ہم کب بدلیں گے…

محمد نعیم اشرف  منگل 22 مئ 2018
نیم مردہ ضمیر کو جھنجوڑنے کی ایک قلمی کوشش۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نیم مردہ ضمیر کو جھنجوڑنے کی ایک قلمی کوشش۔ فوٹو: سوشل میڈیا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ غنیمت کو دولت اور زکوٰۃ کو مجبوری سمجھیں، قبیلے کا بدکار ان پر حکمرانی کرے، علاقے کا زمیندار حکمرانوں کی چمچہ گیری کرے اور آدمی کی تعظیم اس کے شر اور خوف کی وجہ سے کی جائے، تو اس وقت سرخ آندھیاں چلیں گی، آسمان سے پتھر برسیں، زلزلے حد سے تجا وز کر جائیں گے، صورتیں تبدیل کر دی جائیں گی۔ اگر آج ہم اپنا اور اپنے دور کا محا سبہ کریں تو یہ تمام خرافات ہمارے ارد گرد پائی جائیں گی۔ عذاب کی جو نشانیاں بتا ئی گئی ہیں وہ سب ہم پر برپا ہو چکیں۔

اس کی ایک مثال اکتوبر 2005ء میں پاکستان کی تا ریخ کا بد ترین زلزلہ تھا، جس کی وجہ سے وطن عزیز کو شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بلند ترین عمارتیں ایک سیکنڈ میں زمیں پے آ گریں لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ زلزلے آنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ سائنس کچھ بھی بتائے لیکن آفتیں آنے کی ایک اہم وجہ ہمارے اعمال بھی ہیں ۔ ہمارے گناہوں کا وزن اس قدر بڑھ چکا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب زلزلے آئیں تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری جان بچ گئی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عبرت پکڑ کر ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا مسجدیں آباد ہوئیں؟ کیا ہم نے جھوٹ بولنا چھوڑا؟ کون سی تبدیلی آئی؟ ہم کب بدلیں گے؟ کب ہم گنا ہوں سے اجتناب کریں گے؟

قرآن کریم میں سورۃ توبہ کی آیت نمبر 70 میں اللہ تعالیٰ نے چھ قوموں کی بربادی کا ذکر کیا ہے، جن کو ان کے بد اعما ل کی وجہ سے نیست و نابود کر دیا گیا۔ علمائے کرام نے اعما ل کی تمام باتیں ہمیں بتا ئی ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عذاب کی ایک ایک صورت سے ہم بخوبی و اقف ہو چکے لیکن ہمارے اعمال میں ذرہ برا بر بھی تبدیلی نہیں آتی۔

آج کل ایک نعرہ عام سننے میں آتا ہے کہ روک سکو تو روکو ،تبدیلی آئی رے۔مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کس تبدیلی کی بات کرتے ہیں ؟ کیا بے حیائی پھیلانا تبدیلی ہے؟ کیا لوگوں کی عزتیں سر عام پامال کرنے کا نام تبدیلی ہے؟تبدیلی تو تب آئے گی کہ ان کی وجہ سے مسجدیں آباد ہوں، خون ریزی کم ہوجائے، لوگ زنا کاری سے ڈریں، زکوٰۃ کو مجبو ری نہ سمجھا جائے۔ ایسی تبدیلی لاتے جس کی وجہ سے کوئی اور زینب درندوں کا شکار نہ ہوتی لیکن آج ہم نے اقدار مغرب کو مشعل راہ بنا لیا ہے۔ ہم لوگ اپنا مقام ہی بھول چکے ۔مقام تو یہ تھا کہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے

آج ہر فرد کی زبان پر ہے کہ حکمران کر پٹ ہیں۔ لیکن ہمیں چا ہیے کہ پہلے ہم اپنے اعما ل کا محاسبہ کریں۔ حکمران تو ہر پانچ سال بعد تبدیل ہوتے ہیں لیکن ہمیں آج خود کو بدلنا ہو گا۔ آج ہمارے گھروں میں اذان کی آ واز کم اور ٹی وی پر چلتے گانوں کی زیا دہ سنا ئی دیتی ہے۔ اذان کا پتا ہی نہیں کہ کب ہوئی یا ہو رہی ہے یا کب ہو گی۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو ہما رے حالات کیسے بدلیں گے؟

آج کون سا اسلامی ملک ہے جو ظلم کے سمندر میں نہیں ڈوب رہا؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ یہ کہ ہم قرآن و سنت سے دور اور اپنے آبا و اجداد کے کارناموں سے نا واقف ہو چکے ۔ ہما رے آ نے والے حاکم کر پٹ، بدکار، شرابی، جھو ٹے اور بے دین ہو تے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ صرف ہمارے اعمال کی وجہ سے! کسی حکمران سے اچھی امید لگا کر بیٹھنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تبدیلی آئے گی تو فقط ہمارے بدلنے اور صحیح معنوں میں اسلام کے سا نچے میں ڈھل جانے سے۔ یہ نظام تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔ اصل سوال پھر یہی ہے کہ ہم کب بدلیں گے؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔