کیا القدس لاوارث ہے؟

عابد محمود عزام  جمعـء 18 مئ 2018

دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے محافظ اور منافقتوں کے علمبردار امریکا نے بالآخر دنیا بھر کی تمام مخالفتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل میں اپنا دارالحکومت بیت المقدس میں منتقل کرلیا ہے ۔ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کا افتتاح خاص طور پر اسرائیل کے قیام کی 70 ویں سالگرہ پر کیا گیا، جب کہ فلسطینیوں نے اپنی سرزمین پر صہیونیوں کے غیر قانونی قبضے کے 70 سال مکمل ہونے پر 15 مئی کو یوم نکبہ منایا ہے۔

15 مئی 1948ء کو اسرائیل کے وجود میں آنے پر فلسطینی عوام اس دن کو یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیں، کیونکہ 1948ء میں اس دن 7 لاکھ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا۔ 14مئی کو امریکا نے بیت المقدس میں اپنے سفارت خانے کا افتتاح کیا، جس کے خلاف ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا تو اسرائیلی فوج نے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے 62 فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا اور 2700 کو زخمی کردیا ۔

صہیونی فوج نے فلسطینی مظاہرین کو غزہ کی سرحد کے ساتھ لگائی گئی باڑ کے نزدیک آنے سے روکنے کے لیے پہلے ہی ایک سو سے زیادہ ماہر نشانہ باز تعینات کردیے تھے اور انھیں گڑ بڑ کی صورت میں کسی بھی فلسطینی کو گولے مارنے کا حکم دیا تھا ، سو انھوں نے اس پر عمل درآمد کیا۔ اس سے بڑی ریاستی دہشت گردی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے والے ہزاروں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلا دی جائیں اور ان کا خون بہانے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

شاید فلسطین نام کی قوم کے کوئی حقوق نہیں یا جب اسرائیل کا ذکر آجائے تو انسانی حقوق کی تعریف بدل جاتی ہے۔ ستر سال قبل اسی دن لاکھوں فلطینیوں کو ان کے گھروں سے اور ان کے وطن کی سرزمین سے جبراً نکال کر صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد کی سر زمین، یورپ کے یہودیوں کے حوالہ کر دی گئی تھی۔

ستر سال پہلے بھی مغربی طاقتیں خاموشی سے اس عذاب کو دیکھتی رہیں تھیں جو فلسطینیوں پر ٹوٹ رہا تھا اور ستر سال بعد بھی دنیا خاموشی سے فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکیوں اور اسرائیلوں کا رقص دیکھتی رہی ۔ ساری دنیا فلسطین کے معاملے میں برسوں سے منافقت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ عالمی برادری فلسطین کے معاملے آندھی، گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔

فلسطین میں اسرائیل کی جارحیت، دہشتگردی اور سفاکیت کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، وہ کم ہے، اگر مسلم دنیا میں کوئی دم خم ہوتا تو اسرائیلی فوج کو شاید اس طرح ظلم وسفاکیت کا مظاہرہ کرنے کی جرات بھی نہ ہوتی۔

بد قسمتی سے مسلم دنیا کو یہ سیاہ دن اپنی بے عملی کے باعث ہی دیکھنا پڑا ہے، اگر محض رسمی مذمتوں اور اظہار تاسف سے مسلم دنیا کو کمزور کرنے کی اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کا تدارک ہو سکتا تو اپنی آزادی کی لگن میں غاصب فوجوں کے آگے سینے تان کر کھڑے ہونے والے فلسطینی 70 سال سے جاری قتل عام کی نوبت نہ آتی، اگر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے متعلق ٹرمپ کے 6 دسمبر 2017ء کے اعلان پر ہی مسلم دنیا کے قائدین محض رسمی مذمتوں سے باہر نکل کر عملیت پسندی کے راستے پر آجاتے اور اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اور علاقائی نمایندہ اداروں پر یکسو ہو کر آواز اٹھاتے تو یقیناً آج انھیں امریکی سفارتخانہ اپنے قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس میں باضابطہ طور پر منتقل کیے جانے کا سیاہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور یہاں پر امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے احکامات کے بعد سے مسلم دنیا میں ایک نیا اضطراب پیدا ہوگیا تھا۔ مسلم عوام میں موجود بے چینی کی بناء پر ان ممالک کے سربراہان بھی دنیا دکھاؤے کے لیے ہلنے جلنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ اگر امریکا نے اپنا دارالحکومت بیت المقدس میں منتقل کیا تو عالم اسلام کی طرف سے شاید اتنا سخت ردعمل آئے گا کہ امریکا کو اپنا فیصلہ واپس لینا ہی پڑے گا، لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی نہتے فلسطینی اکیلے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے ڈٹے ہوئے تھے اور اب بھی وہی ڈٹے رہے۔

ایسا لگتا ہے کہ بیت المقدس لاوارث ہے، جس کی حفاظت کرنا کوئی بھی مسلم ملک اپنی ذمے داری نہیں سمجھتا، حالانکہ یہ دنیا بھرکے مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ مسلم ممالک تو مذمتوں سے آگے جانا بھی گوارا نہیں کرتے۔

غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینیوں کی شہادت اور امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی پر مسلم ممالک سمیت دنیا بھر میں صرف اتنا ہوا کہ حسب سابق تشویش پائی گئی ہے۔

امریکی صدر کی آشیرباد سے اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کو فلسطینیوں کے لیے مقتل بنا دیا۔ اس پر مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا کی جانب سے کوئی بڑا ردعمل نہ آنا امریکی سفارتخانہ کی بیت المقدس منتقلی سے بھی بڑا سانحہ ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی شہادتوں پر تو افسوس کا اظہار کیا، مگر اسرائیل کے لیے امریکی سفارتخانہ کی مسلمانوں کے قبلہ اول منتقلی کے اقدام پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔

مسلم دنیا میں چند ممالک کا ہی ٹھوس ردعمل سامنے آیا ہے۔ ترکی اور جنوبی افریقہ نے امریکا اور اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ صورت حال پر غور کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا گیا ہے، جب کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت اسلامی ممالک نے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے عہد کی تجدید کی ہے۔

اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ مسلم ممالک کی مذمتوں اور تشویش سے امریکا اور اسرائیل پر رتی بھر اثر نہیں ہونے والا، کیونکہ یہ لوگ اپنی مذمتوں میں مخلص ہے ہی نہیں اور نہ ہی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی دنیا بھر میں جب بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو مسلم ممالک کے حکمران صرف مذمتیں ہی کرتے ہیں، جن کا آج تک کوئی اثر نہیں ہوا۔

آج فلسطینی عوام غاصب اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں ، لیکن اس کے خلاف مسلم دنیا میں کسی قسم کا ارتعاش نظر نہیں آتا، تو اس کا ذمے دار مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ہی گردانا چاہیے، جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امریکا اور اسرائیل کی ہر بات پر جی حضوری کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ عرب دنیا اس میں سرفہرست ہے۔

ظالم دشمن اسرائیل اور امریکا نے تو بہرحال ظلم کرنا ہی ہے، مگر مسلم ممالک کو اس کا ہاتھ روکنے کی توفیق نہیں ہوگی تو پھر اس ظلم کے ذمے دار مسلم ممالک کے حکمران بھی ہیں ۔ مسلم امہ کا مقدس مقام بیت المقدس قبلہ اول ستر برسوں سے صہیونی شکنجے میں ہے، لیکن مسلم امہ اس معاملے میں سنجیدہ ہونے کا سوچ تک نہیں رہی۔

کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ مسلم امہ بیدار ہو کر امریکی اور اسرائیلی سازشوں کے چنگل سے نکل سکے، کیا مسلم ممالک کے حکمران ہمیشہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف رہیں گے یا مسلم امہ کے مفادات اور مقدسات کے تحفظ کے لیے ایک میز پر کبھی بیٹھنا گوارا کریں گے؟

قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا ہے کوئی امریکا اور اسرائیل سے میری حفاظت کرنے والا؟ لیکن افسوس مسلم امہ اپنے فروعی اور ذاتی مسائل میں الجھی ہوئی ہے، جس کے حکمرانوں کو اپنی حکومتیں بچانے اورکرپشن کرنے کے سوا شاید کوئی فکر ہی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔