بے بسی

شاہد سردار  پير 21 مئ 2018

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بے بسی بزدلی کی بڑی واضح شکل ہوتی ہے ۔ دنیا کے تمام امن پسند لوگوں کے لیے شام میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور خانہ بربادی کا سبب بننے والی برسوں سے جاری خانہ جنگی و خون ریزی بجا طور پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے اور اس معاملے میں بتدریج متعدد علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی شامل ہوچکی ہیں لیکن اس کے نتیجے میں حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ کر رہ گئے یوں یہ مظلوم سرزمین ایک بین الاقوامی جنگ کا میدان دکھائی پڑی۔

در اصل عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور حق و نا حق سے ماورا ان کی پالیسیاں ان ہی مفادات کے تابع ہوتی ہیں لہٰذا ان سے معاملات کو سلجھانے کی امید رکھنے کو انتہائی سادگی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

شام میں حکومت اور عوام کے اختلافات جو رفتہ رفتہ ہولناک خانہ جنگی میں بدل گئے، فی الحقیقت امت مسلمہ کا اپنا معاملہ تھا۔ عالم اسلام کو صاحب بصیرت، با صلاحیت اور درد مند قائدین اگر میسر ہوتے تو اس تنازع کا کوئی قابل عمل حل حالات کے بہت زیادہ بگڑنے سے پہلے ہی تلاش کیا جاسکتا تھا۔طرفہ تماشا یہ کہ یورپی دنیا میں پھیلے ہوئے ڈھائی ارب مسلمان عوام اس ساری صورتحال کو انتہائی بے بسی سے دیکھتے آرہے ہیں۔

ہم اگر اپنے انتہائی قریبی یا پڑوسی ملک افغانستان کی طرف دیکھیں تو وہ ایسی بھیانک تباہی کی طرف جاتا ہوا نظر آرہاہے کہ خاکم بدھن ہم ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیںگے اور اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کی تفصیل اس لیے بیان نہیں کی جاسکتی کہ ہم بے بس ہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں اہل صحافت کی حالت بے بسی کی عملی تفسیر بنی دکھائی دیتی ہے۔

جید اور جغادری صحافی اس حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھنا چاہتے ہیں لیکن افسوس ان کی بے بسی آڑے آتی ہے ان کے نزدیک اس وقت قومی سلامتی کے محاذ پر سنگین چیلنجز اور خطرات درپیش ہیں۔ اس حوالے سے ان کے دل میں بہت کچھ ہے جسے وہ کہنا چاہتے ہیں لیکن افسوس بزدلی (معاف کیجیے) بے بسی ان کے آڑے آرہی ہے۔ میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے، ماضی میں وہ کبھی نہیں ہوا لیکن تفصیل نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ بے بسی راہ میں حائل ہے۔

بلوچ، سندھی، مہاجر، پختون اور سرائیکی کے بعد پنجابی بھی باغیانہ قسم کی باتیں کرنے لگے ہیں لیکن اس کی تفصیل میں نہیں جایا جاسکتا۔ ریاستی اداروں کی آپس میں چپقلش اور پھر اداروں کے اندر مختلف اداروں کی چپقلش تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عدلیہ سمیت ریاست کے تمام بڑے، اہم اور حساس ادارے ایسے ستون ہیں جن پر ملکی استحکام کی عمارت کھڑی ہے اور ان کا احترام سب پر لازم ہے۔ وہ مضبوط ہوںگے تو انتشار، بد اعتمادی اور بد گمانی کی فضا ختم ہوگی اور ملک ترقی و استحکام کی جانب آگے بڑھے گا لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس کیا جا رہاہے۔

حال ہی میں لاہور میں سپریم کورٹ کے سینئر جج کی رہائش گاہ پر دو بار ہونے والی پر اسرار فائرنگ کا انتہائی افسوس ناک واقعہ ملکی حالات کے غلط سمت میں جانے کی غمازی کرتا ہے جس کی سیاسی و عسکری سطح سے لے کر وکلا برادری اور سول سوسائٹی سمیت ہر طبقے نے بجا طور پر شدید مذمت کی اور گہری تشویش کا اظہار کیا۔

یہ شرمناک حرکت جس کسی نے بھی کی یا کرائی اس نے ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی خلفشار، دہشت گردی اور لا قانونیت کے رجحانات امن و استحکام کی فضا کو مسموم کررہے ہیں، قوم کے اعتماد کو متزلزل کی ناپاک جسارت کی ہے۔

ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہی عوام کو حکمرانوں کے مسلسل احتساب اور ملک کو بتدریج زیادہ بہتر قیادت کے انتخاب کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس عمل سے عوام کو ان کے وہ تمام حقوق ملتے ہیں جن کے لیے آج ہماری عدلیہ کو ازخود کارروائیاں کرنا پڑرہی ہیں جب کہ جمہوری عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت ملک کو برسوں پیچھے دکھیل دیتی ہے جس کے واضح شواہد ہماری اپنی ستر سالہ تاریخ میں بھی موجود ہیں۔

ہمارے ملک کی تاریخ اس بات کی بھی گواہ چلی آرہی ہے کہ یہاں جمہوری حکمرانوں نے بھی کبھی وہ اعلیٰ معیار قائم نہیں رکھا کہ جس کا تقاضا ان کا منصب ان سے کرتا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کی غالب اکثریت نے عوام کی خوشحالی، ہر پاکستانی کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے بجائے انھوں نے اپنی ذاتی مفادات پر زیادہ توجہ دی۔

صد افسوس کہ ہمارے ملک میں جمہوریت، بد عنوانی کے لائسنس کے مترادف بن چکی ہے کیونکہ جمہوریت انصاف یا نچلی سطح تک اختیارات کے بغیر کچھ بھی نہیں بلکہ صرف ایک تماشا ہے اور یہی اس وقت ملک میں جاری ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی تا حیات نا اہل ہوچکے جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان کے سیاسی رہنما اور منتخب عوامی نمائندے وطن کے معاملات میں دیانت دار نہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔

کئی قومیں ایسی ہیں جہاں بد دیانتی اور جھوٹ کو کرپشن اور انسانی قتل سے بھی زیادہ بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ بہر کیف اس طرح کی خبروں یا واقعات سے پاکستان اور پاکستانی قوم کی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی مقدمات میں الجھادیا گیا ہے۔

جب کہ حقیقت اس سلسلے میں یہ ہے کہ پارلیمنٹ ہر مسئلہ حل کرسکتی ہے کیونکہ تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ ریاست کا سپریم ادارہ ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاست دان اس ادارے کی بالادستی قائم رکھنے میں قطعی ناکام رہے ہیں۔ ان میں بہت سی کمزوریاں ہیں ان کی بڑی تعداد کرپٹ، ڈیفالٹر اور لاعلم ہے۔ ان میں یہ جرأت ہی نہیں کہ وہ پاکستان کے اہم داخلی اور خارجی معاملات میں غلط پالیسیوں کی نشاندہی یا ان سے اختلاف کرسکیں، بہت سے معاملات سے ہمارے سیاست دان خود ہی دستبردار ہوچکے ہیں۔

ہمارا یہ یقین ہے اور ہم اپنے پاس دلائل بھی رکھتے ہیں کہ نواز شریف ہوں یا زرداری، عمران خان ہوں یا پھر کوئی اور صاحب اس ملک اور ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن ان لوگوں کو آگے پیچھے کرنے کے لیے جو کچھ ہورہا ہے یا کیا جا رہا ہے وہ حد درجہ تشویشناک ہے، کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کسی پارٹی یا اس کے لیڈر کا نہیں بلکہ ملک کا نقصان ہو رہاہے۔

ایسا ناقابل تلافی نقصان کہ اس کا جب محافظین کو ادراک ہوگا تو وقت گزرچکا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہماری سیاست مزید بے وقعت ہورہی ہے، نفرتیں جنم لے رہی ہیں، خلیج بڑھ رہی ہے، فاصلے پیدا ہوتے جارہے ہیں اور ملک اور اس کے اداروں پر سے اعتماد اٹھتا جارہاہے اور ہم سب کے سب بے بسی کی تصویر بنے چپ سادھے ہوئے ہیں۔

ایسے میں ہم اتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ جو لوگ عوام کی نمائندگی کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں انھیں لازمی طور پر دیانت دار ضرور ہونا چاہیے کیونکہ انھوں نے نہ صرف قوموں کی قیادت کرنا ہوتی ہے بلکہ قومی اختلافات کی بھی تعمیر کرنا ہوتی ہے۔

کبھی کبھی ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن اسے سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ پھانسی کی بھی اور عمر قید کی بھی۔ 14 اگست 1947 کو مملکت خداداد کے شکل میں جو ملک معرض وجود میں آیا اس کے بے بس و لاچار عوام اصل میں عمر قید ہی تو کاٹ رہے ہیں ان کا کوئی والی وارث نہیں ان کا کوئی اپنا نہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنے وہ نہیں ہوتے جو تصویر میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے وہ ہوتے ہیں جو تکلیف میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے اکیس کروڑ عوام کا کوئی بھی اپنا نہیں بس وہ ہیں اور ان کی ’’بے بسی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔