عدالتی فعالیت

محمد مشتاق ایم اے  اتوار 20 مئ 2018
پاکستان کی عدالتی تاریخ شروع سے کش مکش کا شکار رہی ہے۔  فوٹو: فائل

پاکستان کی عدالتی تاریخ شروع سے کش مکش کا شکار رہی ہے۔ فوٹو: فائل

محمد مشفع احمد ایڈووکیٹ  (اسکالر لاء ریسرچ)

عدلیہ کے ہر جج پر لازم ہے کہ وہ ہر سائل کو شفاف انصاف فراہم کرے، اس لیے عدلیہ کے باضمیر ججوں نے اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کی پروا نہ کرتے ہوئے عدالتی فعالیت (Judicial Activisim) اور عدالتی جائزہ(Judicial Review) کے طریقے کو اپنایا اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی۔ عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزہ وہ طریقۂ قانون ہے جس کے ذریعے ججز اپنی ساری زندگی کے تجربے اور اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر طالب انصاف کو انصاف فراہم کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے قانونی شقوں کو نرم کیا جائے اور راہ میں مزاحم رکاوٹیں دور کرکے انصاف یقینی بنایا جائے، کیوںکہ قانونی عمل کا جاری و ساری رہنا ہی کسی معاشرے کی کام یابی اور آزادی کی ضمانت ہے۔

معاشرہ اور زندگی جب آگے بڑھتی ہے تو سماجی، سیاسی، قانونی مسائل بھی بہ تدریج نئے انداز میں جنم لیتے رہتے ہیں۔ اگر معاشرے کو مسائل حل کرکے آگے نہ بڑھایا جائے، انصاف کا حصول دشوار ہوجائے تو افراتفری اور انارکی جنم لیتی ہے۔ اس لیے فی زمانہ عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزہ نہ صرف لوگوں کے مسائل کے حصول میں ممد و معاون ہے بلکہ معاشرے کو آگے بڑھانے اور سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی، اخلاقی قدروں میں تبدیلی، عوامی مفاد عامہ کی گمبھیر صورت حال، انسانی جبلت کی خودغرضی، لالچ، ہوس، لامحدود اختیارات کی صوبائی نسلی تعصب کے پھنکارتے ہوئے ناگوں کو قابو کرنے کے لیے عدالتی فعالیت موثر کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک امریکا، برطانیہ بھی اپنے مسائل کو عدالتی فعالیت ہی سے کنٹرول کرسکے ہیں۔

اس کے علاوہ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم، صدارتی نظام میں صدر اور چند لوگ مل کر اگر آمریت مسلط کردیتے ہیں، تو ایسے میں صرف اعلیٰ عدلیہ ہوتی ہے جو ایک طویل جدوجہد کرکے حاصل ہونے والے عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کے حق کے ذریعے غیرآئینی اور بدنیتی پر مبنی ہر عمل کو، جو مقتدر ادارے جبراً لوگوں پر تھوپ دیتے ہیں، جزوی یا مکمل طور پر غیرآئینی قرار دے، اس کے مرتکب افراد یا اداروں کو سزا دے اور آیندہ کے لیے پیش بندی کرے۔

امریکا میں اسی عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے نے امریکی معاشرے کو بھیانک نسلی امتیاز کی جنگ سے نکال کر دنیا میں ایک اعلیٰ مقام عطا کردیا۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ایک قانون کو موثر بہ زمانۂ ماضی (Retropective Effect) سے نافذ کردیا اور وہ جرم جس کی سزا جرم کے وقت کم تھی بڑھا دی، بلکہ ایک اپیل کے نتیجے میں جو لوگ سزا کاٹ رہے تھے ان کی سزا بھی بڑھا دی، کیوںکہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ منشیات فروشی کے کاروبار میں سزاؤں میں نسلی امتیاز (کالے اور گورے) کو ملحوظ رکھا گیا۔

امریکی معاشرے نے 2010 کے اس فیصلے کو عظیم تر قومی مفاد میں ہضم کرلیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکا میں بدترین نسلی ہنگامے پھوٹ پڑے جن کو (Red Summer 1919) ریڈ سمر 1919 کا نام دیا گیا، جو امریکا کے شمال اور جنوب سے ہوتے ہوئے شکاگو اور واشنگٹن DC تک پھیل گئے۔ ہنگامے اس قدر بڑھے کہ سیاہ فام لوگوں کو مختلف شہروں کی طرف ہجرت کرنی پڑی، جس کے باعث روزگار اور رہائش کے مسائل نے جنم لیا، لیکن عدالتوں نے مسلسل کام کرکے عدالتی فعالیت (Judicial Activism) پر عمل کرتے ہوئے ان حالات کو ٹھیک کردیا۔

جسٹس فرینک مرفی کا نام ممتاز حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنے فیصلوں میں مقصدیت اور انفرادیت اُجاگر کرنے کے ساتھ  حقوق انسانی، شخصی انفرادی حقوق کے حوالے سے اعلیٰ اور قابل تقلید فیصلے کیے۔ انھوں نے عدالتی فعالیت پر تنقید کرنے والوں کے جواب میں کہا،’’ہم تمام اکثریت سے منتخب ہونے والے لوگوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کے منافی کسی ایکشن یا قانون کو نظرانداز نہیں کریں گے اور جمہوریت کو کسی طور برباد ہوتا برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘ 1803 میں ماربری بہ خلاف میڈیسن Marbury Vs Madison کیس میں، جسے ہم عدالتی فعالیت کی ابتدا کہہ سکتے ہیں، عدالتی جائزہ (Judicial Review) کرکے انتہائی بہادری سے امریکی معاشرے اور نظام کو بچالیا گیا۔

Plessy Vs Ferguson Case کیس کے فیصلے کے تحت کالوں اور گوروں کے علیحدہ اسکول Separate But Equal کی بنیاد پر قائم کردیے گئے تھے، Brown Vs Board of Educationکے کیس میں اعلیٰ عدلیہ نے Separate But Equal کے اصول کو ختم کرکے قوم پر ایک احسان کردیا کہ نسلی امتیاز کی پالیسی جو قانوناً جائز قرار دے دی گئی تھی ختم کردی گئی۔

اسی طرح بھارت میں عدلیہ کی اصل طاقت عدالتی فعالیت ہے۔ 29 ریاستوں اور سات غیرجانب دار علاقوں پر مشتمل بھارت کی آبادی ایک سو بتیس کروڑ افراد سے زیادہ ہے جس میں ہندو، مسلم، سکھ، بدھ مت، جین مت کے پیرکار اور عیسائی آباد ہیں، جہاں نسلی اور مذہبی تعصب ہر لمحہ پھوٹنے کے لیے تیار رہتا ہے، یہ صرف عدلیہ کی فعالیت اور عدالتی جائزے کی قوت ہے جس نے ریاست کو مطلق العنانیت سے روکا ہوا ہے اور جمہوری عمل جاری ہے۔

یہ بھارتی عدلیہ ہے جس نے بڑے بڑے طاق تور لوگوں اور کرپشن مافیا کو تاریخ کے ایک بہت بڑے فراڈ پر سزا سُنائی۔ یہ فراڈ واٹرگیٹ کے بعد سب سے بڑا فراڈ کہلاتا ہے، جس میں بڑے بڑے سیاست داں اور بیورو کریٹس شامل تھے۔ یہ 26 اسپیکٹرم ٹیلی کام 26 Spectrum Case ہے، جس میں 1.76 لاکھ کروڑ روپے کے گھپلے کا تخمینہ لگایا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات 80 ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ چارا گھٹالا کیس جس میں لالوپرشاد (جس نے انڈین ریلوے کو نقصان سے نکال کر فائدے میں داخل کردیا اور جسے دنیا میں سمجھا اور پڑھا جاتا ہے) کو 22 سال پرانے کیس میں سزا ہوئی اور سیاست کے لیے نااہل ہونا پڑا اور بہار کے چیف منسٹر جگن ناتھ مشرا کو مستعفی ہونا پڑا۔ بھارت میں عدلیہ واضح طور پر تین جہتی عدالتی جائزے کے طریقۂ کار پر عمل کرتی ہے۔

(1)۔ مقننہ کی قانون سازی کا عدالتی جائزہ۔ (2)۔ آئینی ترمیمات کا جائزہ۔ (3)۔ افسران اعلیٰ (Authorities) کی انتظامی کارروائیوں کا جائزہ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالتی فعالیت کی ابتدا، ہندوستان ٹائمز (نیو دہلی) یکم اپریل 1996 کے مطابق جسٹس سید محمود نے، جو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے، فیصلے میں ایک اختلافی نوٹ (Dissenting Note) لکھ کر کی۔ اس طرح وہ عدالتی فعالیت کے بانی کہلاسکتے ہیں۔

بھارت میں عدالتی فعالیت کے حامی ججز اپنے حلف کے پاس دار، آزاد منش پالیسی ساز اور انسانی حقوق اور آئین کے علم بردار ہیں، اسی لیے انہوں نے معاشرے کا مکمل اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھوپال ٹریجڈی کیس اور جیسیکا قتل کیس میں قوت اقتدار اور پیسے کے بھرپور استعمال نے شروع میں سچائی کو زیر کرلیا، مگر عدالتی جائزے نے تمام منفی قوتوں کو بے نقاب کردیا۔

ملائیشیا کے جسٹس وان یحییٰ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ اگر مملکت کا کوئی اعلیٰ عہدے دار اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو کوئی بھی شہری Sperited Person چاہے اس کا معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہ بھی ہو تب بھی اگر وہ عدالت سے رجوع کرے تو عدالت کو اس کے تحفظات کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مناسب فیصلہ/ کارروائی کرنی چاہیے۔

جسٹس کرشناآیر (Justice Krishna IYer) نے چیف جسٹس پی۔این۔بھگوتی (P.N Bhagwati) کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت میں سرگرمی دکھائے اور عدالتی ویژن کا مظاہرہ کرے۔ ہم عوام کو بدعنوان افسران کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہر گزرتا ہوا گھنٹہ بلکہ ہر گزرتے ہوئے لمحے میں ہم تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں عدالتی ویژن کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیوںکہ عوام فرداً فرداً ہر اتھارٹی کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو سوائے افراتفری کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عدالت حکمت و دانائی کا مظاہرہ کرے، تاکہ معاشرے میں امن قائم ہوسکے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سپریم کورٹ آف امریکا، صدر یا کانگریس کے کسی بھی فیصلے کا عدالتی جائزہ یا عدالتی نظرثانی کرسکتی ہے۔

پاکستان میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کو عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کا مکمل حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی اتھارٹی یا عدالتی فیصلے کا جائزہ لے کہ وہ عام لوگوں کے بنیادی حقوق سے متصادم تو نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں کہ اس کی ابتدا سپریم کورٹ آف امریکا نے 1803 میں ماربری بخلاف میڈیسن (Marbury Vs Madison) کیس سے کی۔ اس طرح عدالتی فعالیت (Judicial Activism) اور عدالتی نظرثانی (Judicial Review) کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کیس PLD 1964 SC 673 میں عدالتی نظرثانی کا حق استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ (Verdict) دیا کہ معاشرے میں لوگوں کے بنیادی حقوق اصل ہیں، جن کی پامالی ناقابل برداشت ہے۔ ہر وہ فیصلہ جو کسی اتھارٹی یا عدالتی فیصلہ جو بنیادی حقوق کے منافی ہے باطل ہے۔

بے نظیر بھٹو کیس (PLD 1988 SC 615) میں عدالت عالیہ نے یہ اصول اپنایا کہ اگر مفاد عامہ کے کیسز میں بنیادی حقوق کا مسئلہ درپیش ہو تو سخت مروجہ اصولوں کو تبدیل کرکے انصاف بہم پہنچایا جائے تاکہ سخت عدالتی طریقۂ کار بنیادی حقوق کی راہ میں مزاحم نہ ہوں۔ اس طرح بے نظیر بھٹو کیس میں وضع کردہ اصولوں نے انصاف کی فراہمی کو آسان کردیا گیا۔ مشہور کیس ’’درشان مسیح (PLD 1990 SC 513) میں عدالت عالیہ نے ایک ٹیلی گرام / خط کو پٹیشن میں تبدیل کرکے بھٹہ مزدوروں کو انصاف فراہم کیا، کیوںکہ اس ٹیلی گرام / خط میں لکھا تھا کہ مالکان بھٹہ نے مزدوروں، عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا ہے۔ جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے اور ظلم سے نجات دلائی جائے۔ عدالت عالیہ نے مروجہ سخت اصولوں کو تبدیل کرکے فوری انصاف فراہم کیا اور ان لوگوں کو جبر سے نجات دلائی۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ شروع سے کش مکش کا شکار رہی ہے۔ اس رسّا کشی میں عموماً عدالتی فیصلے شدید تنقید کی زد میں رہے ہیں، کیوںکہ ہماری عدلیہ نے اچھے فیصلے بھی دیے ہیں۔ مگر دباؤ میں آکر امراء کو راستہ (Relief) دینے کے لیے کبھی نظریہء ضرورت اور کبھی کیلسن (Kelson) تھیوری کو اپنایا گیا۔ اس طرح لوگوں کو جمہوریت سے دور اور بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ظفر علی شاہ کیس (PLD 2000 SC 869) میں پرویز مشرف کو وہ اختیارات عطا کردیے گئے جو خود سپریم کورٹ کو حاصل نہ تھے۔ ایک طرف عدالت عالیہ نے ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اُتار دیا اور پرویز مشرف کی غیرجمہوری حرکت کی توثیق کردی بلکہ جو اختیارات سپریم کورٹ کو حاصل نہیں ہیں وہ بھی دے دیے۔ یعنی فرد واحد تین سال تک آئین میں جو چاہے تبدیلی کرلے۔

سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے جب آمر کے حکم پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تو ملک کے عوام نے چوہدری افتخار کو سر پر بٹھا لیا۔ مگر چوہدری افتخار نے بہترین کام کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو 110 بہترین جوڈیشل اذہان سے محروم کردیا اور 110 ذہین ججز فارغ کردیے گئے۔ تاہم چوہدری افتخار نے عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کے عمل کو تیز کرکے مفاد عامہ کے مسائل حل کرنے اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی بہترین کوششیں کیں۔

یہاں ہم جسٹس حلیم کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے، جنھوں نے برملا اظہار کیا کہ انڈیا میں ایس پی گپتا بہ خلاف وی۔ایم۔ٹرکنڈی کیس (AIR 1982 SC 149) میں جو اصول وضع کیے گئے ہیں مثلاً حق مداخلت (Locus Standi) کو ختم / نرم کرکے ہم کسی بھی شخص گروپ یا طبقے کو بنیادی حقوق فراہم کرسکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے عوامی مفاد عامہ کے کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کو استعمال کرتے ہوئے انصاف کے دروازے کھول دیے۔

اسما جیلانی کیس (PLD 1972 SC 139) میں جسٹس حلیم نے جسٹس حمود الرحمن کے اس سنہری فیصلے کا سہارا لیا کہ ’’قانون ساکت و جامد نہیں‘‘ اور ’’عدلیہ غلام نہیں ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔