امید و بیم کے درمیاں

مقتدا منصور  اتوار 21 اپريل 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پے در پے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، جن سے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا۔ میں 1970 کے عام انتخابات سے تادم تحریر ہر انتخاب کا مختلف حیثیتوں میں ناظر و شاہد رہا ہوں، مگر کبھی اس قدر پریشان نہیں ہوا جتنا آج کل ہوں۔ کیونکہ ان انتخابات کے نتیجے میں مجھے بہتری کے بجائے چہار سو مزید ابتری اور انتشار نظر آرہا ہے۔

اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم کے بعد یہ امید ہوچلی تھی کہ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے، مگر اس Mindset کا کیا کیا جائے جو بہتری کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف مذہبی شدت پسند عناصر نے تین مقبول سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے جلسوں پر خود کش حملوں کی دھمکی دے کر انتخابی عمل کو متاثرکرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ ان جماعتوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ان کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر عوامی نیشنل پارٹی ہورہی ہے، جس کے کئی امیدوار دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور مرکزی رہنما حاجی غلام احمد بلور پر بھی حملہ ہوچکا ہے۔

ان عناصر نے ایم کیو ایم کو بھی ایک امیدوار کے قتل کا تحفہ دے کر کھلے عام جلسوں سے باز رہنے کی تنبیہہ کردی ہے۔ دوسری طرف خضدار کے قریب مسلم لیگ (ن) کے سردار ثناء اﷲ زہری کے انتخابی جلوس پر حملے میں ان کے بیٹے، بھائی اور بھتیجا شہید ہوگئے۔ شدت پسند عناصر کی ان کارروائیوں سے اس تصور کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ ملک کے آیندہ انتخابات میں مذہبی جماعتوںکے علاوہ دائیں بازو کی کچھ جماعتوں کے لیے راستہ صاف کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

شدت پسند عناصر کی جانب سے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائیاں اپنی جگہ، مگر الیکشن کمیشن  کے بعض اقدامات کے بارے میں مختلف رائے آ رہی ہیں۔ بعض حلقوں کے نزدیک محسوس یہ ہورہا ہے، جیسے بہت سے فیصلے انتہائی عجلت میں کرلیے گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار ہونے کے بارے میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں اعتراضات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اول،  ریٹرننگ افسران کی انتخابی عمل کے حوالے سے نہ تو کوئی Orientation کی گئی اور نہ ہی انھیں آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے استعمال کا طریقہ کار سمجھایا گیا۔

جس کے نتیجے میں امیدواروں سے کیے گئے سوالات  غیر ذمے دارانہ تھے۔ دوئم، ٹیکس، یوٹیلٹی بلز اور بینکوں کے قرضوں کے نادہندگان کی درجہ بندی کی گئی اور کسی ریٹرننگ افسر نے اس حوالے سے کوئی سوال کرکے امیدوار کے کردار کا تعین کرنے کی کوشش نہ کی۔ سوئم، جن امیدواروں پر جعلی سندوں کے حوالے سے جعل سازی کا مقدمہ بنا تھا، انھیں ٹربیونل نے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے کر صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا۔

دوسری طرف عدلیہ حالیہ چند برسوں کے دوران عوام کو ریلیف دینے اور پہلے سے موجود مقدمات کے انبار کو کم کرنے کے بجائے سیاسی مقدمات میں الجھی رہی۔ جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ ایسے ان گنت مقدمات کئی دہائیوں سے سپریم کورٹ میں پڑے ہوئے ہیں، جن کا فیصلہ انتہائی کم مدت کی کارروائی میں ممکن ہے۔ اس کے برعکس سوئس بینک کیس پر قوم کا وقت اور پیسہ ضایع کیا گیا۔  سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور کیس کسی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ وہ ابھی تک ملزم (Accused) ہیں، مجرم ثابت نہیں ہوئے، مگر اس کے باوجود ریٹرننگ افسر نے ان کے نامزدگی فارم رد کردیے اور پھر ڈویژنل بنچ نے اس فیصلے کی توثیق کرکے ملزم اور مجرم کے فرق کو مٹادیا۔ گوکہ بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے انھیں الیکشن میں حصہ لینے کی محدود اجازت دے دی۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے نامزدگی فارم بھی چاروں حلقوں سے مسترد کیے جاچکے ہیں۔ چترال کے ریٹرننگ افسر نے ان کے فارم قبول کرلیے تو ٹربیونل کے ذریعے انھیں مسترد کرایا گیا۔ حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر کسی بھی عدالت نے کوئی فرد جرم عائد نہیں کی تھی۔ ان پر 62F کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ مگر انھیں ہر جگہ سے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ان کے بارے میں جو فیصلہ صادر کیا گیا، وہ بھی بعض قانونی ماہرین کے مطابق آئین اور عدالتی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ان کے لیے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے اور انھیں ظالم کے بجائے مظلوم بنانے کی دانستہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اب یہ عدالت عظمیٰ کی ذمے داری ہے کہ وہ پرویز مشرف کے معاملے میں قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی مکمل غیر جانبداری ثابت کرے۔

ایک اور معاملہ بھی ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے ایسے کئی امیدواران جن پر سندوں کے حوالے سے جعل سازی کے سنگین الزامات ہیں، انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے حالانکہ کئی ایک اس جرم میں اسمبلیوں کی رکنیت سے نا اہل ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت میں ملوث سنگین ملزموںکے خلاف کارروائی اول تو ہو نہیں رہی اور وہ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ سروسز رولز کے تحت جب کسی اہلکار کی ذمے داریاں کسی دوسرے محکمے کو منتقل ہوجاتی ہیں، تو جب تک وہ اس ادارے کے تحت کام کرتا ہے، اسی ادارے کے سربراہ کو جوابدہ ہوتا ہے اور اس مجاز اتھارٹی کے قوانین اور احکامات کی اس وقت تک تعمیل کرنا ہوتی، جب تک یہ ذمے داریاں تکمیل پذیر نہیں ہوجاتیں۔ اس طرح وہ تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان جن کی خدمات الیکشن کمیشن نے حاصل کی ہیں، وہ الیکشن کے انعقاد تک الیکشن کمیشن کے صوابدیدی اختیار کے تحت کام کرتے رہیں گے۔ انتخابی عمل میں عدلیہ کی مداخلت کا جواز اس وقت بنتا ہے، جب کوئی سائل الیکشن کمیشن کے کسی فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرے۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میں سول بیوروکریسی طاقتور ریاستی شراکت دار ہوا کرتی تھی، جس کی جگہ 1958 سے فوج نے سنبھال لی۔ 2002 میں جب حکومت نے نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کو کام کرنے کا موقع دیا تو ذرایع ابلاغ طاقتور ریاستی شراکت دار کے طور پر سامنے آیا، جو فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے لگا۔ 2007 میں وکلا تحریک کے نتیجے میں صورتحال مزید تبدیل ہو گئی۔ پاکستان میں طاقت کا توازن آج فوج، عدلیہ اور ذرایع ابلاغ کے مثلث کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ فیصلہ سازی میں اب کسی ایک ادارے کا کلیدی کردار نہیں رہا ہے۔ یہ صورتحال ملک میں انتظامی ڈھانچے کو غیر متوازن کرنے کا سبب بن رہی ہے، جس سے نظم حکمرانی میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ شاید ہم امیدوبیم کی اسی کیفیت سے دوچار رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔