امن فتویٰ: سب کے لیے نوید ِ امن

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 18 مئ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

قیامِ امن کے لیے اِس شاندار اورقابلِ تحسین کام کا آغاز پاکستان سے ہُوا تھا۔ اب اِسے انڈونیشیا، کی بھی سرکاری حمائت مل گئی ہے۔ واحد مقصد یہی تھا (اور ہے) کہ پاکستان اور افغانستان سمیت سارے عالمِ اسلام کو دہشتگردی اور دہشتگردوں سے پاک کیا جائے۔

الحمد للہ ، پاکستان کو کئی قابلِ ذکر کامیابیاں ملی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کی عامل قوتوں کی انتہائی کوشش تھی کہ کسی طرح اِن کوششوں اور اقدامات کو بلڈوز کیا جا سکے۔ اِن قوتوں نے دھمکی اور ڈراوے کے جملہ اور آزمودہ ہتھکنڈے بھی استعمال کیے لیکن کوئی ہتھکنڈہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ امن کی حامی قوتوں ہی کو آگے بڑھنے اور عوام الناس کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابیاں ملی ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ دہشتگردوں سے مسلم عوام اسقدر عاجز اور تنگ آ چکے ہیں کہ اب کسی بھی شکل میں اِن کا وجود قابل ِ برداشت نہیں ہے۔ خوف اور بدامنی کے اِن پرچارکوں نے اسلام کے پُرامن چہرے کو بھی بٹہ لگایا ہے اور اسلامی ممالک کو بھی بدنام کیا گیا ہے؛ چنانچہ صحیح تر رُخ میں 11مئی2018ء کو مغربی جاوا (انڈونیشیا) میں پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کے 70ممتاز ترین علما اور اسلامی اسکالرز اکٹھے ہُوئے اور انھوں نے دہشتگردی، انتہا پسندی، دہشتگردوں اور خود کش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے۔اِس فتوے کو عالمِ اسلام ہی میں نہیں،بلکہ مغربی ممالک میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

غیرمتعصابانہ نگاہوں سے دیکھا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے تو یہ متفقہ فتویٰ نعمتِ کبریٰ سے کم نہیں ہے۔ ویسے تو پاکستان سمیت دنیا کا ہر ملک ہی ہمیشہ امن کا خواہشمند رہتا ہے لیکن پاکستان کو اِس وقت امن کی جتنی ضرورت ہے، شائد ہی کبھی ماضی میں کسی ملک کو رہی ہوگی؛ چنانچہ چند ماہ قبل ہمارے ہاں کے اٹھارہ سو سے زائد علمائے کرام نے اُس متفقہ فتوے پر دستخط کیے جس کے تحت خود کش حملے حرام قرار دئے گئے۔ اِسے ساری دنیا میں سراہا گیا۔

اب اِس فتویٰ کو اسلام آباد کی ایک ممتاز یونیورسٹی نے (انگریزی، اُردو، عربی زبانوں میں) کتابی شکل بھی دے ڈالی ہے تاکہ سند رہے۔ اِس فتوے کے مندرجات کے حوالے سے پاکستان کے نامور عالمِ دین حضرت مولانا ڈاکٹر محمد راغب نعیمی صاحب، جو اسلامی نظریاتی کونسل کے محترم رکن بھی ہیں، سے میری مفصل گفتگو بھی ہُوئی ہے۔ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب اِسے پاکستان کے استحکام اور امن کے لیے ایک عظیم نعمت سے معنون کرتے ہیں۔

پاکستان کے 1800معروف علمائے کرام کے متفقہ دستخطوں سے معرضِ عمل میں آنے والے اِس عظیم فتوے کے عملی محاسن بیان کرنے کے لیے لاہور، اسلام آباد اور ملتان کی مشہور جامعات میں مفصّل مباحث بھی ہو چکے ہیں۔ ملتان کی یونیورسٹی میں تو بھارت سے آنے والے مستند اسلامی اسکالرز نے بھی شرکت کی۔

افغانستان نے اِس فتوے کو اسقدر مفید قرار دیا کہ افغان صدر ، ڈاکٹر اشرف غنی، کی یہ خواہش سامنے آئی کہ پاکستانی علما کی ایک کانفرنس کابل میں بھی ہونی چاہیے تاکہ فتویٰ مذکور سے افغان عوام بھی استفادہ کر سکیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے بیشتر علمائے کرام کم از کم اِس فتوے کے محاسن اور مفادات پر متحد اور متفق نظر آتے ہیں۔

افغانستان کے بعد یہ بات شدت سے سامنے آئی تھی کہ اِسی فتوے کو عالمِ اسلام کے جید علما میں بھی متعارف کروایا جائے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہُوا کہ انڈونیشیا میں ایک وسیع البنیاد کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ اِس خبر کا منصہ شہود پر آنا تھا کہ افغان طالبان کی طرف سے اِس بارے میں شدید مخالفت سامنے آنے لگی۔

دھمکیاں دی گئیں کہ افغانستان سے جو علما کانفرنس میں جائیں گے، اُن کی خیر نہیں۔ افغان طالبان قیادت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ انڈونیشیا میں یہ کانفرنس دراصل امریکہ اور امریکی اتحادیوں کی طرف سے کروائی جا رہی ہے تاکہ طالبان کو کمزور کیا جا سکے، اسلیے افغان علما شریک نہ ہوں۔ پاکستانی علما کو بھی بین السطور یہی پیغامات دیے گئے۔ افغان طالبان نے خود کش حملوں سے افغان حکومت، عوام اور حکمرانوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔

امریکی فوجی بھی طالبان کے خود کش حملوں سے عاجز آ چکے ہیں؛ چنانچہ طالبان یہ کیسے چاہیں گے کہ ایسی کوئی کانفرنس کا انعقاد ہو اور وہ کامیاب بھی ہوجائے۔ خود کش حملے اُن کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں ؛چنانچہ وہ علماء کو مسلسل ڈراتے رہے۔ کوئی بھی مگر طالبانی ڈراوے کو خاطر میں نہیں لایا ہے۔

ستر ممتاز علما کی یہ کانفرنس کامیابی سے ہمکنار ہُوئی ہے۔اِسے رمضان المبارک کے آغاز میں انڈونیشیا کی طرف سے اہلِ اسلام کو ایک بڑا تحفہ بھی کہاجانا چاہیے۔ کانفرنس کو انڈونیشیائی حکومت کی اشیرواد بھی حاصل رہی اور انڈونیشا کے علما کی سب سے بڑی مجلس (MUI)نے بھی اِسے کامیاب بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

’’مجلسِ علماء انڈونیشیا‘‘(MUI) مشہور ترین انڈونیشائی علماء کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ پچھلے چار عشروں سے مقامی اور عالمی مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے شاندار خدمات انجام دیتی چلی آرہی ہے۔ حکومت کاری اور حکومت سازی میں بھی اِس کا بنیادی کردار ادا ہے۔ انڈونیشیا کے سابق صدر، سہارتو، کے دَور سے اپنے متعینہ فرائض انجام دیتی چلی ہے۔ آجکل جناب معارف امین اِس کے مرکزی رہبرورہنما ہیں۔

’’ایم یُو آئی‘‘ میں انڈونیشیا کی تقریباً تمام اہم اسلامی جماعتیں شامل ہیں: مثال کے طور پر نہضت العلماء، محمدیہ، الاتحادیہ، الوسیلیہ،مشعل الانوار، پی ٹی ڈی آئی، ڈی ایم آئی وغیرہ۔ دہشتگردی، انتہا پسندی اور خود کش حملوں کے خاتمے کے لیے مئی2018ء کے دوسرے ہفتے پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کے70علماء مغربی جاوا کے شہر میں اکٹھے ہُوئے تو انھیں MUIکے ساتھ ساتھ انڈونیشیا کے صدر،جناب جوکو ودُود، کی مکمل رضا اور حمائت بھی حاصل تھی۔

صدر ودُود صاحب ہی نے پہلے اور اہم اجلاس کی صدارت بھی کی اور علماء کی نشستوں پر جا کر ایک ایک سے مصافحہ بھی کیا۔ پاکستان سے جانے والے علمائے کرام کی قیادت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب کررہے تھے اور افغان علما کی قیادت مولاناقیام الدین کاشف صاحب کے ہاتھ میں تھی۔

انڈونیشا کے سب سے بڑے اخبار’’دی جکارتہ ٹائمز‘‘ نے اپنے صفحہ اوّل پر اس کانفرنس کی فوٹو شایع کی ہے۔ اِس میں اسٹیج پر صدرِ انڈونیشیا اور اُن کے نائب (یوسف کلاّ)کے ساتھ پاکستان کے قبل ایاز اور افغانستان کے مولانا قیام الدین صاحب نمایاں نظر آرہے ہیں۔اس کانفرنس میں سیکڑوں لوگ شریک ہُوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں  علمائے کرام نے بیک زبان یہ اعلان کیا ہے کہ ہر قسم کی دہشتگردی، ہر نوع کی انتہا پسندی اور خود کش حملے اسلام اور اسلام کی مبادیات کے منافی اقدام ہیں۔ ان کا اسلامی تعلیمات سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

انڈونیشیا کے محترم صدر نے اس اعلان پر تمام علمائے کرام کی شاندار الفاظ میں تحسین کی ہے۔ ساری دنیا میں بھی اِس فتوے کو سراہا گیا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان پر اِس عظیم فتوے کے نہائیت ہی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ فتویٰ فی الحقیقت امن و سکون اور خوشحالی کا پیامبر ثابت ہو گا۔

کہا گیا ہے کہ اِس فتوے کی تخلیق کے عقب میں صرف افغانستان میں خود کش حملوں کو روکنے کے مقاصد کار فرما ہیں۔ اِس سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان بھی اطمینان اور سکون کا سانس لے سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔