عنوان کے بغیر

رئیس فاطمہ  اتوار 20 مئ 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایک عجیب ماحول میں جی رہے ہیں ہم لوگ ، پریشانی، افراتفری اور بے یقینی کا ساتھ ہے۔ لوگوں میں آپس میں اپنائیت نہیں رہی، خاندان بکھر گئے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے خاتمے نے لوگوں کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا ہے۔ مایوسی اور افسردگی نے دلوں میں گھرکرلیے ہیں۔

لوگوں کے پاس ملنے جلنے کی فرصت نہیں ہے۔ اس بے یقینی نے لوگوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے۔ بات بات پر ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔ وہ دن کیا ہوئے جب تنخواہیں کم تھیں، روپیہ روبہ زوال نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے کے گھر جاکر رہتے تھے، بچوں کو رشتوں کی پہچان تھی، رشتوں کا ایک تقدس تھا، کون دادا ہے کون دادی ہے، خالہ، ماموں، پھوپھیاں کس مخلوق کا نام ہے۔

یہ سارا حسن جو زندگیوں میں تھا ہمارے ملک کی گندی سیاست نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ صرف دکھاوا باقی رہ گیا ہے۔ حرص و ہوس نے ڈیرے ڈال لیے ہیں، شادی بیاہ میں قریبی رشتے دار چند دن پہلے سے آکر رہتے تھے، مہندی، مایوں کی رسمیں گھروں میں ہوتی تھیں، آپس میں محبتیں بڑھتی تھیں۔ گھروں کے آگے شامیانے لگا کر تقاریب ہوجاتی تھیں ، صرف ایک یا دو کھانے ہوتے تھے، ایک میٹھا ہوتا تھا۔

اب کیا ہے کہ شادیاں ہال میں ہو رہی ہیں لاکھوں روپیہ دکھاؤے پر لگایا جا رہا ہے۔ تقریبات میں لوگ جس طرح کھانا برباد کرتے ہیں انھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ کسی مہذب فیملی سے تعلق ہے۔ وہ دھکم پیل ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو اس افراتفری کا حصہ نہیں بن سکتے انھیں یہ سب بہت غیر شائستہ لگتا ہے۔ وہ جب میزوں کی جانب بڑھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ٹڈی دل نے کسی کھیت پر حملہ کیا ہے اور سارا کھانا چٹ کرگئیں ۔

ایک صاحب نے اس صورتحال پہ یوں تبصرہ کیا کہ جب آدھی رات کو کھانا پیش کیا جائے گا تو یہی حشر ہوگا۔ شادی ہال والے وقت کی پابندی کا خیال نہیں کرتے۔ بارہ بجے رات باہرکی لائٹیں بند کردی جاتی ہیں اور پولیس والوں کو ’’نذرانہ‘‘ پیش کرکے رات دو دو بجے تقریبات ختم ہوتی ہیں۔

بات چلی تھی ملک میں افراتفری اور بے یقینی سے اور نکل گئی کہیں اور۔ دراصل محمد علی جناح اور ان کے ساتھی نیک نیت تھے انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کی راہ اس لیے نکالی تھی تاکہ لوگ آزادی سے مل جل کر رہیں۔ ہندوستان میں بڑے بڑے عہدوں پر زیادہ تر ہندوؤں کا راج تھا کیونکہ ان کے پاس تعلیم تھی، مسلمان یہاں مار کھاتے تھے۔

سرسید احمد خان نے اپنی کوششوں سے مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کیا۔ پاکستان بن گیا، دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، لیکن ’’پاکستان‘‘ کہاں ہے؟ پاکستان تو قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی ختم ہوگیا۔ اب بلوچستان بلوچوں کا، خیبر پختونخواہ پٹھانوں کا، پنجاب پنجابیوں کا، رہ گئے اردو بولنے والے، سو ان کا کوئی صوبہ نہیں ہے۔ ہجرت تو پنجابیوں نے اور دوسری قوموں نے بھی کی تھی لیکن انھیں ’’مہاجر‘‘ نہیں کہا گیا کیونکہ ان کی زبان بولنے والا صوبہ پہلے سے موجود تھا۔

ایسے موقعے پر مولانا ابوالکلام آزاد کا خطبہ یاد آتا ہے۔ اردو بولنے والوں کو ’’مہاجر‘‘ کہا گیا اور ان سے سلوک بھی متعصبانہ رکھا گیا۔ انبالہ، امرتسر اور مشرقی پنجاب کے بہت سے شہروں سے لوگوں نے ہجرت کی لیکن یہاں انھیں غیر نہیں سمجھا گیا۔ وہ اپنے اپنے صوبوں میں کھپ گئے۔ قومیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بنتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو عرب و عجم کا تصور نہ ہوتا۔ تمام مسلم ممالک ایک قوم ہوتے، مسلم ممالک کے بیچوں بیچ اسرائیل کا وجود نہ ہوتا۔

سعودی عرب ایک خاص مسلک امریکا کے کہنے پر نہ پھیلاتا۔ اگر قومیں مذہب سے بنتیں تو آج پاکستان کا منظر نامہ دوسرا ہوتا۔ قومیں کلچر سے بنتی ہیں۔ سعودی قوم ایران سے مختلف ہے اپنے کلچر کی وجہ سے اور رہ گیا پاکستان تو یہ جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ ہے۔

ہمارے موجودہ اور ماضی کے تمام سیاستدانوں نے صوبائی تعصب کو ہوا دی ہے۔ برادری سسٹم پہ ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں، جہالت کے اندھیروں سے سرمایہ دار، سیاستدان اور مولوی نے فائدہ اٹھایا اور ووٹر کے ذہن میں ڈال دیا کہ ’’تم جو زبان بولتے ہو اس کے بولنے والے کو ووٹ دو۔‘‘ اور یہی خرابی کی جڑ ہے۔

ایم کیو ایم کا حشر جو ’’خاص‘‘ لوگوں نے کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ مصطفیٰ کمال جو آج الطاف حسین کی دشمنی میں سب سے آگے ہیں انھیں سامنے کون لایا؟ سراج الدولہ کالج کے ایک طالب علم کو میئر کی پہچان کس نے دی، انھیں جانتا کون تھا؟ ان کی بھی کمزوریوں کی فائل ’’خاص‘‘ لوگوں کے پاس ہے اسی لیے اچانک چھاتا بردار کی طرح انھیں میدان میں اتارا گیا اور ایم کیو ایم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنا برسوں کا منصوبہ پورا ہوا۔

جب سب قومیتوں کا صوبہ ہے تو اردو اور سرائیکی بولنے والوں کا صوبہ بھی ہونا چاہیے لیکن وہ حکمران جو ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے انھیں سب سے زیادہ اعتراض تھا کہ سرائیکی اور اردو بولنے والوں کا صوبہ نہ بنے۔ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، ایک طرف ملالہ کو ہیروئن بنایا جا رہا ہے!! آخر اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جو امریکا بہادر اس کے قدموں تلے ریڈ کارپٹ بچھا رہے ہیں۔ ملالہ کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی تو زخمی ہوئی تھیں آخر انھیں اتنی عزت کیوں نہیں دی۔ یہ بہت لمبا گیم ہے۔

بالکل ایسا ہی جیسے انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد صرف تجارت کے لیے ڈالی تھی اور بعد میں پورے برصغیر کے مالک بن بیٹھے۔ ملالہ کے علاوہ اور بھی لڑکیاں اور خواتین جدوجہد کر رہی ہیں لیکن وہ امریکا کو نظر نہیں آتیں۔  آج ہم پنجابی، مہاجر، پٹھان، بلوچی اور سندھی ہیں اسی لیے تباہی ہمارا مقدر ہے جس دن ہم صرف ’’پاکستانی‘‘ بن گئے ہمارے دن پھر جائیں گے۔ لیکن سیاستدان ایسا نہیں ہونے دیں گے انھیں برادری اور لسانی سسٹم سوٹ کرتا ہے، ہم مسلسل تباہی کی طرف جا رہے ہیں، لٹیرے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔

’’خاص‘‘ لوگوں نے بھی اپنی اپنی بٹالین بنا لی ہے، کوئی (ن) لیگ کا حامی ہے، کوئی پی پی کا کوئی کے پی کے کا کوئی پی ٹی آئی کا کوئی سندھ کا، کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ہر جماعت یہاں قبضہ کرنا چاہتی ہے لیکن کراچی کے بنیادی مسائل سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اسی لیے بڑی پلاننگ اور جدوجہد سے ’’اوپر‘‘ والوں نے ایم کیو ایم میں پھوٹ ڈالی ہے۔ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کا کیک سب کھانا چاہتے ہیں، کیک ایک ہے اور حصے دار زیادہ۔ جس جماعت کے اتحاد اور ڈسپلن کی مثال دی جاتی تھی آج ان کا اتحاد پارہ پارہ ہے۔

بیچ چوراہے پر سب کے گندے کپڑے دھل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم جھاڑو کے بندھن کھل جانے کی طرح بکھر گئی۔ سب کو اپنی ڈفلی اپنا راگ گانا اور بجانا ہے۔ کراچی کو صوبہ بنانے کی بات خلائی مخلوق کے گلے سے نہیں اترتی ، جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبے میں بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ سارے جلسے اور بیانات صرف اقتدار کی دیگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

الیکشن کے بعد جو عوام کے گلے میں بانہیں ڈال کر اور ماتھے پہ بوسہ دلوا کر سمجھ رہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں وہ اس بار غلطی پر ہیں۔ میں نے پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے بہت سارے الیکشن میں ڈیوٹی کی ہے اور یہ برملا کہہ رہی ہوں کہ جو ہوگا وہ اچھا نہیں ہوگا۔ نتائج وہی ہوں گے جو ’’خاص‘‘ لوگ چاہتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ عمران خان کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ ہم کب تک امریکا کی مرضی کے آگے سر جھکا کر ایک باری زرداری کی، دوسری باری نواز شریف کی۔ یہ باریوں کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔

چلتے چلتے دو کتابوں کا تعارف کرادوں جو گزشتہ دنوں موصول ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب افسانوں پر مشتمل ہے اس کی مصنفہ ہیں شہناز خانم عابدی۔ اسے اکادمی بازیافت نے بڑے سلیقے سے شایع کیا ہے۔ شہناز صاحبہ کے افسانے ان کے مشاہدات اور تجربوں کا نچوڑ ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بنیادی مسائل کو انھوں نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ یہ افسانے بڑی دل جمعی اور توجہ سے لکھے گئے ہیں۔

کفایت لفظی ایک خاص خوبی ہے جو ان افسانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ شہناز کا اولین افسانوی مجموعہ ’’خواب کا رشتہ‘‘ بہت پہلے شایع ہوچکا ہے۔ زبان پر انھیں پورا عبور حاصل ہے۔ پیرایہ بیان بھی دلکش ہے۔ دوسری کتاب ایک شعری مجموعہ ہے جس کی تخلیق کار ہیں انیس فاطمہ صدیقی اور مجموعے کا نام ہے ’’نوحہ گر تنہائیاں‘‘ انیس فاطمہ کا یہ پہلا مجموعہ ہے اور اس میں حمد، نظم، غزل اور قطعات سب شامل ہیں اور یہ مجموعہ فیصل آباد سے شایع ہوا ہے۔ دو شعر سنیے:

سکوں کا حوصلہ‘ سوز دروں تک آ پہنچا

مثال برق‘ حواس اپنے تند خو کرلیں

٭٭٭

یہ ضروری تو نہیں کہ صرف دشمن ہو رقیب

اس میں کچھ شامل ہیں‘ اپنے اور کچھ اغیار بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔