ایم آئی، آئی ایس آئی کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا نامناسب تھا، نوازشریف

ویب ڈیسک  پير 21 مئ 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا۔ 

اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سماعت کی ابتدا میں نواز شریف روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے دیئے گئے سوالات کے جوابات پڑھ کر سنائے۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر 68 سال ہے اور میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں، جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے،  جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایزکی بنیاد پرفیصلہ نہ دیا جائے۔

جے آئی ٹی ممبران پر اعتراض؛

سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، آئین کا آرٹیکل 10 مجھے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا فیئر ٹرائل کا حق متاثرہوا، مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا۔ یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن بلال رسول میاں محمد اظہر کے بھانجے ہیں، میاں اظہر سابق گورنر پنجاب رہ چکے ہیں اور اب پی ٹی آئی سے منسلک ہیں، میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان کے ساتھ بنی گالہ میں ملاقات کی تصویریں سامنے آچکی۔ بلال رسول خود بھی (ن) لیگ کے کھلے مخالف اور پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی فعال ممبر تھیں۔

نواز شریف نے جے آئی ٹی کے دوسرے رکن عامر عزیز پر اپنا اعتراض دہراتے ہوئے کہا کہ عامر عزیز 2000 میں میرے خاندان کے خلاف ریفرنسز میں تفتیشی تھے، عامر عزیز نے پرویز مشرف کے دورمیں حدیبیہ پیپرملز کیس کی تحقیقات کیں۔ عرفان منگی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا  حالانکہ ان کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔

جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا سے متعلق نوازشریف نے کہا کہ تحقیقات میں واجد ضیا کی جانبداری عیاں ہے ، واجد ضیاء نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان اور ایم آئی کے بریگیڈئیر کامران بھی شامل تھے، ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، سول ملٹری تناؤ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال کے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999سے بھی پہلے کی ہے، پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔

جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراض؛

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی 10 والیم پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں نمٹانے کے لئے تھی، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے جو ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں لہذا جے آئی ٹی کی تفتیش یکطرفہ تھی، اختیارات سے متعلق نوٹیفکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پر جاری کیا گیا جب کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی گئی، اس ریفرنس کے لیے نہیں جب کہ واجد ضیا بھی جانبدار تھے، واجد ضیاء نے اپنے کزن کو سولیسٹر مقرر کیا، اختر راجہ نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے برطانیہ اور سعودی عرب کو جو ایم ایل اے بھجوائے وہ عدالت میں پیش نہیں کیے گئے، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر بیان ریکارڈ کیے، جے آئی ٹی کے بیانات اس ٹرائل کے لئے غیر متعلقہ ہیں، ان بیانات کا مقصد سپریم کورٹ کی معاونت کرنا تھا، جے آئی ٹی نے جن لوگوں کے بیان ریکارڈ کیے وہ اس کیس میں گواہ نہیں، جے آئی ٹی کی طرف سے اخذ کیا گیا نتیجہ رائے پر مبنی تھا جو قابل قبول شہادت نہیں۔

حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق بیان؛

نواز شریف نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی، گلف اسٹیل کے 25 فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق ایم ایل اے پیش نہیں کیا گیا جب کہ معاہدے پر شہباز شریف اور طارق شفیع کی طرف سے دستخطوں سے انکار سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا، طارق شفیع اور شہباز شریف نے میری موجودگی میں دستخطوں سے انکار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو مجھے حراست میں لے لیا گیا اور سعودی عرب بھجوادیا گیا، میرے علم میں ہے کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر جب کہ حسن نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا شیئر ہولڈر نامزد کیا تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز میں کسی بھی طور پر ملوث نہیں رہا،  مجھے پرویز مشرف کے دور آمریت میں جلا وطن کر دیا گیا، زیادہ عرصہ باہر رہنے کی وجہ سے حدیبیہ پیپر ملز کے طویل مدتی قرض کا علم نہیں جب کہ حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات میرے مرحوم والد دیکھتے تھے۔

العزیزیہ ملز سے اظہار لاتعلقی؛

سابق وزیراعظم نے عدالتی سوالنامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دبئی فیکٹری اور العزیزیہ ملز سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، قومی اسمبلی میں تقریر یا قوم سے خطاب میں نہیں کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی سے میرا کوئی تعلق ہے، ایون فیلڈ پراپرٹیز کا اصل یا بے نامی دار مالک نہیں ہوں جب کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیئرر شیئرز سرٹیفکیٹ کبھی میرے تھے نہ میرے پاس رہے۔ انہوں نے کہا کہ5 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا، خطاب دبئی فیکٹری، العزیزیہ سمیت مختلف معاہدوں سے متعلق تھا، حسین نواز نے جو معلومات فراہم کیں وہ میرے علم میں نہیں تھیں جب کہ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کی حسن نواز وضاحت کر سکتا ہے۔

کیلبری فونٹ سے متعلق بیان؛

نواز شریف نے کہا کہ جس طرح رابرٹ ریڈلے کو دستاویزات بھجوائی گئیں اور عجلت میں رپورٹ تیار ہوئی وہ متعصب ہے، رابرٹ ریڈلے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا نظر آیا، رابرٹ ریڈلے نے غیر ضروری جلد بازی میں رپورٹ تیار کی، رابرٹ ریڈلے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری کے لیے کیلبری فونٹ استعمال ہوا، ریڈلے کے مطابق کیلبری فونٹ 31 جنوری 2007 تک کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا، رابرٹ ریڈلے کے مطابق اس فونٹ کا استعمال اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا، رابرٹ ریڈلے کا یہ بیان بدنیتی پر مبنی ہے، رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیا کہ کیلبری فونٹ 2005 میں دستیاب تھا اور انہوں نے ڈاوٴن لوڈ کیا جب کہ رابرٹ ریڈلے کمپیوٹر یا آئی ٹی ماہر نہیں تھا۔

نوازشریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 127 میں سے 55 سوالات کے جوابات دیے جس کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔