رمضان اور مہنگائی کا طوفان

شکیل فاروقی  منگل 22 مئ 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اخباری اطلاعات کے مطابق رواں ماہ کی 16 تاریخ کو کمشنر آفس کراچی میں رمضان المبارک کے دوران ناجائز منافع خوری کی روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی غرض سے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا، اس اجلاس کی صدارت کمشنر کراچی  نے کی جب کہ تمام ڈپٹی کمشنروں نے اس میں شرکت کی۔ اجلاس میں ناجائز منافع خوری میں ملوث پائے جانے والے تاجران اور خوردہ فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کمشنر صاحب کا کہنا تھا کہ بعض بے لگام دکان دار اور تاجر رمضان المبارک کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اس ماہ مبارک میں کھانے پینے کی اشیا مثلاً گوشت، سبزی، ترکاریوں، پھلوں اور مشروبات کے نرخوں میں کمی کرنے  کے بجائے اضافہ کردیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ماتحت ڈپٹی کمشنروں کو اپنے اپنے علاقوں میں مستعد اور چوکنا رہنے اور پابندی کے ساتھ وقتاً فوقتاً چھاپے مار کر ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کی ہدایات بھی دیں۔

مذکورہ اجلاس کی نوعیت سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آمد رمضان کے موقعے پر اس قسم کے اجلاس ہر سال منعقد کیے جاتے ہیں مگر عملاً ان کی حیثیت رسمی اور نمائشی کارروائی سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہوتی۔ شروع شروع میں محض خانہ پری اور دنیا دکھاوے کے لیے کہیں کہیں اکا دکا چھاپے بھی مارے جاتے ہیں اور اس کے بعد پھر وہی ٹائیں ٹائیں فش۔

ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو پاکستان کی صبح کی نشریات میں کھانے  پینے کی اشیا کے خوردہ نرخ نہایت پابندی کے ساتھ روزانہ بلا ناغہ نشر کیے جاتے تھے تاکہ عام صارفین با خبر اور مطلع رہیں اور مقررہ نرخوں پر اپنی ضرورت کی اشیا بازار جاکر خرید سکیں ۔ ریڈیو پاکستان کو یہ نرخ مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے نہایت باقاعدگی سے فراہم کیے جاتے تھے۔ لیکن دیگر اچھی روایتوں کی طرح یہ صحت مند روایات بھی رفتہ رفتہ دم توڑ گئی اور اب اس کی حیثیت ایک قصۂ پارینہ اور بھولی ہوئی داستان کی سی ہے۔

ریڈیو پاکستان بھی موجود ہے اور مارکیٹ کمیٹی کا وجود بھی باقی ہے لیکن بے چارے صارفین کا کوئی پرسان حال نہیں وہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے آگے قربانی کا بے بس بکرا بنے ہوئے ہیں جو الٹی چھری سے بلا روک ٹوک ان کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں اس ملک کا حال ہے جو اسلامی بھی کہلاتا ہے اور جمہوری بھی۔

یوں تو ہوش ربا مہنگائی نے ویسے ہی بے بس عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے لیکن آمد رمضان کے ساتھ تو مہنگائی کا زبردست طوفان آجاتا ہے جس میں عیدالفطر کے قریب آنے تک مزید خوفناک اضافہ ہوجاتا ہے دنیا کے دیگر ممالک میں ان کے مخصوص تہواروں مثلاً کرسمس اور ایسٹر کے موقعوں پر وہاں کی حکومتوں کی مثالی حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے عام صارفین کو 25تا 50 فی صد تک رعایت کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے بقول علامہ اقبال:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

حکمرانوں کو اپنا اقتدار بچانے اور حزب اختلاف کو آیندہ عام انتخابات میں کسی نہ کسی طرح جیت کر برسر اقتدار آنے کی فکر ہے اور دونوں ہی عوام کی درگت سے بے نیاز ہوکر اپنی اپنی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ عوام کے مسائل اور مصائب کی کسی کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔

وطن عزیز میں ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راج کا ساسماں ہے اور مختلف ریاستی ادارے اصلاحِ احوال کے بجائے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ منڈی اور مارکیٹ کے بڑے بڑے تاجروں اور آڑھتیوں کے وارے نیارے ہیں ایک طرف وہ من مانی قیمتوں پر محنت کش کسانوں کی پیداوار کو اونے پونے خرید کر ان کا استحصال کررہے ہیں جب کہ دوسری  جانب چھوٹے تاجر، سبزی اور پھل فروش پتھارے دار اور ٹھیلا بان بے چارے ان ظالموں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں جس کا سارا اور اصل خمیازہ ایک عام غریب اور متوسط درجے کے صارف کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

منڈیوں کے پورے نظام پر آڑھتیوں اور ہول سیلرز کا قبضہ ہے جو در اصل ایک زبردست مافیا ہے۔ پرائس کنٹرول کا محکمہ چونکہ ان سے ملا ہوا ہوتا ہے اس لیے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ سچ پوچھیے تو یہ شتر بے مہار ہیں اور باقی لوگ ان کے  آگے بالکل بے بس ہیں۔ اگر کسان کو اس کی پیداوار کے لیے ادا کی جانے والی قیمت کا موازنہ آخری صارف سے وصول کی جانے والی ہوش ربا قیمت سے کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق بالکل واضح ہوجائے گا۔

اس تناظر میں ہمیں اس وقت علاؤ الدین خلجی یاد آرہاہے جو اگرچہ بطور حکمران ایک جابر شہنشاہ تھا مگر بحیثیت منتظم ایک کامیاب حکمران تھا۔ اس کی سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں قیمتوں پر سرکاری کنٹرول نہایت سخت تھا۔ ہر چیز کے سرکاری نرخ مقرر تھے اور ان سے انحراف ممکن نہ تھا کسی کی مجال نہ تھی کہ مقررہ نرخ سے زیادہ قیمت وصول کرے۔ قیمتوں پر گرفت سخت ہونے کی وجہ سے عوام کو کھانے پینے کی تمام اشیا با آسانی دستیاب تھیں۔

منگولوں سے لڑنے کے لیے علاؤ الدین کو ایک زبردست فوج کی ضرورت تھی جس کے لیے اسے کثیر رقم درکار تھی اس کے مشیروں نے اسے عوام پر ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ دیا مگر اس نے کہاکہ عوام تو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ایسے میں مزید ٹیکس ادا کرنے سے انھیں پریشانی لاحق ہوگی اور ان کی مشکلات بڑھ جائیںگی چنانچہ اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس نے ایک مکمل مالیاتی پالیسی تشکیل دی۔

اس پالیسی کے تحت اس نے مملکت کے بازاروں کو نرخوں کے حوالے سے ایک مربوط نظام کا پابندی کردی اور ہر چیز کے نرخ مکمل طور پر اپنے دربار سے منسلک کر دیے۔ اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں علاؤالدین خود طے کرتا تھا اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام منڈیاں اور مویشی منڈیاں قائم کیں ان منڈیوں میں عوام کو عام استعمال کی چیزیں، اجناس اور مال مویشی سرکار کی مقرر کی ہوئی قیمتوں پر با آسانی دستیاب ہوتے تھے۔ علاؤ الدین نے تھوک اور پرچون سے زائد قیمت وصول کرتے ہوئے پکڑے جاتے تو اسے سربازار سخت سزادی جاتی تاکہ دوسرے تاجر اس سے عبرت حاصل کریں۔

اس پالسی پر عمل کرنے کے نتیجے میں ملک کے عوام نہ صرف خوش بلکہ خوشحال بھی ہوگئے اور حکومت کو محاصل کی مد میں کثیر رقم بھی ملنے لگی اس طرح علاؤالدین خلجی ہندوستان کی تاریخ میں اعلیٰ درجے کا مالیاتی ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعد میں یورپ میں کئی جگہ مالیاتی پالیسی سازی کے دوران خلجی کے مالیاتی ماڈل کی تقلید کی گئی۔

علاؤالدین خلجی کو ہندوستان کا پہلا سوشلسٹ لیڈر بھی کہاجاتا ہے کیونکہ وہ پہلا ہندوستانی حکمران تھا جس نے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرتے ہوئے زمینداروں کی زمینداری محدود کردی۔ اس کے زمانے میں کاشتکار کو خوش حالی میسر آئی، اس نے باقاعدہ زرعی اصلاحات بھی نافذ کیں، کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی علاؤ الدین خلجی کی طرح قیمتوں پر کنٹرول کا باقاعدہ نظام متعارف کرانے اور اسے ملک گیر سطح پر نافذ کرنے کی توفیق ہوتی۔ جمہوریت کے جھوٹے دعوے داروں سے تو سلطان علاؤ الدین خلجی ہی بھلا۔

ہماری جمہوری حکومت نے اپنی ماضی کی گھسی پٹی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی رخصتی کے موقعے پر محض یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے ایک برائے نام ریلیف پیکیج کا اعلان کرکے ایک مرتبہ پھر حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی کوشش کی ہے جو سمندر سے پیاسے کو شبنم کا ایک قطرہ مہیا کرنے کے مترادف ہے جب کہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ملک میں ان یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد ملک کی آبادی کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے، اس کے علاوہ بہت سی اشیا ان اسٹورز پر دستیاب ہی نہیں ہیں کیونکہ ان اسٹورز کے بد عنوان کرتا دھرتا انھیں پہلے ہی دکان داروں کو فروخت کرکے اپنی جیبیں بھرچکے ہوتے ہیں۔

نیز یہ کہ ان اسٹورز پر فروخت ہونے والی اشیا کے معیاری ہونے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے سب سے زیادہ لعنت اور ملامت کے لائق وہ ناجائز منافع خور ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود خوف خدا سے عاری ہوکر رمضان المبارک کے تقدس کا ذرا سا بھی خیال نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔