جوڈیشل ریمانڈ:اب جلد مشرف کا ٹرائل شروع ہوگا، قانونی ماہرین

بی بی سی  پير 22 اپريل 2013
ایسا اتفاق ہے جیسے کبھی مسئلہ کشمیر پر ہوا کرتا تھا،رہائی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ،بی بی سی فوٹو: آئی این پی

ایسا اتفاق ہے جیسے کبھی مسئلہ کشمیر پر ہوا کرتا تھا،رہائی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ،بی بی سی فوٹو: آئی این پی

لاہور: ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے جوڈیشل ریمانڈ پر جانے کے بعد اب جلد ان کیخلاف مقدمے کا ٹرائل شروع ہوجائیگا تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی ضمانت کے بعد رہائی عمل میں آتی ہے یا نہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں قانونی ماہرین نے کہا کہ عدالت کسی ملزم کو اس وقت ہی جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجتی ہے جب پولیس کو ملزم سے مزید تفتیش نہیں کرنا ہوتی  اور اسی وجہ سے ملزم کی کی تحویل پولیس واپس لے لی جاتی ہے۔ مشرف کے خلاف بھی پولیس نے ان سے تفتیش نہیں کرنی تھی اس لیے عدالت نے ان کا جوڈیشل ریمانڈ دیا ہے۔ جب کسی ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب پولیس چالان پیش کرے گی اور ٹرائل شروع ہوجائیگا۔ مشرف کے خلاف دیگر مقدمات بھی زیرسماعت ہیں، اگر ان کی ججوں کو غیر قانونی قید میں رکھنے کے مقدمے میں ضمانت ہوجاتی ہے تو وہ اس وقت تک رہا نہیں ہوسکتے جب تک دیگر مقدموں میں ان کی گرفتاری کے بعد ان کی ضمانت نہ منظور ہوجائے۔

بی بی سی نے ایک اور تبصرے میں کہا کہ پاکستان میں اس بار جنرل (ر)مشرف کے خلاف آئین شکنی پر انھیں سزا ملنے پر اتفاق رائے نظر آتا ہے، ’قدم بڑھاؤ پرویز مشرف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کا نعرہ سن کر وطن لوٹنے والے مشرف نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک ہوسکتا ہے۔ اگر یوں کہیں کہ وہ ’عرش سے فرش پر‘ گرے ہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ کل تک پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ فرمان تصور ہوتا تھا لیکن آج وہ انھی سپاہیوں کے ہاتھوں قید ہوئے ہیں جو انھیں سلیوٹ کیا کرتے تھے۔ خیال تھا کہ شاید فوج ان کے بچاؤ کیلئے آئے گی لیکن بقول جنرل (ر) حمید گل ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستانی فوج نے انھیں پہلے ہی پیغام بھیجا تھا کہ پاکستان مت آئیں لیکن مشرف نے فوج کی تجویز نہیں مانی اور اپنے آپ سمیت سب کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

ریٹائرڈ فوجیوں کی دو تنظیموں ’ایکس سروس مین سوسائٹی‘ کے سربراہ جنرل (ر) فیض علی چشتی اور جنرل (ر) علی قلی خان کی سربراہی میں قائم تنظیم ایکس سروس مین ایسو سی ایشن نے ان کے حق میں کوئی بیان نہیں دیا۔ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے تو کہا ہے کہ جس نے غلطی کی ہے اس کو سزا ملنی چاہیے اور سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ بعض تجزیہ کار یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مشرف کی گرفتاری اور انھیں سزا ملنے کی صورت میں ایک بار پھر فوجی مداخلت کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

یہ خدشہ اپنی جگہ لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو جس طرح پاکستان میں عدلیہ، میڈیا، سیاستدان اور مذہبی رہنما اب کی بار جمہوری عمل کے تسلسل پر متفق اور سرگرم نظر آتے ہیں ایسے میں ’ملٹری ایڈونچر‘ کا امکان کم ہی لگتا ہے۔ بقول شخصے پاکستان میں اس بار جنرل مشرف کے خلاف آئین شکنی پر انھیں سزا ملنے پر ایسا اتفاق رائے نظر آتا ہے جیسا  کبھی مسئلہ کشمیر پر ہوتا تھا۔ اگر مشرف کو آئین کی پامالی پر سزا ملتی ہے تو پھر شاید پاکستان میں ہمیشہ کیلیے فوج کے اقتدار پر قبضے کا راستہ روکا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔