اور کے منہ سے اس کا نوالہ چھینیں گے اور یہ ہم نے زندگی بھر کبھی نہیں کیا ہے۔ہاں اگر خدمات کا صلہ ہے، اعتراف فن ہے، قدردانی ہے تو پھر ٹھیک ہے۔

ہم یہ نہیں کہیں گے کہ پچاس سالہ خدمات کا اتنا سا معاوضہ؟ اوروں کو دس دس بیس بیس لاکھ اور ہمیں صرف اتنے؟ کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق جوہو سکا وہ کر دیا۔ پہلے تو کسی نے اتنا بھی نہیں کیا تھا۔ بلکہ پوچھا تک نہیں تھا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کم ازکم یاد توکیا۔

پشتو میں ایک کہاوت ہے اور ہمارے دادا کا دوسرا قول بھی ہے کہ پختون کسی کی ’’تھالی‘‘ کو نہیں دیکھتا کہ اس میں کیا ہے بلکہ دینے والے کے ’’ماتھے‘‘ کو دیکھتا ہے کہ اس میں کیا ہے۔ پیاز سہی لیکن نیاز کے ساتھ۔ بہر حال اسے ہم اپنی کوئی کمی یا ٹیڑھ سمجھیں گے جس کی وجہ سے آج تک نہ تو ہم کوئی ایوارڈ حاصل کر پائے نہ35کتابوں میں سے کسی پر انعام پایا کیونکہ ہم نے کبھی کتاب بھیجی نہیں جب میں ہی بھیجوں اور ساتھ ہی درخواست نما التماس بھی کروں اور پھر ججوں کے پیر بھی پکڑوں تو اس انعام سے وہ الفاظ بہتر ہے جو ہمارے پڑھنے والے عوام ایک تحسینی مسکراہٹ سے دے دیتے ہیں۔

سول ایوارڈ کا بھی یہی معاملہ ہے جب ہمارے ایک ٹی وی پروگرام پر گورنر جنرل فضل حق نے خود سے ہمیں بلوا کر نامزد کیا تو وہ ایوارڈ تو ہمیں نہیں ملا کہ اسلام آباد میں ہماری پہنچ نہ تھی اور پھر کئی سال بعد اسی بائیو ڈیٹا پر ایوراڈ دیا تو وہ ہمیں قابل قبول نہیں تھا۔ یوں ہمیں یہ سب سے بڑا اعزاز حاصل ہے کہ ہمارا دامن کسی بھی سرکاری اعزاز ایوارڈ یا انعام سے ’’آلودہ‘‘ نہیں ہے۔ شکر الحمد اللہ

اور اب پھروہ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔

ہمیں حکومت یا محکمہ ثقافت سے کوئی گلہ نہیں بلکہ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے غریب بیروزگار اور کس مپرس فنکاروں کو یاد تو کیا، لیکن ہمارے انکار کی وجہ یہ نظام بھکاری (بروزن بنکاری) ہے جو حق کو خیرات بنا کر دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔