رمضان کی نشریات اور عدالتی احکامات

مبین مرزا  اتوار 20 مئ 2018
عجیب تماشا لگایا ہوا ہے، حمد، نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں، فاضل جج۔ فوٹو : فائل

عجیب تماشا لگایا ہوا ہے، حمد، نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں، فاضل جج۔ فوٹو : فائل

ٹی وی چینلز پر روز پیش کیے جانے والے مارننگ شوز اور رمضان المبارک میں سحر اور افطار کے اوقات کی خصوصی نشریات کے حوالے سے دائر کی گئی ایک درخواست کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں گذشتہ دنوں پہلے فیصلہ محفوظ کیا گیا اور بعدازاں سنایا گیا۔

یہ درخواست ایک شہری وقاص ملک کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں عدالت کی توجہ اس مسئلے کی طرف دلائی گئی کہ ہمارے یہاں ٹی وی چینلز جو مارننگ شو پیش کررہے ہیں، وہ ہماری تہذیبی، اخلاقی اور سماجی اقدار کے خلاف مواد رکھتے ہیں۔ اسی طرح رمضان کی نشریات کے جو پروگرام بالخصوص سحر اور افطار کے وقت نشر کیے جاتے ہیں، وہ ہماری اصل مذہبی و علمی روایت اور اس ماہِ مبارک کے تقدس و احترام کے منافی ہیں۔ ایسے پروگرام ہمارے معاشرے میں بے راہ روی، ذہنی پراگندگی اور اخلاق باختگی کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلائی جارہی ہے اور مذہب کے نام پر گم راہی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران ملک میں نشریات سے متعلقہ اداروں پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاک سیٹ کے نمائندے بھی موجود تھے، جن سے بعض امور و مسائل پر وضاحت بھی طلب کی گئی۔ فاضل جج نے سماعت مکمل ہونے پر جن خیالات اور آرا کا اظہار کیا اُن سے فیصلے کی نوعیت اور ملک میں جاری نشریاتی صورتِ حال کے بارے میں اقدامات کی ضرورت واضح طور پر سامنے آتی ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ عجیب تماشا لگایا ہوا ہے، حمد، نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ انھوں نے ہدایت کی کہ مغرب کی اذان سے پانچ منٹ پہلے دوسری سب چیزیں موقوف کرکے درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کیا جائے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر اینکرز باز نہ آئے تو اُن پر تاحیات پابندی لگا دی جائے گی۔ فاضل جج نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران سحر و افطار کی ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دی جائے گی۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ہمارے یہاں اس نوع کی نشریات میں اچھل کود کا کلچر اصل میں ایک اینکر نے متعارف کرایا اور باقی سب اس کے شاگرد ہیں۔

فاضل جج نے رمضان کی خصوصی نشریات کے حوالے سے رائے دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کرکٹ میچ پر تجزیہ کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، لیکن اسلامی موضوعات پر بات کرنے کے لیے کرکٹرز اور اداکاروں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ مارننگ شو ہو یا رمضان کی نشریات، اسلام کے موضوعات اور مسائل پر گفتگو کے لیے پی ایچ ڈی اسکالرز کو بلایا جائے۔ اب اُن سے کم اہلیت و صلاحیت کا آدمی یہ کام نہیں کرے گا۔ سماعت کے دوران ایک موقعے پر پیمرا سے کہا گیا کہ وہ رپورٹ پیش کرے ملک میں چلنے والے چینلز کی تعداد کیا ہے اور اُن میں سے کتنے چینلز اذان نشر کرتے ہیں۔ پیمرا کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 117 چینلز ہیں اور ان میں سے تین چینلز اذان نشر کرتے ہیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ بھارتی چینلز کون چلا رہا ہے اور اس پر رپورٹ پیش کرنے کے لیے بھی کہا۔ فاضل جج نے یہ بھی کہا کہ اداروں کے خلاف کی جانے والی بات اگر سنسر ہوسکتی ہے تو دین کے خلاف بات سنسر کیوں نہیں ہوتی۔ عدالت کی طرف سے تاکید کی گئی کہ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ اُن کے میزبان اور مہمان کسی کی طرف سے بھی رمضان المبارک کی تقدیس پر کوئی سمجھوتا نہ ہو۔ تمام چینلز رمضان المبارک میں مقامی وقت کے مطابق پانچ وقت اذان نشر کریں گے۔

مزید کہا گیا کہ مغرب یعنی افطار سے پہلے درودشریف نشر ہو اور ملک کی سلامتی، استحکام اور امن کے لیے دعا کی جائے۔ فاضل جج نے حکم دیا کہ لاٹری اور جوا جیسے انداز کے پروگرام یہاں تک کہ حج اور عمرے کے ٹکٹس کے حوالے سے بھی کوئی چیز براہِ راست یا ریکارڈ شدہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نیلام گھر اور سرکس جیسے پروگرام بند کیے جائیں۔ غیر ملکی مواد خاص طور پر بھارتی ڈرامے، فلمیں اور اشتہارات پر پابندی ہوگی۔ دس فی صد غیر ملکی مواد ضابطۂ اخلاق کے تحت نشر کرنے کی اجازت ہوگی، اور اس میں ریاست اور اسلام کے خلاف مواد کی خاص طور پر مانیٹرنگ کی جائے گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ وزارتِ اطلاعات اور داخلہ کے سیکریٹریز اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی رمضان المبارک کے پہلے عشرے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔ پیمرا سے کہا گیا کہ وہ ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے ہدایات جاری کرے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پیمرا کی جاری کردہ ہدایات کے خلاف کوئی پروگرام نہیں کیا جائے گا اور سب پروگرامز کی سخت نگرانی کی جائے گی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اس فیصلے پر گفتگو سے پہلے ضروری ہے کہ اُس درخواست گزار کو سراہا جائے جس نے ضروری سمجھا کہ عدالتِ عالیہ کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی جائے۔ عدالتی مسائل کو جاننے کے باوجود یہ ہمت کی کہ اپنے معروضات عدالت تک پہنچائے۔ ان سب دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا جو اس نوع کے کاموں کا ہمارے یہاں لازمی حصہ ہوچکی ہیں۔ ایسے کام مال، وقت اور توانائی صرف کیے بغیر نہیں ہوسکتے۔

وقاص ملک کا یہ ایثار، ہمت اور جستجو بلاشبہ قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے جو کام کیا وہ اُن کے عزم و حوصلے کا مظہر ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کچھ انھوں نے سوچا اور محسوس کیا، وہ دراصل اس ملک کی خاموش اکثریت کی ترجمانی ہے۔ وطنِ عزیز کے کروڑوں عوام بالکل اسی انداز سے سوچتے ہیں اور اپنے چینلز کی نشریات کو دیکھ کر حقیقتاً ویسا ہی محسوس کرتے ہیں، جیسا وقاص ملک نے کیا۔ انھوں نے اس معاملے میں ان سب لوگوں کی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیا جو اپنی تہذیب پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی سماجی و اخلاقی قدروں سے محبت کرتے ہیں اور انھیں ملک و معاشرے میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

اب آئیے اس فیصلے پر۔ سب سے پہلے قابلِ داد ہے اس کا وقت۔ رمضان المبارک کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ ایسے وقت میں فیصلے کا آنا اس کی اہمیت اور افادیت بڑھا دیتا ہے۔ محاورے کے مطابق انصاف میں تاخیر اس کی نفی کے مترادف ہوتی ہے۔ عمل کی اس دنیا میں گواہی، فیصلہ یا اقدام بروقت نہ ہو تو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ لہٰذا رمضان کی آمد کے اس موقعے پر یہ فیصلہ نہایت مؤثر اقدامات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ فیصلے میں جن امور اور مسائل کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے، عملاً ان کا جائزہ لینا اور احکامات کی روشنی میں مطلوبہ اہداف حاصل کرنا بہتر طور سے ممکن ہے۔

دوسری بات یہ کہ دنیا بھر میں خبر رساں ادارے خصوصاً ٹی وی چینلز خود اپنی جگہ ریاست کی حیثیت حاصل کر گئے ہیں۔ وہ ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست قائم کرلیتے ہیں۔ چوںکہ عوام سے وہ براہِ راست مخاطب ہوتے اور مختلف شکلوں میں اپنا ربط استوار کرتے ہیں، اس لیے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے اور رائے عامہ بنانے میں ان کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے لیے بنائے گئے انتظامی ادارے یا ریگولیٹری اتھارٹیز ہی نہیں بیوروکریسی اور حکومتی افراد اور ادارے سبھی ان سے رعب کھاتے ہیں۔ وہ بناکر رکھنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اثر انداز ہونے یا ان سے ٹکرانے سے ہر ممکن گریز کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ صورتِ حال عالمی سطح پر اسی انداز سے اپنا نقشہ پیش کرتی ہے، لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں یہ معاملہ حد سے کچھ سوا اِس لیے نظر آتا ہے کہ حکومتی ادارے اور افراد ان چینلز سے مشترکہ مفاد کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور طرفین حتی الوسع اسے نبھاتے اور اپنے لیے بہ روئے کار لاتے ہیں۔

اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہونے کے باوجود اعلیٰ عدالت اور فاضل جج کا ان چینلز سے یوں مخاطب ہونا نہایت قابلِ تعریف ہے۔ مصلحت اس وقت تک بری چیز نہیں ہوتی جب تک وہ منافقت کی حد کو نہیں پہنچتی۔ منافقت کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں افراد یا ادارے راست اقدام اور اپنے فرائض کے بجائے عافیت کوشی کو بوجوہ ترجیح دینے کا سوچتے ہیں اور دیانت دارانہ کام سے عزت حاصل کرنے کے بجائے غفلت، چشم پوشی یا نااہلی کے ذریعے ساکھ بنانے اور عزت بچانے ہی کو اصل کام سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ مصلحت ہوتی ہے جو پہلے افراد کو اور بعدازاں اداروں، قوموں اور تہذیبوں کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھا کر کھوکھلا کردیتی ہے۔

اعلیٰ عدالت اور فاضل جج نے جس طرح کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ان چینلز کے مسائل کو ان کے اندر جھانک کر سمجھا اور اُن کے بارے میں راست اقدام کا فیصلہ سنایا، وہ لائقِ صد ستائش تو ہے ہی، ساتھ ہی دوسرے قومی اداروں اور اعلیٰ مناصب پر فائز افراد کے لیے ایک روشن اور قابلِ تقلید مثال بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔