تاریخ پاکستان میں  ُشہرت پانے والے ’نکات‘

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 20 مئ 2018
میثاق لکھنؤ سے میثاق جمہوریت تک تحریک آزادی اورپارلیمانی جمہوریت کے نشیب و فراز کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

میثاق لکھنؤ سے میثاق جمہوریت تک تحریک آزادی اورپارلیمانی جمہوریت کے نشیب و فراز کا دلچسپ احوال۔ فوٹو: فائل

نوآبادیاتی نظام تاریخ انسانی کا بدتر ین جابرانہ نظام ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے 1492 ء سے یہ نظام آج تک کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے بہت سے خطوں میں اپنے اقتصادی اور مالیاتی شکنجوں اور حربوں کے ساتھ موجود ہے۔

اس نظام سے پہلے دنیا بھر میں اگرچہ ہینی بال، سکندر اعظم ،کانسٹنٹائن اعظم، اشوک اعظم، جولیس سیزر، ولیم فاتح، سائیرس اعظم، چنگیزخان، ہلاکوخان اور امیر تیمور جیسے فاتحین نے دنیا کے بیشتر خطوں اور علاقوں میں طویل مدتی حکومتیں قائم کیں مگر یہ حکومتیں روایتی تاریخی انداز کی تھیں۔ ہمارے یعنی برصغیر میں ایسی آخری حکومت مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1526-30 ء کے دوارن قائم کی۔

اس نے بھی ہندوستان کے پہلے فاتحین کی طرح مغلوں اور افغانیوں کے مختلف سرداروں کا ساڑھے بارہ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کرکے ہندوستان کو فتح کیا اورپھر قدیم جاگیردارانہ نظام کو جاری رکھتے ہوئے انتظامی اور دفاعی لحاظ سے ہندوستان اور افغانستان میں اپنی حکومت تر تیب دی۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق تھا تو وہاں اپنے شہزاے اور دیگر نزدیکی رشتہ داورں کی صوبائی حیثیت کے ساتھ قبائلی سرداروں کی روایتی حکمرانی کو قائم رکھا اور ہندوستان میں صوبائی سطحوں پر اپنے نزدیکی عزیزوں، شہزادوں کو گورنر بنا کر ہندوستان میں اپنے ساتھ لشکر میں آنے والے سرداروں لشکریوں کو ان کے سپاہیوں کی تعداد کے مطابق بڑے بڑے علاقے بطور جاگیر یں دیں لیکن ان جاگیروں میں خصوصا ان راجپوتوں کو بھی شامل رکھا جو اس کے وفادار تھے۔

ان تمام نوابین، راجاؤں اور خوانین کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ عام حالات میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ پورے علاقے میں امن وامان قائم رکھیں، مقامی پیداوار پر آبادی سے ٹیکس وصول کریں اور اس رقم میں سے ایک حصہ مرکز میں دارالسلطنت میں در بار کو بھیجیں اور باقی خود استعمال کریں۔ ضرورت پڑنے پر ان جاگیرداروں کے لیے ضروری تھا کہ وہ بادشاہ کو اپنی فوج فراہم کریں لیکن وہ جاگیریں جو مذہبی پیشواؤں کو دی جاتی تھیں وہاں عمو ماً کم تعداد میں فوجیں رکھی تھیں۔ یوں فوجی سپلائی سے یہ مستثنیٰ ہوتی تھیں ۔

بابر وہ عظیم بادشاہ تھا جس نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ بارود کا استعمال کیا تھا جب کہ اس دور تک بارود کا استعمال چین سے نکل کر یورپ میں زیادہ جدید انداز سے ہونے لگا تھا۔ عرب بھی اس کو اپنے توپ خانے میں استعمال کرنے لگے تھے اس دور میں یورپ سے ہندوستان تک کے بیشتر ساحلوں اور سمندری راستوں پر عربوں کا قبضہ تھا جب کہ ہندوستان میں ہندو آبادی میں مذہبی طور پر سمندری سفر پر پابندی تھی اور سمندر کا سفر کرنے والے کا دھرم نشٹ ہوجا تا تھا۔ 1481 ء سے1492 ء تک سپین میں ریاست آرگوان کے بادشاہ فرڈیننڈ اور ریاست کیسٹائل کی ملکہ ازیبلا نے شادی کر کے متحد ہوکر مسلمانوں کی ریاست غرناطہ کے خلا ف جنگ کی اور 1492 ء میں مکمل فتح کے بعد اسپین میں ایک مسلمان کو نہیں چھوڑا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کرنے کے لیے ملا ح مہم جوئی کر رہے تھے جن میں سے دو اہم رہے۔

واسکوڈی گاما نے ہندوستان کا راستہ دریافت کر لیا اور کولمبس جس کی مالی معاونت اسپین کی ملکہ ازیبلا نے کی تھی اس نے امریکہ دریافت کرلیا، اور اس دور سے یورپ میں نہ صرف صنعتی اقتصادی ترقی شروع ہوئی بلکہ اب بڑی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ لندن کے بعد یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی اسٹاک ایکسچینج سنٹرل بنکنگ سسٹم کے ساتھ وجود میں آگیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام سے قبل بابر کی طرح جب کوئی بیرونی حملہ آور کسی ملک پر حملہ کرکے فتح کرتا تو دو صورتیں ہوتیں ایک یہ کہ وہ یا تو یہاں قتل وغارت اور لوٹ مار کرکے واپس ہو جاتا تو ایک بار ہی اس ملک کی دولت ملک سے باہر جاتی اور اگر یہاں حکومت قائم کرتا اور اس کی نسل کی کئی صدیوں تک بادشاہت قائم رہتی تو یوں جب حکومت قائم ہو جاتی تو اس ملک کی دولت اوروسائل اس ملک میں رہتے، اگر بادشاہ اچھا ہوتا تو دولت رعایا کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تی اور اگر بادشاہ عیاش ہوتا تو دولت برے لوگوں کے پاس جاتی ، لیکن دولت ملک ہی میں رہتی اور اس کی گردش سے روزگار اور پیداوار میں اضافہ ہوتا رہتا۔ مگر جب سے نوآبادیاتی نظام قائم ہوا تو مغربی اقوام نے دنیا بھر میں اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کی بنیادوں پر امریکہ ، لاطینی امریکہ، کینیڈا،آسٹریلیا، ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں کو فتح کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیںاور پھر ان کی تجارتی کمپنیوں نے ان نوآبادیاتی ملکوں کے نہ صرف خزانے لوٹے بلکہ صدیوں تک ان کے وسائل لوٹتے رہے اور ان وسائل کو اپنے ملکوں میں منتقل کرتے رہے۔

جہاں تک تعلق امریکہ،کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، وغیرہ کا ہے تو یہاں کی پرانی آبادیاں تقریباً ختم کرکے یہاں اپنی نسلی قومی آبادیوں میں اضافہ کرکے ان ملکوں کی نسلی قومی شناخت ہی کو بدل دیا جبکہ ایشیا اور افریقہ میں یہ نوآبادیاتی نظام اپنی پورے ظلم وجبر کے سا تھ پہلی جنگ عظیم 1914-18 ء تک قائم رہا اور اس جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ختم ہونے، سابق سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کے آنے اور برطانیہ کے بعد امریکہ کے سپر پاور بن کر ابھرنے سے تیزی سے کمزور ہونے لگا۔

یہ وہ دور تھا جب انگریز نے ہندوستان میں اپنی حکومت کو بہت مضبوط کر لیا اور یہاں سے فوجیوں کو لے جا کر جنگ عظیم جیتنے کے بعد اس فکر میں تھا کہ 32 کروڑ کی آبادی اور تقریباً40  لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے اس اہم ملک پر صرف ایک لاکھ مرد جوان انگریزوں کے ساتھ کس طرح اس سونے کی چڑیا کو قابو میں رکھے۔ اگرچہ اس وقت بھی اس ہندوستان میں 530 ریاستوں کے راجے ، مہاراجے ، نوابین اور خوانین اس کے ساتھ تھے جو جاگیردارانہ نظام کے تحت ہندوستان کے عوام سے زیادہ انگریز کے وفادار تھے جب کہ تحصیلداروں، اسسٹنٹ، ڈپٹی اور کمشنروں، اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران اور صوبائی گورنروں کے ساتھ بہت مربو ط انداز میں انگریز وائسرائے اور گورنر جنرل سے منسلک ایک بہترین انتظامیہ بیوروکریسی کی تھی، ان میں سے بیشتر اعلیٰ افسران انگریز تھے اور جو مقامی تھے ان کی اکثریت ان نوابین اور راجاوں کے بچوں کی تھی ۔

جن کی خاص تعلیم وتربیت کے لیے انگریزوں نے لاہور میں ایچ ای سن اور ڈیرہ دون میں اعلیٰ اور مہنگے اسپیشل تعلیمی ادارے ، کالج قائم کئے تھے، مگر اس دور تک ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں قومی سیاسی سماجی شعور بیدار ہو چکا تھا، ان کو چھوٹے ہتھیار بندوقیں، دستی بم اور ڈائنامیٹ وار لیس تک بنانے اور استعمال کرنے کے طریقے آگئے تھے۔ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں کے راجاوں اور نوابین کی رعایا اب عوام میں بدل گئی تھی اور ہندوستان میں دیگر چھوٹی مذہبی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آگئی تھیں جن کی حیثیت اور اہمیت پہلی جنگ عظیم میں بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس جنگ میں ہندوستان سے بھرتی کئے جانے والے مسلمان، ہندو اور سکھ لاکھوں فوجی سپاہی اور چند درجن جونیئر فوجی افسران دنیا کے مختلف ملکوں میں انگریز اور اتحادی اعلیٰ اور سینئر فوجی افسران کی کمانڈ میں جرمنی اور ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ کی فوجوں کے خلاف لڑے تھے۔

یہ جنگ ہندوستان کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور سمندر پار لڑی جا رہی تھی جب کانگریس اور مسلم لیگ کے اہم لیڈروں نے اس دور کی اہم سیاسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے برصغیر کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد شروع کی اور تقسیم بنگال اور تنسیخ بنگال کی رنجشوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک ساتھ جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اس موقع پر عالمی سیاست کے اہم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے ہند و مسلم اتحاد کو ہمیشہ کے لیے ہندوستان کی آزادی اور استحکام کی بنیاد بناتے ہوئے 1916ء میں ایک ایسا بہترین فارمولہ دیا جو میثاق لکھنو کہلا یا اس مقصد کے لیے آل انڈیا کانگریس اور آل انڈ یا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے اور یہ میثاق طے پایا کہ ہندو مسلم آبادی کے اختلافات مستقل بنیادوں پر اور پائیدار انداز میں طے کئے بغیر ان کے درمیان کو ئی مستحکم اتحاد قائم نہیں ہوسکتا ، اس وقت ہندوستان میں قانون ساز اداروں کے لیے ہند و مسلم منتخب نمائندوں کے ساتھ ایک تہائی نمائندگی انگریز حکومت کے نامزد اراکین کے حوالے سے ہونی تھی۔

قائد اعظم نے یہ فار مولہ دیا کہ ہندوستان کی سماجی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں بر طانوی پارلیما نی طرز انتخابات کی بجائے جداگانہ طرز انتخاب کے طریقے کو رائج کیا جائے، یعنی مسلم اور ہندو آبادیوں کے تناسب سے صوبائی اور مرکزی قانون ساز اداروں کی نشستیں ہوں اور ان پر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ہندو، سکھ، مسلمان نامزد اراکین کو انتخابات میں ٹکٹ دے۔ یوں مسلمانوں کو مجموعی طور پر ایک تہائی نشستیں دی جائیں، قانون ساز ادارے میں جب بھی کوئی ایسا قانون تشکیل دینا ہوجس میں کسی فرقے سے متعلق بات ہو تو جب تک اس میں موجود متعلقہ فرقے سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تین چوتھائی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو اس وقت تک وہ قانون منظور نہ کیا جائے۔

صوبوں میں مسلمانوں اور ہندوں میںاتحاد کو مزید بہتر کرنے کے لیے جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہا ں قانون ساز اداروں میں ہندوؤں کو کچھ زیادہ نشستیں دی جائیں اور جہاں ہندو اکثر یت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو کچھ نشستیں زیادہ حاصل ہوں۔ ایسے نکات پر قائد اعظم کی کوششوں سے میثاق لکھنو کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان طے پا گیا اور پھر اس بنیاد پر ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لیے مشترکہ جد و جہد شروع ہوئی ۔ جنگ عظیم اول میں انگریزوں کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ جرمنی اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف فتح ہوئی لیکن اس سے ایک سال پہلے اکتوبر 1917 ء میں سابق سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب آگیا۔ برطانیہ کمزور اور امریکہ سپرپاور بننے لگا اور ہندوستان میں انگریز آئینی قانونی اصلاحات کے ساتھ آزادی کے پہلے مرحلے میں صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد مقامی آبادی کے نمائندوں کو جمہوری بنیادوں پر اقتدار میں شامل کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔

یہ قانون جو بعد میں قانون ِ ہند مجریہ 1935ء کہلا یا اس قانون کو ہندوستان کے مرکزی قانون ساز ادارے کی بجائے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے منظور کر نا تھا کہ اگست1928 ء میں کانگریس کی جانب سے نہرو رپورٹ سامنے آئی جس میں مسلم لیگ سے مشاورت کے بغیر میثاق لکھنو کی شقوں کو ردکرتے ہوئے انگریز حکومت کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اس رپورٹ کو دسمبر1929 ء تک نافذ نہ کیا گیا تو کانگریس پورے ہندوستان میں تحریک عدم تعاون شروع کر دے گی، اس کی منظوری کے لیے دسمبر1928 ء میں آل پارٹیز کانفرنس بلوائی گئی تو قائد اعظم نے سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس ان تین پوائنٹ کو اس رپورٹ میں شامل کرتی ہے تو ہم کانگریس کے ساتھ ہیں۔ 1 ۔ مرکزی مجلس ِ قانون ساز میں مسلمانوں کو کم سے کم 1/3 نشستیں دی جائیں ۔2 ۔ مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں اُن کی آبادی کے مطابق نشستیں دی جا ئیں ۔

3 ۔ تمام باقی اختیارات مرکز کی بجائے صوبوں کو دئیے جائیں۔ لیکن کانگریس نے ان تین پوائنٹ کو شامل نہ کیا اس پر جنوری 1929 ء کو دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کا اجلاس طلب کرکے مشاورت سے اپنے مشہور 14 نکات کا اعلان کردیا۔ ان نکات میں میثاق لکھنو کی شقوں اور درج بالا پوائنٹ کے ساتھ جداگانہ طریقہ انتخاب، ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی، ثقافتی ، تہذہبی شناخت کے ساتھ سیاسی معاشی ، سماجی حقوق کی ضمانت طلب کی گئی تھی اور ساتھ ہی سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبہ بنانے اور آج صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںدوسرے صوبوں کی طرح صوبائی اصلاحات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ، اس کے بعد دوسرے سال یعنی 1930 ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں علامہ اقبال نے کانگریس کے ردعمل میں پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے الگ مسلم وطن کا مطالبہ کردیا، 1935 ء کے قانون ہند میں جداگانہ طریقہ انتخاب کو تسلیم کرنے کے ساتھ بمبئی سے سندھ کو الگ کرکے صوبہ بنادیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی اصلاحات نافذ کردی گئیں۔

1935ء کے قانون کے مطابق 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں عام انتخابات ہوئے جن میں کانگریس نے مسلم لیگ کو بری طرح شکست دی اور نو صوبوں میں کانگریس نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اور دو صوبوں میں مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلوط صوبائی حکومتیں تشکیل دیںاور اس دوران ہندوستان کے مسلمان کا نگریس کے متعصبانہ رویوں کا شکار ہوئے۔ 1939 ء میں دوسری جنگ عظیم کے آثار نمایاں ہوچکے تھے انگر یز کو اب ہر قیمت پر ہندوستان سے لاکھوں مقامی افرادپر مشتمل فوج اور یہاں کے چالیس کروڑ عوام کی حمایت کی ضرورت تھی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کانگریس نے انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ ان سے یہ وعدہ کیا جائے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد انگریز ہندوستان میں اقتدار کانگریس کے حوالے کر کے رخصت ہو جائے گا اس لیے کانگریس نے دباؤ میں اضافہ کرنے کے لیے 1939 ء میں وزارتوں سے استعفے دے دئیے اور تحریک شروع کردی۔

جس کو قائد اعظم نے اس لیے ناکام کیا کہ اُن کے مطابق اس میں مسلمان انگریز کی غلامی کے بعد ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جاتے ،اور جہاں تک تعلق میثاق لکھنو اور نہرو رپورٹ کا تھا تو کانگریس نے 1916 ء میں میثاق لکھنو اس لیے کیا تھا کہ اگر جنگ ترکی اور جرمنی جیت جاتے تو گانگریس اس وقت اچھی پوزیشن میں ہوتی اور ان کی شکست کے بعد اب انہوں نے صرف اور صرف ہندو ازم کو مدنظر رکھا،23 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان منظور کرلی اور پھر 1945-46 ء کے موسم سرما میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 30 مسلم نشستوں پر سو فیصد اور صوبائی نشستوں پر 90 فیصد کامیابی حاصل کی اور پھر 14 اگست 1947 ء کو پاکستان بن گیا ۔

ہماری کوتاہیاں تھیں کہ ہم 1956 ء تک ا ٓئین نہ بنا سکے اور نہ ہی عام انتخابات کروا سکے پھر مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابری کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کوملا کر ون یونٹ بنا دیا ،جس سے مشرقی پاکستان میںجہاں کل آبادی کا55% تھا محرومی کا احساس بڑ ھتا گیا اور مغربی پاکستان میں بھی سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں بھی یہی صورتحال رہی اور جب ایوب خان کے خلاف معاہدہ تاشقند کو بنیاد بناتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفی دے کر تحریک شروع کی تو کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی ، اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن نے بھی عام انتخابات اور پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے ساتھ بنگالیوں کے حقوق کے لیے تحریک شروع کردی اور 5 فروری1966 ء کو لاہور میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات پیش کئے جو یوں تھے۔

1 ۔1940 ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں ایک وفاق پاکستان میںایک ایسے پارلیمانی نظام کی ضمانت دی جائے کہ جس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب قانون ساز کوبالا دستی حاصل ہو۔ 2۔مر کز کے پاس صرف دو محکمے دفاع اور امور خار جہ ہو 3۔دونوں حصوں کے لیے الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان سر مایہ کا فرار روکا جائے گا مشرقی پاکستان کا اپنا بنکنگ ریزرو سسٹم ( محفوظ سرمایہ کانظام ) بھی ہو۔ 4 ۔ٹیکس لگانے اور تمام مالیاتی وصولیوں کا اختیار مرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوگاجو ایک مخصوص شرح سے مرکز کے اخرجات اداکریں 5 ۔ہر صوبہ بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میںآزاد ہو اوراپنے حساب کتاب کا واحد حقدار ہو جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل وعمل پرکسی قسم کا ٹیکس نہ ہو6 ۔ مشرقی پاکستان کو الگ فوج یا نیم فوجی دستے رکھنے کا حق ہو تاکہ ملکی سلامتی اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے۔

1970 ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نے ان ہی چھ نکات کو انتخابی منشور بنا کر حصہ لیا اور اس وقت کی قومی اسمبلی کی کل 300 نشستیں تھیں جن میں سے 162 مشرقی پاکستان کی تھیں اور138 مغربی پاکستان کی شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 160 نشستیں حاصل کیں مغربی پاکستان میں بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 138 نشستوں میں سے 81 نشستیں حاصل کیں ان انتخابات میں دونوں حصوں میں کل 33004065 ووٹ کاسٹ ہوئے عوامی لیگ نے39.2% یعنی کل 12937162 ووٹ حاصل کئے پاکستان پیپلز پارٹی نے18.6% یعنی کل6148923 ووٹ حاصل کئے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کی 288 تمام کی تمام نشستیں حاصل کیں جب کہ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ نے کوئی ایک نشست بھی حاصل نہیں مغربی پاکستان کی چار صوبائی اسمبلیوں میں پنجاب کی کل180 نشستوں میں سے پی پی پی نے 113 اور سندھ کی 60 نشستوں میں سے28 نشستیں حاصل کیں خیبرپختونخوا کی کل 40 نشستوں میں سے پی پی پی نے صرف تین نشستیں لیں یہاں نیشنل عوامی پارٹی نے 13 اور جمعیت علما ِاسلام نے 4 نشستیں لیں ۔

بلو چستان صوبائی اسمبلی کی کل 20 نشستوںمیں سے پی پی پی کو ئی نشست حاصل نہ کر سکی یہاں نیپ نے8 جمعیت علما اسلام نے 2 نشستیں حاصل کیں چونکہ صدر جنرل یحیٰ خان کے مارشل دور میں ایل ایف او کے تحت الیکشن کروائے گئے تھے اس کے مطابق اسمبلی کے پہلے اجلاس سے 90 دن کے اندر نیا آئین بنا نا ضروری بلکہ لازمی تھا ورنہ دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرانے تھے ،اس لیے بھٹو مجیب مذاکرات شروع ہوئے بھٹو نے یہ تین پوئنٹ رکھے اور کہا کہ چونکہ مجیب کے چھ نکات عوامی لیگ کا منشور ہے اور ملک کا منشور ہمیشہ کے لیے یا طویل مدت کے لیے ہو تا ہے اس لیے اسے قومی اسمبلی مل کر بنائے ، دوئم ایل ایف او سے 90 دن میں آئین بنانے کی شرط ختم کردی جائے یا شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات میں سے تین نکات مشرقی پاکستان کی الگ کرنسی ریزرو بنکنگ سسٹم،ایک فوج یا نیم فوجی دستے،اور تمام ٹیکس اور مالیا تی امور کا صرف صوبائی حق ایسے نکات میں ردوبدل کرلیں،کیونکہ اس طرح ویسے ہی ملک کے ٹکڑے ہوجاتے اس بنیاد پر بقول بھٹو انہوں نے پنجا ب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہا تھا کہ یہاں ہما ری اکشریت ہے اور وہاں تمہا ری، اس لیے ملک کے نئے آئین بنانے میں ہماری شرائط کو بھی شامل کرنا ہو گا۔

اسی نعرے کو انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ یہا ں ہم وہاں تم لیکن1971 ء میں مشرقی پاکستان میں 15 سے25 مارچ تک جاری رہنے والے بھٹو مجیب مذاکرات ناکام ہو گئے اور25 مارچ کو مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی شروع ہو گئی بھٹو نے اس پوری صور تحا ل پر اپنی مشہور کتا ب گریٹ ٹریجڈی جس کا اردو ترجمہ عظیم المیہ کے نام سے ہوا ہے اس میں مجیب کے عزائم اندرا گاند ھی کی جانب سے بھارتی مداخلت اور عالمی سازش کا ذکر کیا ہے مگر بہت سے لوگ اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے ،اب جہاں تک بھٹو کے اپنے تین نکات کا تعلق ہے تو پی پی پی کا انتخابی نعرہ روٹی ،کپڑا ،اور مکان تھا جب کہ بنیادی منشور میں یہ تین نکات اہم تھے اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ بھٹو نے 1972 ء ہی میں ملک کو شدید بحران سے نکال لیا اور پھر ان تین نکات پر جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو انہوں نے پہلے 1972 ء کا عبوری آئین نافذ کر کے پارلیمانی نظام بحال کیا پھر 1973 ء کا متفقہ پارلیمانی آئین دیا مگر ساتھ ہی غیر جمہوری طور پر بلوچستان میں پہلے وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل کی نیپ اور جمعیت علما ِ اسلام کی مخلو ط حکومت ختم کردی جس پر خیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما ِاسلام کی مخلوط حکو مت کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کی حکو مت مستعفی ہوگئی اور بعد میں بھٹو ان دونوں صوبوںمیں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

لیکن بلوچستان میں ان کے اقتدار میں رہنے تک مسلح مزاحمت جاری رہی اسی طرح انہوں نے 1977 ء کے عام انتخابات میں غیر جمہوری عمل کو اختیار کرتے ہو ئے د ھاند لی کروائی جہاں تک تعلق اسلام ہمارا دین ہے کے نقطے کا ہے تو یہ اعزاز انہیں حاصل ہے کہ انہوں نے 1974 ء قادیا نیوں کو اقلیت قرار دینے کی علما کی تحر یک پر آئین میں ترمیم کردی انہوں نے آئین میں پہلے ہی ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو قبول کیا تھا اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ مشاورت کے لیے قائم کیا تھا ان کے دور میں نہ صرف پہلی مرتبہ امام کعبہ اور امام مسجد نبوی پاکستان تشریف لائے بلکہ سب سے اہم کام انہوں نے یہ کیا کہ عالم اسلام میں اتحا د قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی اور لاہور میں اسلامی سر برہ کانفرنس منعقد کر وائی ،اور جب 1977 میں ان کے خلاف تحریک چلی تو انہوں نے خود ملک میں شراب پر پابندی عائد کردی یہ حقیقت ہے کہ وہ مزاج کے اعتبار سے مذہبی انسان نہیں تھے ۔

جہاں تک تعلق سوشلزم کو معاشی نظام بنانے کی بات تھی تو ایک تو ان کی جماعت میں جا گیر دار اور سرمایہ دار موجود تھے مگر اس کے با وجود انہوں نے نہ صرف زرعی اصلاحات کر کے لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بے زمین کسانوں کو دی بلکہ بھار ی انڈسٹری سمیت پرائیویٹ بنکوں کو قومی ملکیت میںلیا لیکن ان اصلاحات سے قبل وہ ہمارے سماجی مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے مزدو روں اور خصوصا مزدور لیڈروں کو ان اصلاحات سے ہم آہنگ نہ کرسکے سیاسی بنیادوں پر قومیائے گئے صنعتی یونٹوں میں ضرورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں بھرتیوں سے اور لیبر یونینوں کی لیڈر شپ میں سوشلزم کے بنیادی شعور کے فقدان کی وجہ ان کے صنعتی ترقی پر منفی اثرات پڑ ے چونکہ بھٹو کی خا ر جہ پالیسی لا جواب تھی اس کی وجہ سے نہ صرف مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب کی جانب سے بڑی رقوم کی گرانٹ آتی رہی اور ساتھ ہی ان کے دور میں35 لاکھ پاکستانی ان ملکوں میں جاکر کام کرکے زرمباد لہ بھیجتے رہے اس لیے صنعتی یونٹو ں کا خسارہ برداشت ہو تا رہا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو کی پالیسیاں انقلابی انداز سے نا فذ العمل نہیں ہوئیں اور اسی لیے یہ بعد میں اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکیں یوں بھٹو کے تین نکات اور نعرے ان کے اپنے دور میں بھی پوری طرح موثرثابت نہیں ہوئے لیکن اس کے باجود اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سرد جنگ کے اہم ترین دور میں تیسری دنیا کے سب سے اہم لیڈر تھے۔

جنہوں نے دنیا میں عالمی استحصالی نظام کو چیلنج کیا۔اس کے بعد جنر ل ضیا الحق کا مارشل لا رہا 1988 ء سے 1999 ء تک نئی قیادت یعنی بینظیر بھٹو ،نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف غیر جمہوری انداز اختیار کرتے ہوئے حکومتوں کوآٹھ ویں ترمیم کے تحت گرواتے رہے اور جب اکتوبر 1999 ء کے بعد دونوں جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے تو آخر کا ر 14 مئی 2006 ء لندن میں ان کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے اور اس پر عمل در آمد کے لیے بینظیر نے بھٹو کی طرح جرات کا مظاہر کیا اور اس جد و جہد میں وہ 27 دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی میں شہید ہوگئیں اس وقت تک نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے حوالے سے ہونے والے شدید نوعیت کےواقعات ملک میں بڑھنے لگے۔

2008 ء میں پی پی پی کی وفاقی حکومت تشکیل پائی صدر ، آصف علی زرداری ہوئے اور وزیر اعظم پہلے یوسف رضا گیلانی اور بعد میں راجہ پر ویز اشرف ہوئے ان کے دور حکومت میں ان پر کرپشن کے الزامات مسلم لیگ نون کی جانب سے بھی عائد ہوتے رہے لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی لیکن یہ حقیقت ہے کرپشن کے الزامات کے اعتبار سے پیپلز پارٹی بدنام ہو ئی اور اس کا ووٹ بنک خصوصا پنجاب میں برباد ہو گیا،جب کہ اس دوران عمران خان نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کرپشن کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور یہ تحریک عوامی سطح پر بہت مقبول ہوئی 2011 ء میں اس کی مقبولیت پر اس وقت پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون ،ایم کیو ایم ،سمیت دیگر تما م پرانی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے اعتبار سے سوچنے پرمجبور ہو گئیں ۔

11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے لیکن تحریک انصا ف نے اس دھاندلی کو چیلنج کیا ان انتخا بات میں مسلم لیگ ن نے کل ایک کروڑ 48 لاکھ 65 ہزار 585 ووٹ حاصل کئے تحریک انصاف کو 76 لاکھ 79 ہزار 514 ووٹ ملے اور پیپلز پارٹی کو68 لاکھ 50 ہزار 27 ووٹ ملے ،پیپلز پارٹی کے ووٹ مجموعی طور پر کم تھے مگر ان کی نشستیں تحریک انساف کے مقابلے میں قدرے زیادہ تھیں یو ں حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے تعاون سے پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ لیڈر حزب اختلاف منتخب ہو گئے اور جب نواز شریف کی حکو مت کے خلاف تحریک انصا ف نے دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے ظاہری طور پر اور کبھی درپردہ نون حکومت کو بچانے کی کوشش کی اسی طرح جب پانامہ میں نواز خاندان کا نام آیا تو بھی ان کی کوشش یہ رہی کہ یہ معاملات پارلیمنٹ ہی میں طے کرلئے جائیں مگر بات خود نواز شریف کی جانب سے عدلیہ میں چلی گئی۔

اسوقت جب 5 مئی 2018 ء کو یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں تو نااہل وزیر اعظم نواز شریف ایک طرف کرپشن کے عائد الزامات پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں تو ساتھ ہی ان الزامات کو اپنے خلاف سازش قرار دے کر عوامی مہم شرو ع کرچکے ہیں کہہ رہے ہیں کہ عوام انہیںاتنی بھاری تعداد میں ووٹ دیں کہ مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آکر ان تمام قوا نین کو ختم کردے جن کی وجہ سے وہ اقتدار سے باہر ہوئے۔ اس پورے تناظر میں 29 اپریل 2018 ء کو مینار پاکستان پر عمران خان نے بھر پور جلسہ کیا جس میں انہوں نے آئند ہ انتخابا ت کے لیے اپنے 11 نکات عوام کے سامنے پیش کئے ہیںاور کہا کہ وہ قوم کو ایک بنانے کے لیے ایک تعلیمی نصاب ،ہیلتھ انشورنس پالیسی ،ٹیکس وصولی سسٹم کو ٹھیک کرنے،نیب کو مضبوط کرنے، کرپشن کے خاتمے،سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے ،اور لوگوں کو روز گار دینے کے منصوبے پر عمل کریں اور حکومت میں آکر ملک کو تیزی سے ترقی دیں گے۔

وہ بے گھر عوام کو 50 لاکھ گھر فراہم کریں گے اور ماحول کی بہتری کے لیے 10 ارب درخت لگائیں گے سیاحت کو فروغ دے کر اربوں ڈالر سالانہ زرمباد لہ حاصل کریں گے۔ یہ تمام باتیں درست لیکن ان کی بنیاد پر پاکستان میںبھاری ووٹو ں سے الیکشن جیتنے اور ان نکات کو نافذ عمل کرنے اور قابل فہم اور قابل عمل بنانے کے لیے عمران خا ن نے تفصیلی پروگرام ابھی تک نہیں دیا ہے یہ تمام گیارہ کے گیارہ نکات منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لحاظ سے ایک دو سرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ عالمی مالیاتی نظام میں ار تکاز زر بڑھ گیا ہے۔

یعنی مغربی ترقیافتہ ملکوں کے پاس منجمد سرمایہ زیادہ ہوگیا ہے اور ان کو اس کی بہت زیادہ فکر ہے کہ کس طرح اس منجمد سرمائے کو پوری دنیا میں گردش میں لائیں اس سرمائے میں ایک بڑا حصہ ہم جیسے ملکوں کے کرپٹ افراد کی اس بلیک منی کا ہے جو ملک سے مغرب کے بنکوں میں منتقل ہوتا رہا ہے اور اب ترقی پذیر ممالک کی اکثریت اس قابل بھی نہیں رہے گی کہ وہ قرضے لے کر اد ا کرسکیں اس لیے اب یہ مغربی ممالک خود چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے ثبوت آئیں تو وہ کرپشن کا سرمایہ کسی حد تک ان غریب ملکوں کو واپس کردیں تاکہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی دو بارہ اس قابل ہوکہ یہ ممالک اور ان کی حکومتیں ان ترقی یافتہ ملکوں سے اجناس اور مصنوعات در آمد کرسکیں اور ترقی یا فتہ ملکوں کے کارخانوں اور مارکیٹوں میں بے روز گاری نہ ہو ،یوں تحر یک انصاف کو اس حوالے سے پورا منصو بہ دینا ہوگا۔

سرمایہ کاری کے لیے امن و امان بنیادی شرط ہے جو ایک طرف بہترین دفاعی صلاحتیوں سے حاصل ہوتی ہے تو دوسری جانب آج کے دور میں اس کے لیے بہتر خار جہ پالیسی کی بھی ضرورت ہو تی ہے ماحولیات ،قدرتی آفات،غربت اور بے روزگاری کی بنیادی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ناخواندگی اور پست معیا ر تعلیم ہے ان تمام مسائل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جو بیان کی جاتی ہے بلکہ پاکستان کی صورتحال ایسے مریض کی سی ہے جسے مختلف بیماریاں ایسی لگ گئی ہیں ۔

جو ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہیں یعنی اگر پوری توجہ نہ دی جائے ایک کا علاج دوسری بیماری کی شدت کو بڑھاتا ہے دہشت گردی ،قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات،کرپشن کے خلاف اقدامات اور قانون سازی میں اصلاحات ،وغیرہ یوں سب سے پہلے ملک کے ان مسائل کے علاج کے لیے قوت مد افعت میں اضا فہ کرنا ہو گا یعنی لیڈر کا کردار صاف ستھر ا ہو اور پوری قوم اس کے ساتھ ہو ،یوں میثاق لکھنؤ اور قائد کے چودہ نکات سے لیکر آج تک ایک صدی گزر چکی ہے اور اب وقت کے ساتھ مسائل اور ان کی شدت میں بھی بہت اضافہ ہو چکا ہے اس لئے اب جو لیڈر جو بول رہا ہے اسے اس کا یقین بھی ہو نا چاہیے کہ وہ اسے کر کے بھی دکھا ئے گا، قائد نے قوم کو ایک ملک دے دیا تھا لیکن آج ملک اور قوم دونوں کی حیثیتوں پر ایک بار پھر سوالا ت اٹھ رہے ہیں جن کا تشفی آمیز اور فوری جواب نہایت ضروری ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔