عوام کو احساس کمتری سے نکلنا ہوگا

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 18 مئ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کالم نگاری ایک بہت بڑی ذمے داری اس وقت بن جاتی ہے جب وہ نظریاتی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ناقدین جس طرح ادب اور شاعری پر تنقید کرتے ہیں، اسی طرح کالم کے قارئین کو بھی تنقید کا حق ہوتا ہے۔ بشرطیکہ تنقید با مقصد ہو تنقید برائے تنقید نہ ہو۔ ہمارے ملک میں شرح تعلیم بہت کم ہے۔ قدامت پرستانہ ذہنیت کی وجہ سے عوام میں سیاسی شعور کی بھی کمی ہے۔ ایسی صورتحال میں کالم نگارکی ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔

ہم جس جمہوریت کے دور سے گزر  رہے ہیں، اس جمہوریت کا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ جمہوریت جسے نیابتی جمہوریت کہاجاتا ہے، در اصل اشرافیائی جمہوریت ہے بلکہ اب یہ جمہوریت ترقی کرکے خاندانی جمہوریت میں بدل گئی ہے۔

آج پاکستان جس جمہوریت سے گزر رہا ہے وہ ماضی کی شاہانہ حکومت سے بد تر ہے کیونکہ شاہانہ بادشاہوں میں شاہوں کو عوامی ضرورتوں کا خیال رکھنا پڑتا تھا کیونکہ عوام نا واقف ہوں تو شاہوں کے لیے حکومت کرنا بوجوہ مشکل ہو جاتا تھا، لیکن ہماری رائج الوقت جمہوریت عوام کے ووٹوں سے تشکیل پاتی ہے لہٰذا منتخب حکمران مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہتے ہیں ہم منتخب حکمران ہیں ہماری طرف کوئی نظر بد سے نہیں دیکھ سکتا خواہ ایسی منتخب حکومتیں کتنی ہی دھاندلی زدہ کیوں نہ ہوں۔

2013ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخابات کہا جاتاہے لیکن موجودہ حکومت پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایسی دوسری تاریخی حکومت مانی جاتی ہے جس نے ’’بڑی خوش اسلوبی‘‘ سے اپنی آئینی  مدت کو پورا کیا ہے۔

پچھلی دو جمہوری حکومتوں نے جن میں موجودہ جمہوری حکومت بھی شامل ہے ایسے ایسے ’’تاریخی کارنامے‘‘ انجام دیے ہیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی میں انقلاب آگیا ہے۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ملک خوشحال ہے اور عوام ’’فارغ البال‘‘ ہیں۔

بس ذرا کرپشن کی داستانوں نے اس حاضر جمہوریت میں ایسی کھنڈت ڈالی ہے کہ مزید دس بیس سال تک عوام کی صورت کا موقع کھنڈت میں پڑ گیا ہے۔ ہماری جمہوریتوں میں ریکارڈ بنانے کا باضابطہ رواج موجود نہیں لیکن موجودہ حکومت نے ایک ساتھ اتنے ریکارڈ بنا ڈالے ہیں کہ 70 سال کی تشنگی دور ہوگئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ریکارڈ بج رہے ہیں اور بے آواز ہیں۔

ہماری جمہوریت میں اتنی ساری خوبیاں اس لیے جمع ہوگئی ہیں کہ ہماری جمہوریت خاندانی ہو گئی ہے۔ ہماری حکومت میں قانون اور انصاف کا چرچا دیکھا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ عدلیہ نے اپنا فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے ، لگتا ہے کہ اس خانقاہی جمہوریت سے پوری طرح نمٹنے کی تیاری کی جا چکی ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت اگرچہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے لیکن عوامی مفاد کی رسی کو تھامے رکھنا نہیں بولتی، یہ نیابتی جمہوریت ملک میں ستر سال سے رائج ہے۔ اس طوالت کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کے سرچشمے کو جمہوریت کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا گیا ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں ٹی وی آن ہے اور وائلڈ ورلڈ یعنی جنگل کی دنیا کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ ایک ہرن نے تازہ تازہ بچہ دیا ہے جسے ابھی اٹھنا نہیں آ رہا ہے لیکن ہرن کا بچہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھنے کی کوشش کر رہاہے۔

ہرن کا شمار جانوروں میں ہوتا ہے یہ کیسی دلچسپ حقیقت ہے کہ انسان کا بچہ ڈیڑھ دو سال میں کھڑا ہوتا ہے اور جانورکا بچہ پیدا ہوتے ہی کھڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن جنگل کی زندگی جانوروں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے کیونکہ جنگل درندوں سے بھرا رہتا ہے۔ ابھی ہرن کا بچہ پوری طرح کھڑا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک درختوں کے جھنڈ سے جنگل کا بادشاہ نکل آیا شیر کو دیکھ کر ہرن تو بھاگ گیا لیکن جنگل کا بادشاہ ہرن کے بچے کے قریب آیا ہم سمجھے کہ اب گیا ہرن کا نومولود بچہ لیکن ہم نے جب جنگل کے بادشاہ کو آدھے گھنٹے سے کم عمر والے ہرن کے بچے سے کھیلتا ہوا دیکھنے لگے تو گمان ہوا کہ شاید جنگل کے بادشاہ کو آدھے گھنٹے عمر کے ہرن کے بچے پر رحم آگیا ہو۔ لیکن تھوڑی دیر کھیلنے کے بعد اچانک جنگل کے بادشاہ نے ہرن کے بچے کو منہ میں دبا لیا تو احساس ہوا کہ درندہ درندہ ہی ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ ہرنی دور کھڑی یہ المناک منظر دیکھتی رہی اور پھر جنگل کے بادشاہ کی دہشت سے بھاگ گئی۔

سرمایہ دارانہ نظام دنیا کا وہ خوبصورت بادشاہ ہے جو ڈھائی سو سال سے انسانوں کو کھا رہا ہے۔ ہر سال اس نظام کی بدولت لاکھوں انسان بھوک سے لاکھوں بچے دودھ سے محرومی سے اور لاکھوں خواتین زچگی کے دوران غذائی قلت اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے سرمایہ دارانہ درندوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کو قائم ہوئے اب ستر سال ہو رہے ہیں لیکن اس ملک کے 21 کروڑ عوام آج بھی دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔

یہ ظلم اس لیے ہو رہا ہے کہ عوام قانون ساز اداروں میں اپنی آبادیوں کے اہل اور تعلیم یافتہ امیدواروں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کے بجائے اشرافیہ کے لٹیروں کو قانون ساز اداروں میں بھیج رہے ہیں اور اشرافیہ عوام کا خون اسی طرح پی رہی ہے جس طرح جنگل میں درندے کمزور جانوروں کا خون پیتے ہیں۔

اگر ہمارے ملک میں جمہوریت ہے تو پھر اس ملک کے مالک عوام ہیں حکومت بنانے اور حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف عوام کو حاصل۔ اشرافیہ ستر سال سے جمہوریت کے نام پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہے یہ سلسلہ نہ دعائیں مانگنے سے کم ہوتا ہے نہ تعویذ گنڈوں سے، یعنی اشرافیہ کی حکومتوں سے اس کے لیے سادہ لوح عوام کو احساس کمتری سے نکل کر اپنی بستیوں کے اہل اور ایماندار لوگوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنا ہو گا جب ملک میں عوام کی حقیقی جمہوریت قائم ہو گی تو عوام کے پرانے مسائل یقیناًحل ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔