تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے

رحمت علی رازی  اتوار 20 مئ 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

محسن کشی اور احسان فراموشی کیا اور کیسی ہوتی ہے، اِسے ہم نے اپنی زندگی ہی کے دوران مجسّم حالت میں دیکھ لیا ہے۔ ہم تو صرف ایک مصرعے کی شکل میں محض سُنا ہی کرتے تھے کہ:’’ اِس گھر کو آگ لگ گئی ، گھر کے چراغ سے‘‘ اب ہم نے حقیقی اور واقعی معنوں میں دیکھ بھی لیا ہے کہ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ کیسے لگتی ہے اور آگ لگانے والے کا مکروہ چہرہ کیسا ہوتا ہے؟

ہم یہ خاص چہرہ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد عوام بھی یہ چہرہ کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ یہ چہرہ بھلایا جا ہی نہیں سکتا۔اِس چہرے نے ہم سب کے دلوں پر چرکہ لگایا ہے۔دشمنوں کے مفادات میں ایسا وار کیا گیا ہے کہ اِس کی ضرب ساری قوم نے مشترکہ اور یکساں طور پر اپنے قلب و رُوح پر محسوس کی ہے۔ ابھی تک اِس کی تکلیف اور ٹیس مدہم نہیں ہو سکی ہے۔

دشمنانِ وطنِ عزیز کے گھروں میں شادیانے بج رہے ہیں اورہم ہیں کہ اپنے ہی زخم چاٹ رہے ہیں۔ اورجس نے یہ زخم لگایا ہے، ابھی تک اُس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکا ‘ اُس کے خلاف شور تو بہت ہے مگر عمل کا محاذ خاموش ‘یوں لگا ہے جیسے قومی دکھ اور زخم دینے والے کے سامنے سارے بے بس اور بیکس ہو کر رہ گئے ہیں۔ غصے، طیش اور انتقام سے لال بھبھوکا ہُوا نواز شریف کا چہرہ سارے ملک کے حواس اور اعصاب پر چھایا نظر آرہا ہے۔

پاکستان کے تین بار بننے والے وزیر اعظم اور تاحیات نااہل ہونے والے نون لیگی رہنما نواز شریف اپنے وعدے کے پکے اور اپنے قول کے سچے ثابت ہُوئے ہیں۔ اُنکے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں رہا ہے۔انھوںنے جو کہا تھا، کر دکھایا ۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ’’نیب‘‘ عدالت کے باہر کھڑے ہو کر نواز شریف نے مغضوب الغضب ہو کر’’کسی‘‘ کو للکارتے ہُوئے کہا تھا:’’میرے سینے میں بہت سے راز ہیں۔ یہ راز کھولوں گا تو بہت طوفان آئیگا، اسلیے باز آ جائیں۔‘‘

یہ دھمکی انھوں نے کسے اور کیوں دی تھی؟ وہ کسے باز آنے کو للکار رہے تھے؟نواز شریف خوب جانتے ہیں ‘ وہ اِس دھمکی کے علیہ ماعلیہ سے بھی خوب واقف تھے اور ہیں۔ کچھ سوچ ہی کرانھوںنے یہ دھمکی آمیز الفاظ ادا کیے تھے۔ ہم سب منتظر تھے کہ وہ کسے دھمکا رہے ہیں؟ اور یہ کہ و ہ ’’رازوں سے بھری‘‘ اپنے سینے کی پٹاری کب کھولتے ہیں؟ اور یہ کہ وہ راز کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ بھی کہ اگر وہ کوئی راز افشا کرتے بھی ہیں تو کیا یہ اُس حلف کی سنگین ترین خلاف ورزی نہیں ہو گی جو حلف وہ تین بار وزیر اعظم بنتے وقت اُٹھا چکے ہیں؟

اب جو انھوں نے لب کشائی کی ہے تو پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد عوام نے جانا اور مانا ہے کہ تاحیات نااہل نواز شریف کے سینے کی پٹاری میں راز نہیں ، سانپ مقید ہیں۔ زہریلے پھَن پھیلائے ناگ۔ملکی سلامتی اور سالمیت کو ڈسنے والے بچھو۔ ہمیں نہیں معلوم کہ موصوف ان سانپوں کو اپنے دماغ اور سینے کی پٹاری میں پال کر کب سے پاکستان کے خلاف نفرت کا دودھ پلا رہے تھے۔ اب اِس پٹاری کا ذرا سا ڈھکن اوپر اُٹھا ہے تو نواز شریف کی اصلیت اور ذہنیت سب پر عیاں ہو گئی ہے۔

عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے ساری زندگی کیلیے نااہل قرار دئیے گئے اِس شخص نے زہر کی پچکاری مارتے ہُوئے کہا ہے :’’اگر ملک میں بیک وقت متوازی دو یاتین حکومتیں کام کررہی ہوں تو ملک نہیں چل سکتا۔ اس چلن کو روکنا ہو گا۔ ‘‘

انھوں نے دل کی مزید بھڑاس نکالتے اور اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہُوئے مزید کہا:’’ ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ ہمارا بیانیہ تسلیم نہیں کیا جارہا۔ (پاکستان میں) مسلح تنظیمیں بروئے کار ہیں۔ انہیں خواہ آپ غیر ریاستی عناصر کہیں۔ کیا ہمیں ان لوگوں کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار کر کے جائیں اور ممبئی جا کر 150افراد کو قتل کر دیں؟مجھے اس کی وضاحت دیں۔ ہم ابھی تک (ممبئی حملہ آوروںکے خلاف پاکستان میں) ٹرائل کیوں مکمل نہیں کر سکے؟۔‘‘

دشمنانِ پاکستان خصوصاً بھارت اور امریکا کو پاکستان کے خلاف ابھارنے اور پاکستان کے خلاف کوئی بڑا قدم اُٹھانے کیلیے نواز شریف کی طرف سے یہ دعوت دی گئی ہے۔اُنہوں نے اپنا مسئلہ انٹرنیشنلائز کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔نااہل سابق وزیر اعظم کو پکا شک ہو چکا ہے کہ انھیں کرپشن مقدمات میں سزا ہونے والی ہے؛ چنانچہ سزا بولنے سے قبل ہی انھوںنے سوچے منصوبے کے تحت یہ درفنطنی چھوڑ دی ہے، تاکہ انٹرنیشنل کمیونٹی تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ انھیں سزا کرپشن ، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے تحت نہیں ہُوئی بلکہ اسلیے انھیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کچھ قوتوں کی راہ میں مزاحم ہیں۔

نواز شریف کے اس اعترافی بیان کے سامنے آتے ہی بھارتی میڈیا اور عالمی مبصرین نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اُٹھا لیا ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو شدت اور حدت سے ہدف بنایا گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک پوری وحشت سے جاری و ساری ہے۔ اگر گھر والے ہی گھر کو نذرِ آتش کرنے پر تُل جائیں تو ہمسائے بھلا آگ بجھانے کیوں آئینگے؟ یہ آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی ہے۔

اس میں خوب غورو خوض شاملِ حال ہے۔ صاف عیاں ہے کہ نواز شریف نے یہ بیان دینے سے پہلے خود اور اپنے قریبی معتمد ساتھیوں سے مشورے کرکے اس کے نتائج پر سوچ بچار کیا ہوگا۔پہلے یہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کے خلاف یہ زہر گھولنے اور پوری قوم کے چہرے پر کالک ملنے کیلیے بھارتی صحافی کو بہانے سے پاکستان بلایا جائے اور اُس کے سامنے پاکستان کے خلاف شہادت دی جائے تاکہ بھارتی میڈیا کے توسط سے پاکستان کے خلاف ساری دنیا کو محاذ آرائی پر آمادہ کیا جا سکے۔

نواز شریف جب اس کوشش میں ناکام ہو گئے توانھوںنے اُسی انگریزی معاصر کے اُسی خاص صحافی کو خصوصی طور پر ملتان بلایا جس نے اس سے قبل بد نامِ زمانہ ’’ڈان لیکس‘‘ کا شرمناک اسکینڈل رپورٹ کیا تھا۔ اس میں بھی مبینہ طور پر نواز شریف کے بعض قریبی ساتھی اور معتمدین شامل تھے۔ اس لیکس نے پاکستان کے اداروں کے خلاف شرمناک اور زہریلی گرد اُڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

ایک وزیر اور مشیر کی قربانی دیکر وزیر اعظم نواز شریف نے اداروں کو مطمئن تو کر لیا تھا لیکن اُن کے دل میں انھی اداروں کے خلاف بُغض بھرتا رہا۔ وہ مسلسل انتقام میں جلتے بھنتے رہے لیکن زہر افشانی کا انھیں کوئی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا۔ وقتاً فوقتاً نواز شریف اشاروں اشاروں میں اداروں اور ہماری حساس شخصیات کو چڑانے کیلیے بیانات کے گولے داغتے رہے۔انھوںنے جب غدارِ پاکستان شیخ مجیب الرحمن کو بیگناہ قرار دیا اور اُسکے جرائم کو ’’ہماری زیادتیوں‘‘ کا نام دیا تو صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اُنکی سوچ کا رُخ کس جانب جھُک رہا ہے۔

نواز شریف نے دانستہ محمود خان اچکزئی ایسے افراد (جنہوں نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور افغانستان کے مفادات کا دَم بھرا ہے)کو اپنا ’’ہم خیال اور ہم نظر‘‘ قرار دیا تاکہ اپنے بھارتی دوستوں کو پیغام بھیجا جا سکے۔ اِس سے بڑھ کر شرم اور بے حسی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ حرکات وہ شخص کررہا ہے جسے پاکستان کے معصوم عوام نے تین بار اپنا وزیر اعظم منتخب کیا اور اب وہ اپنے عوام کی خواہشات اور آدرشوں کا خون کرنے پر تُل گیا ہے۔ جو نظریہ پاکستان کی اساس پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔ اس منصوبہ سازی میں اس شخص کی صاحبزادی بھی برابر کی شریک ہے؛ چنانچہ کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ راج دلاری اپنے والد کی انگیخت کا باعث بن رہی ہے۔

یہ بات یقین اور ایقان کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ اگر ’’ڈان لیکس‘‘ کے اصلی اور وڈّے ذمے داران کو سزا دی جاتی تو آج یہ روزِ بد بھی نہ دیکھنا پڑتا( اب تو16مئی 2018ء کو راج دلاری نے بھی کہہ دیا ہے کہ ڈان لیکس درست تھیں اور یہ کہ پرویز رشید کو ناجائز طور پر نکالا گیا)قومی اور سوشل میڈیا میں یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ بعض ذمے داران نے راج دلاری کانام ڈان لیکس سے نکال کر خود اُسے مبارکباد دی تھی تاکہ اپنی نوکری کے مفادات کو مزید بڑھایا جا سکے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

اگر یہ محض گپ اور ہوائی ہے تو بھی اب اِس پر یقین کرنے کو دل مانتے ہیں کہ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ راج دلاری کا نام دیدہ دانستہ لیکس سے نکالا گیا تھا۔راج دلاری کے والد مگر اپنے دل میں پنپنے والے بغض سے باز نہیں آئے اور اُنہوں نے ایک بار پھر اپنے پہلے سے آزمودہ صحافی دوست کا سہارا لے کر ممبئی حملوں اور اُن میں درجنوں کی تعداد میں ہلاک شدگان کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے۔

اِسی صحافی کے سامنے پاکستان کے خلاف تین بار منتخب ہونیوالے وزیر اعظم نے یہ گواہی دی ہے کہ یہ پاکستانی تھے جنہوں نے بین الاقوامی سرحد عبور کی اور ممبئی جا کر ڈیڑھ سو افراد کا خون کر دیا۔ قتل ہونیوالوں میں بھارتی بھی تھے اور امریکی بھی۔کیا یہ گواہی اس لیے نہیں دی گئی کہ بیک وقت بھارت اور امریکا کو پاکستان کا گھیراؤ کرنے پر اُکسایا جائے؟پاکستان کا ناطقہ بند کیا جائے؟

لوگ ششدر ہیں کہ پاکستان کے خلاف بروئے کار آنیوالوں میں ایک بار پھر وہی نواز شریف، پھر وہی اخبار، پھروہی رپورٹرپوری جسارت کے ساتھ پاکستانی اداروں کے مقابل آیا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت سمیت ساری دنیا کے اہلِ دانش حیران پریشان ہیں کہ دس سال پہلے ممبئی میں جنم لینے والا خونی سانحہ دراصل خود بھارتی خفیہ اداروں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کا کھیلا گیا کھیل تھا جس میں دانستہ پاکستان کو گھسیٹنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن پاکستان کے سابق اور نااہل وزیر اعظم نواز شریف سلطانی گواہ بن کر سامنے آ گئے ہیں کہ یہ حملہ کرنیوالے پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹر تھے۔

سانحہ ممبئی کے بعد دنیا میں چار بڑی اور اہم تحقیقی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایلیس ڈیوڈسن کی لکھی گئی کتاب کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ کتابیں لکھنے والے پاکستان کے دوست اور خیر خواہ نہیں ہیں لیکن انھوں نے دیانتداری کا ثبوت دیتے اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہُوئے لکھا ہے کہ ممبئی حملہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کِیا دھرا تھا۔ لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے ہُوئے بھی نواز شریف نے پاکستان کی لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ پہلے اُنکی کھُلے بندوں لُوٹ مار نے پاکستان کا بھرکس نکالا اور اب ملک دشمنی اور اپنے حلف سے انحراف پر مبنی یہ بیان مزید قیامتیں ڈھا گیا ہے۔

کیا ایسا شخص پاکستان کا مہربان اور پاکستانیوں کے لیے قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے شریف اور اشرافیہ خاندان اور اس کے جملہ افراد پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ لیکن ہماری قوم میں بد قسمتی سے اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو بوجوہ اِس ستمگر شخص کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ ستم سہنے اور ڈھٹائی کی حد نہیں؟ایسے لوگ اپنی زبان سے گویا خود گنگناتے ہُوئے کہتے ہیں:

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے دادلے

ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

سابق نااہل وزیر اعظم نے قومی سلامتی اور سالمیت کے منافی جو اقدام کیا ہے، اِسے اُنکی صاحبزادی نے بھی ٹویٹ کرکے یکساں طور پر بڑھاوا دیا ہے۔ گویا دونوں باپ بیٹی پوری ’’مستقل مزاجی‘‘ کے ساتھ اداروں سے ٹکراؤ پر تُلے بیٹھے ہیں۔

نواز شریف کے بیان کے دودن بعد ’’نیشنل سیکورٹی کمیٹی‘‘ کا ہنگامی اجلاس تو یقینی بلایا گیا لیکن اِس کا نتیجہ؟ اس اجلاس کی حساسیت کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اجلاس بلائے جانے کے حوالے سے خاص طور پر ٹویٹ کرکے میڈیائی اور سیاسی حلقوں کو متوجہ کیا۔

اجلاس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شریک تھے اور تینوں سروسز چیفس بھی۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بھی موجود تھے اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی(اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ دعوت دیے جانے کے باوجود پُراسرار طور پر اجلاس میں شریک نہیں ہُوئے) مگر نتیجہ کیا نکلا؟ ملک ، قوم اور قومی اداروں پر سنگین دہشتگردی کی تہمت لگانیوالے کے بارے میں کوئی بھی قابلِ ذکر ایکشن نہیں لیا گیا۔

سچ یہ ہے کہ قوم کو مایوسی ہی ہُوئی ہے کہ متذکرہ اجلاس کے بعد جو اعلامیہ پریس ریلیز کی شکل میں جاری کیا گیا ، اُس میں تہمتی بیان کی مذمت تو یقینا تھی لیکن تہمت لگانیوالے کے نام کا ذکر تک نہیں تھا۔ سُننے اور دیکھنے والوں نے محض ٹیوے لگا کر سوچ لیا کہ یہ ملزم نواز شریف کی طرف اشارہ ہو گا۔ نواز شریف کی جرأت ملاحظہ کیجئے کہ اُنہوں نے اِس اعلامیے کے مندرجات کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ ’’مجھے اس اعلامیے پر افسوس ہُوا ہے ۔ مَیں نے کوئی غلط بات تو نہیں کی تھی۔ اگر غلط کہا تھا تو میرے خلاف کمیشن بنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔‘‘

طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان بھی اپنے قائد کے الزامات کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور یہ کہتے ہُوئے بھی پائے گئے کہ’’ مَیں بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہُوں اور میاں شہباز شریف بھی اور ساری نون لیگ بھی۔‘‘عوام بیچارے حیران اور پریشان ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟دلچسپ بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ نون لیگ کے ترجمان بھی اور نون لیگ کے سربراہ شہباز شریف تو نواز شریف کے مہلک بیان کی تردیدیں کرتے رہے لیکن نواز شریف اپنے بیان پر ڈٹے رہے۔

اس صورتحال نے ساری نون لیگ و شین لیگ کا اخلاقی مورال بھی تباہ کر دیا ہے اور عوام کی نظروں میں بے اعتبار بھی ہو گئے ہیں۔ نون لیگ کے اندرونی حلقے بھی سرگوشیوں میں تسلیم کررہے ہیں کہ نواز شریف نے ممبئی حملوں کی ذمے داری پاکستانی اداروں اور ’’غیر ریاستی عناصر‘‘ پر ڈال کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو ماری ہی ہے ، ساری نون لیگ کو بھی لے ڈُوبے ہیں۔

خلقِ خدا کہہ رہی ہے کہ الیکشنوں پر نواز شریف کی یہ دریدہ دہنی نون لیگ اور شین لیگ کو ڈبونے کا باعث بن جائے گی کہ نواز شریف کھل کر بھارت کے یارثابت ہُوئے ہیں۔چھبیس ماہ قبل پاکستان میں دہشتگردی کی لاتعداد خونی وارداتیں کرنیوالا بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا لیکن نواز شریف اور راج دلاری کی زبان پر آج تک اس بھارتی دہشت گرد کا نام تک نہیں آیا۔

دونوں باپ بیٹی نے کبھی ایک لفظ میں اس دشمنِ پاکستان کی مذمت نہیں کی۔ یاری ہو تو ایسی ۔نااہل وزیر اعظم نے اپنی نواسی کی شادی میں بھارتی وزیر اعظم کو اچانک مدعو کرکے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو پہلے دن ہی ششدر کر دیا تھا۔ پھر وہ بھارت جا کر اپنے بیٹوں کے ساتھ بھارتی ارب پتی تاجروں سے جس طرح خفیہ ملاقاتیں کرتے پائے گئے، ان اوامر نے اُنکے بارے میں مزید شکوک و شبہات مستحکم کر دیے۔ نیپال میں بھارتی تاجروں سے اُنکی ملاقاتیں بھی ستم ڈھا گئی تھیں۔

اس کا ذکر مشہور بھارت مصنفہ اور صحافی برکھا دَت نے اپنی انکشاف انگیز کتاب میں کیا تھا تو نواز شریف کے بہی خواہوں نے کہا تھا : یہ ہمارے لیڈر کے خلاف صرف بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ لیکن اب تو بِلّی پوری طرح تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔ اب تو کوئی شبہ رہا ہے نہ کوئی بات پردے میں رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نواز شریف کی زبان کو کچھ اس صورت کھولا ہے کہ سارے مخفی ارادے عیاں ہو گئے ہیں۔ سارا ما فی الضمیر برہنہ ہو گیا ہے۔

نواز شریف نے ملک وقوم پر یہ ظلم عین اُس وقت ڈھایا ہے جب صرف دس دن بعد پیرس میں پاکستان کے بارے ’’گرے لسٹ‘‘ کا فیصلہ ہونیوالا تھا۔ 26فروری2018ء کو پیرس اجلاس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو تین مہینے دیے جارہے ہیں ۔ وارننگ دی گئی تھی کہ اِس دوران پاکستان کو ثابت کرنا ہو گا کہ اُس کی سرزمین پر کوئی دہشت گرد کسی ملک کے خلاف بروئے کار نہیں ہے۔ ثابت نہ کرنیکی صورت میں پاکستان کو معاشی طور پر سزا دینے کے لیے ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا جائے گا۔

پاکستان بڑی محنت کے ساتھ یہ ثابت بھی کررہا تھا کہ اُس کے ہاں کوئی دہشت گرد کسی کے خلاف عمل پیرا نہیں ہے کہ عین مقررہ تاریخ سے10دن قبل نواز شریف نے ممبئی میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں پاکستانی(غیر ریاستی) عناصر کے حصہ لینے کا اقرار و اعتراف کر کے اندھیر ہی مچا دیا ہے۔ ذاتی انتقام کی آگ میں بھسم ہو کر ملک کو ذبح کرنے کی شرمناک سازش کی گئی ہے۔ پاکستان انشا ء اللہ اس طرح کے بدبختوں کے شر سے محفوظ رہیگا لیکن وقتی طور پر تو سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔

یہ اعتراف کسی بھی شکل میں پاکستان سے وفا نہیں ہے۔ یہ وفا نہیں ، جفا ہے۔ اِس جفا جُوئی میں شاہد خاقان عباسی بھی یکساں شریک ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ملزم نواز شریف کا دفاع کررہے ہیں۔ حیرانی تو ہمیں جاوید ہاشمی پر بھی ہو رہی ہے۔ یہ صاحب اپنا بڑھاپا یوں تباہ کرنے پر تُلے ہیں کہ نواز شریف کے تباہ کُن بیان کو ’’سچا بیانیہ‘‘ کہنے پر آگئے ہیں۔ تُف ہے ایسی نام نہاد وفاداری پر۔

جاوید ہاشمی نے نواز محبت میں ریاستی اداروں کے افسروں کو للکارتے ہُوئے کہا ہے کہ’’وہ ہماری دی گئی تنخواہوں پر پلتے ہیں۔ اُنہیں سیاسی اور منتخب حکمرانوں کے آگے سر جھکانا پڑیگا۔‘‘ وہ دراصل یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے سامنے سارے ادارے جھک جائیں لیکن ابھی کہہ نہیں پائے۔ یہ مطالبہ بنیادی طور پر ہی مضحکہ خیز ہے۔ ایسا مطالبہ کرنیوالے کی ذہنی حالت کے معائنے کی اشد ضرورت ہے۔ اُس شخص پر اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا جو ریاست ،ریاستی اداروں اور اپنے ووٹروں کا وفادار نہ رہے۔ سب سے بڑا نااہل اب کسی کام کا اہل نہیں رہا۔ ساری قوم اِس ایک نکتے پر متفق ہو چکی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔