یہ ہیں میاں صاحب

عبدالقادر حسن  ہفتہ 19 مئ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حکومت نزعی حالت میں ہے یعنی کہ اس کی آئینی مدت اور زندگی اب چند روز کی مہمان رہ گئی ہے لیکن یہ حکومت جاتے جاتے اپنا رنگ دکھا گئی بلکہ انمٹ نقوش بھی چھوڑ گئی جو پاکستانیوں کو ایک مدت تک نواز حکومت کی یاد دلاتے رہیں گے۔

ایک طویل عرصے کے بعد نواز لیگ نے اقتدار سنبھالا تو اس کے سامنے مسائل کا ایک انبار تھا، میاں نواز شریف کی شہرت ایک دیانت دار اور پاکستان کے مخلص حکمران کی تھی، انھوں نے انتخابی مہم میں اقتدار کے پہلے سو دنوں میں واضح بہتری کے دعوے بھی کیے تھے چنانچہ بقول میاں صاحب ان کے پاس مختلف امور کے ماہرین کی ٹیمیں تیار تھیں جنہوں نے حکومت ملتے ہی اپنا کام شروع کر دینا تھا جس کے نتائج پہلے سو دنوں میں ہی آجانے تھے۔

موجودہ دور اقتدار سے پہلے میاں نواز شریف جتنا عرصہ اقتدار میں رہے ان کو اخبارات کی صورت میں دوستانہ میڈیا ملا اور ان دوستوں نے ان کی خامیوں پر پردہ ڈالا اور ان کی خوبیوں کو دھوم دھڑکے کے ساتھ اجاگر کیا۔

اخبارات کا زمانہ تھا اور آج کی خبرکانٹ چھانٹ کے مراحل سے گزر کر اگلے دن قارئین تک پہنچتی تھی یعنی وقت کی فراوانی تھی اور ان کے اخباری دوست بھی بہت تھے جو مدد کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے اس لیے پہلے دو دور حکومت تو مزے سے گزر گئے لیکن تیسرادور اس معاملے میں کٹھن ثابت ہوا، الیکڑانک میڈیا کی عفریت نوزائیدگی سے گزر کر اور توانا ہو کرسامنے کھڑی تھی اور اس نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ملک میں ایک حقیقی طاقت اور ستون کے طور پر اپنے آپ کو منوا لیا تھا ۔

لہٰذا میاں صاحب کی حکومت بھی اقتدار سنبھالتے ہی اس کے نرغے میں آگئی اور میاں صاحب جو دوستانہ صحافت کے سہارے حکومت کرتے تھے وہ الیکڑانک میڈیا کی بریکنگ نیوز بن گئے۔ میڈیا کنٹرول کی تمام کوششیں بے سود ثابت  ہوئیں بلکہ ہمارے جو ساتھی حکومت کا دم بھرتے ان کے خلاف بھی طرح طرح کے الزامات سننے کو ملے یعنی میاں صاحب کی حکومت کی اچھائیوں کو بھی ان کی چند برائیاں کھا گئیں۔

فوج کے زیر سایہ سیاست کا آغاز کرنے والی پارٹی نے جب فوج کے ہی خلاف پر پرزے نکالنے شروع کیے تو ان کے پر کاٹ دیے گئے اور یہ دھڑام سے نیچے آگرے۔ اس میں کچھ غلطیاں حکومت کی جانب سے بھی کی گئیں لیکن زیادہ تر خرابی کا باعث میاں نواز شریف کی ہٹ دھرمی بنی اور انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں لچک دکھانے سے بالکل انکار کر دیا ۔

ان کے دانا ساتھیوں اور چھوٹے بھائی شہباز شریف نے ان کو ملکی اداروں کے بارے میں نرم رویہ رکھنے کی حتیٰ الامکان کوششیں بھی کیں لیکن وہ سب کوششیں بے سود گئیں اوراس دور میں میاں نواز شریف اپنے چند ساتھیوں اور سیاست میں اپنی نووارد بیٹی محترمہ مریم نواز کے مشوروں کے تابع اپنی سیاست جاری رکھنے پر بضد نظر آتے ہیں جس کے نتائج ابھی تک ان کے حق میں مثبت ثابت نہیں ہوئے لیکن نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کے لیے اپنی گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے جو کہ پارٹی کے علاوہ خود ان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے ۔

گزشتہ پانچ برسوں میںمسلسل بحرانوں کی شکار نواز حکومت کسی نہ کسی طرح اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے حکومت کے پہلے چار سال نواز شریف خود وزیر اعظم رہے وہ ایک بالکل بدلے ہوئے حکمران تھے جن کا عوامی رابطہ نہ ہونے کے برابرتھا بلکہ وہ عوام سے زیادہ غیر ملکی دوروں میں مشغول رہے ۔ ان کی جس حکمرانی کے عوام منتظر تھے وہ اس سے بدلے ہوئے حکمران ثابت ہوئے انھوں نے اپنی شہرت کے برعکس عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ۔ ان کے دور میں جتنے بھی بڑے منصوبے شروع ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچے ان میں سے زیادہ تر پر کرپشن کے مبینہ اعتراضات ہی اٹھائے جاتے رہے ۔ اس کی بنیاد انھوں نے حکومت کے آغاز میں بجلی کے قرضہ جات کی ادائیگیوں کے ساتھ ہی کر دی ۔

جس کے بارے میں آج تک کوئی نہیں جانتا کہ کس پارٹی کو کتنی ادائیگی کی گئی اور اس کی اصل ادائیگی کتنی بنتی تھی۔ نندی پور پاور پلانٹ کا معاملہ ہو یا قائد اعظم سولر پار ک کا ناکام منصوبہ، قطر سے ایل این جی کے ٹھیکے کے بارے میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم زبان کھولنے کو تیار نہیں حالانکہ انھوں نے بطور وزیر پٹرولیم یہ معاہدہ کیا تھا اور اس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سستا ترین ہے لیکن وہ اس کی قیمت بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اگر یہ کہا جائے کہ نواز حکومت اپنی شریف حکومت کا لبادہ اوڑھے ہوئے بھی بے نقاب ہو گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

جاتے جاتے ڈالر کا ایک بڑا جھٹکا بھی لگ گیا جس کے نتائج ہم پٹرول اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بھگت رہے ہیں اور شنید ہے کہ پٹرول کی قیمت میں ایک اور بڑا اضافہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری روز کر کے ہی جائے گی ۔ مجموعی طور پر پانچ برس عوام نے ایک نااہل حکمرانی میںبسر کیے جنہوں نے پیپلز پارٹی کی غیر مقبول حکومت کو بھی مات دے دی لیکن اب تو پیپلز پارٹی کی حکومت بھی اچھی لگنے لگی ہے۔

ختم نبوت کے نازک ترین مسئلے سے لے کر میاں نواز شریف کے حالیہ بھارت نواز بیانات سے جن پر وہ ڈٹے ہوئے ہیں حکومت کی آخرت بھی برباد کر دی ہے اور اب بھی دانا مشوروں کے باوجود کسی مصلحت کا شکار ہونے کو تیار نہیں اور اپنے بیانیہ پر قائم ہیں ان کا یہ ہٹ دھرم رویہ ان کے لیے تو جو مشکلات پیدا کرے گا وہ سامنے نظر آرہی ہیں لیکن ان کی پارٹی بھی اس رویہ کا شکار ہوتی جا رہی جو کہ ملکی سیاست کے لیے ایک بڑا نقصان ہوگا کیونکہ نواز لیگ کا ملکی سیاست میں بھرپور سیاسی کردار رہا ہے اورآیندہ کی سیاست میں اس کا کردار برقرار رہنا چاہیے ورنہ ہم پھر کسی ایک پارٹی کے محتاج رہ جائیں جو کہ ملک کے لیے اور جمہوریت دونوںکے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔

جو صورتحال بنتی جارہی ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ بنتی جا رہی ہے اور میاں صاحب کے چند ایک اتحادیوں کی طرف سے دلی والوںکو مبارکبادوں کا سلسلہ تیز ہوتا جارہا ہے تواس کے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں ایک یہ کہ قوم بھی اپنے سیاستدانوں کے ساتھ بھارت کی غلامی قبول کر لے اور آنے والی نسلوں کو کسی نئے پاکستان کے لیے کسی دوسرے اقبال اور جناح کا انتظار کرنے کے لیے چھوڑدے یا پھر اس سب کا رد عمل اتنا شدید ہو کہ وہ تحریک پاکستان کو زندہ کر جائے، میرے خیال میں قوم اس مثبت رد عمل کے لیے تیار ہے لیکن اسے کوئی لیڈر چاہیے اور وہ لیڈر کے انتظار میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔