ایران سے امریکی معاہدہ ختم

زبیر رحمٰن  جمعـء 18 مئ 2018
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے کیے گئے ایٹمی معاہدے کا یک طرفہ طور پر خاتمے کا اعلان کردیا، جب کہ اس معاہدے میں روس ، جر منی ، برطانیہ اور فرانس بھی شریک تھے۔

امریکا نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جو ممالک ایران سے تعاون کریں گے ان سے بھی ہم تعلقات ختم کرلیں گے، مگر یورپی یونین ، روس اور چین نے معاہدے کے خاتمے پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے ایران سے معاہدے کو بر قرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، لیکن دوسری جانب اسرائیل اور سعودی عرب فوری طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس معاہدے کو توڑنے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ٹرمپ نے ایران پر یہ الزام لگایا ہے کہ ایران، شام ، یمن اور دیگر ملکوں میں مسلح مداخلت کر رہا ہے، خفیہ طور پر ایٹمی اسلحے کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے اور ہمارے پاس اس کا ثبوت ہے۔ اس قسم کا ثبوت عراق پر امریکی حملے سے قبل بھی موجود تھا اور عراق میں بارہ لاکھ انسانوں کا بشمول صدر صدام حسین کو شہید کرنے کے بعد اوباما نے یہ تسلیم کیا کہ ہمارے پاس خفیہ ایجنسی کی اطلاعات غلط تھیں۔

ہٹلر نے بھی انتخابات میں ہارنے اورکمیونسٹ پارٹی کے جیتنے کے خوف سے اسمبلی میں آگ لگوا کرکمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی تھی اور بر سوں بعد جرمنی کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ آگ ہم نے لگوائی تھی ۔

ٹرمپ جب یہ کہتا ہے کہ ایران ، شام ، لبنان اور یمن میں مداخلت کرتا ہے تو پھر اسے یہ کیوں نہیں یاد آتا کہ النصرۃ،ِ ڈیموکریٹک الائنس اور داعش شام میں کیا کررہی ہے اور شام پر تین سو بیس میزائل کس خوشی میں تصدیق کیے بغیر مارے گئے۔

امریکا نے ہی سعودی عرب سے ستائیس رکنی اسلامی فوجی اتحاد بنوا کر جنرل راحیل کو اس کا سربراہ بنایا اور یمنی عوام پر مسلسل ڈرون ، بمبار طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں یمنی عوام شہید ہو رہے ہیں اور غذائی قلت سے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب پر حملہ کرنے گیا؟

ابھی حال ہی میں سوشلسٹ کوریا اور سرمایہ دار (جنوبی) کوریا کے صدور نے پیسنٹھ سالہ دشمنی کو بالائے طاق رکھ کے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ شاید شاعر نے اسی پرکہا تھا کہ ’’جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف ، امن پر امن زندگی کے بقاء کے لیے‘‘ اس عمل کے ٹھیک دو دن کے بعد امریکی سامراج اور ان کے آلہ کاروں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ سوشلسٹ کوریا عالمی دباؤ یعنی امریکی دباؤکی وجہ سے جنوبی کوریا کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

فطری طور پر شمالی کوریا کے صدرکم جون ان نے جواب میں کہا کہ اگر امریکا ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہم پھر سے میزائل ٹیسٹ کرسکتے ہیں، جب کہ دہائیوں قبل کوریائی انقلاب کے بانی اور پہلے صدرکم ال سنگ کی یہ تجویز تھی کہ دو نظام ایک ملک بن سکتا ہے۔

اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے کم جون ان نے عمل شروع کیا ، لیکن امریکا اس دوستی کو پھر دشمنی میں بدلنے کی سازش میں لگ گیا۔ اس لیے بھی کہ اگر دونوں کوریاؤں میں دوستی ہوگئی تو امریکا کو جاپانی جزیرہ یوکوہاما اور جنوبی کوریا سے بالترتیب چالیس اور تیس ہزار امریکی افواج کو واپس بلا نا پڑے گا۔

اسی طرح سے اگر امریکا اور ایران میں امن معاہدہ ہوجائے تو امریکا کو سعودی عرب، عرب امارات، اسرائیل، اردن ،کویت اور مصر سے اپنی فوج کو واپس بلانا پڑے گا ۔ در حقیقت امریکی صنعتوں کی کل پیداوارکا ستر فیصد اسلحے کی پیداوار ہے۔

اسلحے کو استعمال کرنے کے لیے میدان جنگ چاہیے، اسلحہ چاہیے اور اس اسلحے کو اٹھانے کے لیے بے روزگاروں کی جم غفیر فوج چاہیے۔اس لیے وہ کبھی ویتنام،کبھی جنوبی افریقہ،کبھی مغربی افریقہ ،کبھی مشرق وسطیٰ اورکبھی برصغیرمیں جنگی ماحول نہ صرف پیدا کرواتا ہے بلکہ جنگی میدان بھی تشکیل کرتا ہے ۔ عالمی جنگ اول اور دوئم میں امریکی سرزمین پرکوئی جنگ نہیں لڑی گئی، جوکچھ نقصانات ہو ئے وہ یورپ، افریقہ اور ایشیائی عوام کو ہوا ۔

یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ پاکستان کے مقتدر ادارے صرف مسلم لیگ ن کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔ انتہا پسندوں پرکوئی ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے ، امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر چودہ ڈالر لے جاتا ہے اور پاکستان کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اسی کے ایما پر پا کستانی ریاست ، طالبان کو امریکی سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکو مت کے خلاف مسلح مداخلت کی ۔ امریکا کی ہی و جہ سے افغانستان ، ایران اور بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہورہے ہیں۔

کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب رکاوٹ بنا ہوا ہے ، مگر دنیا کے اور پاکستان کے حالات بدل رہے ہیں ۔ بڑوں میں رعونت آئی ہے تو اپنے چھوٹوں سے پٹ گئے ہیں ، جن کو تم نے حقیر سمجھا تھا وہ ابابیل بن گئے ہیں‘‘ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں اگر یورپ ، امریکا کا ساتھ نہ دیا اور روس و چین کی یورپ سے بات چیت کامیاب ہوگئی تو امریکی سامراج کو کریمیا، یوکرین ، شام، عراق اور افغانستان کی طرح ایران میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔

دونوں کوریا اگر پینسٹھ سالہ دشمنی کو دوستی میں بدل سکتے ہیں توکیا پاکستان اور ہندوستان ایسا نہیں کرسکتے ہیں ؟ جاپان اورکوریا میں ساٹھ ہزار امریکی فوج ڈیرہ ڈالے ہو ئے ہے ، جب کہ برصغیر میں ڈیگوگارشیا کے سوا اورکوئی فوجی اڈہ نہیں ہے۔ یہاں تو دوستی کرنا زیادہ آسان ہے۔

ہندوستان اور پاکستان دونوں انتہائی غربت ، افلاس اورلاعلاجی میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ، اگر ان میں دوستی ہوگئی تو دفاعی اخراجات کم ہوکر صحت ، تعلیم ، علاج اور بے روزگاری پر خرچ ہوسکتا ہے اور عوام کو جینے کا حق ملے گا۔

ہر چند عالمی سامراج اپنی تمام تر طاقت جنگی جنون کو ابھارنے کی سازشوں میں لگائے رکھتا ہے لیکن عالمی امن کی قوتیں بھی جنگ کے خلاف امن اور دوستی کی کوششیں کررہی ہیں ۔ سری لنکا، تامل ناڈو، زائیرے،کولمبیا اور نیپال کے علاقوں سے متشدد تضادات ختم ہوسکتے ہیں تو پھر ہمارے خطے سے بھی ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔