توازن نہیں کھونا چاہیے

غلام محی الدین  پير 22 اپريل 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

سابق چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی‘ ان کے خلاف مقدمات کی کارروائی کے آغاز اور گرفتاری نے ہمارے میڈیا کے لیے انتخابات کی گہما گہمی کے ساتھ ایک متبادل ایشو کا بھی بندوبست کر دیا ہے۔ آج کل بڑی خبروں کے لیے خاص تردد کی ضرورت نہیں بلکہ ماحول ایسا ہے کہ بڑی خبریں بھی چھوٹی کرنی پڑتی ہیں۔

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے‘ کاش ایسا حقیقی معنوں میں ہو سکتا‘ لیکن ہمارے ہاں کسی اہم معاملے پر اعلیٰ ترین جن خواہشات کا ذکر کیا جاتا ہے اور جس طرح کے مطالبات سامنے آتے ہیں‘ انھیں جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ ملک کے پالیسی ساز عہدوں کے حصول کے لیے میدان میں ہیں اور انھی میں سے شخصیات کامیاب ہو کر واقعی اہم ترین قومی حیثیتوں میں خدمات انجام دیں گی اُن کی سوچ میں ذرا بھی گہرائی نہیں۔

مثال کے طور پر جنرل (ر) مشرف کے مقدمات کے بارے میں ہمارے اہم سیاست دانوں کی ترجیحات پر نظر ڈالیں۔ کوئی کہہ رہا ہے ’’مشرف کو ہتھکڑی کیوں نہیں لگائی گئی، مجھے تو لگائی گئی تھی‘‘۔ کسی کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مشرف کو جیل کیوں نہیں بھیجا گیا۔ اسے جیل میں رکھا جانا چاہیے تھا۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملزم نے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ وکلاء کے گروہ عدالت میں کھڑے ہو کر سابق صدر پر آوازے کستے ہیں اور ان پر جھپٹنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اپنے فکری اور پیشہ وارانہ فلسفے کی بنیاد پر ایک وکیل سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ معاشرتی افراتفری اور بدترین انتشار کی کیفیت میں بھی نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی کی مثال قائم کرے گا لیکن بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ کی تقلید کا رجحان یہاں بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

ہمارے میڈیا کا رویہ اس قدر غیر سنجیدہ اور عامیانہ ہے کہ جب جنرل (ر) مشرف کی ضمانت منسوخ ہوئی اور وہ عدالت سے گھر آ گئے تو میڈیا نے اس بات میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے ’’مشرف عدالت سے بھاگ گئے‘ فرار ہو گئے‘‘ کا تاثر پیدا کیا۔ اس وقت جو شور و غل برپا ہے اس کا تقاضا ہے کہ چند سطریں ملزم پرویز مشرف کے بارے میں تحریر کی جائیں۔ مشرف ملک کے 13 ویں آرمی چیف اور دسویں چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی رہے۔ ظاہر ہے اس مقام تک پہنچنے کے لیے جرات اور بہادری کم ترین قابل قبول معیار پر تو پورے اترتے ہوں گے تبھی انھیں فوج کے کڑے نظام نے یہاں تک پہنچایا ہو گا اور سیاسی سطح پر بھی ان کی تقرری میں وفاداری کے ساتھ پیشہ وارانہ قابلیت کا بھی تھوڑا بہت دھیان رکھا گیا ہو گا۔

کشمیر کی دوسری جنگ جو 1965 کی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، موصوف کھیم کرن میں تھے‘ کُھلی جنگ چھڑی تو سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر تھے اس دوران ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ گولوں کی بارش ہو رہی ہو پھر بھی یہ شخص اپنا مورچہ نہیں چھوڑتا۔ جنگ کے بعد ان کے افسر اعلیٰ نے اسی کارکردگی اور شہرت کی بنا پر انھیں اسپیشل سروسز گروپ میں بھیجنے کے لیے منتخب کیا۔

1971 کی جنگ میں کمانڈوز کی ایک کمپنی کی کمان کی 1987 میں سیاچن کے بیلا فونڈا لاء محاذ پر جو آپریشن کیا گیا اس کی قیادت بھی اس وقت بریگیڈئیر مشرف نے کی یہ حملہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پایا تھا۔

جنرل (ر) مشرف کو ان کے ساتھی جنرل (ر) علی قلی خان کے ساتھ دنیا کی بہترین عسکری درسگاہوں میں سے ایک، رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز ، جسے عام طور پر امپریل ڈیفنس کالج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے لیے چنا گیا جہاں انھوں نے

Impect of arm race in the indo- pakistan conflict
کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ کالج کے کمانڈانٹ جنرل انتھونی والکر کا خیال تھا کہ انھوں نے اپنی پوری فوجی زندگی میں مشرف سے بہتر فوجی افسر نہیں دیکھا۔ جنرل والکر نے مشرف کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا۔

A Capable, Articulate and extremely personable officer who made a valuable impact at RCDS,his Country is fortunate to have The services of a man of his undeniable quality ۔ خیر ان خوبیوں کے رد میں تو مخالفین یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ انگریز لوگ جانتے تھے کہ مستقبل میں یہ بندہ ہمارے کام آ سکتا ہے لہذا اس کی خوب تعریف کرو۔

90ء کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں حکومت اپنا وجود کھو رہی تھی تو اس خلا کو پر کرنے کے لیے طالبان کو استعمال کرنے کا جو منصوبہ روبہ عمل لایا گیا تھا اس منصوبے کے معمار جنرل نصیر اللہ بابر کے نائب بھی یہی جنرل مشرف تھے۔

ان تمام معلومات کا تذکرہ کرنے کا مقصد ہر گز یہ ثابت کرنا نہیں کہ جنرل (ر) مشرف سے غلطیاں سر زد نہیں ہو سکتیں یا ذاتی اغراض کی کشش ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہیں کر سکتی۔ صرف یہ بات پیش نظر ہے کہ مذکورہ شخص نے اپنے شعبے میں انتہائی نمایاں مقام حاصل کیا اور اس کی زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ بزدل نہیں ہے۔ اس شخص نے کارگل کی لڑائی میں پیش قدمی کرتی ہوئی اپنی فوج کی ہمت بندھانے کے لیے لائن آف کنٹرول کو پار کر کے 11 کلو میٹر اندر جوانوں کے ساتھ رات بسر کی تھی۔

اس بات میں تو دوسری کوئی رائے یا مطالبہ کسی طور برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ قانون کے سامنے کسی کو اپنی موجودہ یا سابقہ حیثیت کی بنیاد پر کوئی استثناء حاصل ہونا چاہیے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ہونے والے تمام ناگوار واقعات کے اصل محرکات اور ان میں شامل کرداروں کے حقیقی کردار سے عوام کو باخبر کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ میرے خیال میں جنرل (ر) مشرف کو ہتھکڑی لگی دیکھ کر خوش ہونے یا جیل کی کوٹھڑی میں قید کر کے اپنی کسی خواہش کی تسکین کرنے سے کہیں زیادہ اہم معاملات موجود ہیں لیکن کوئی ان کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ میں تو کہتا ہوں کے انھیں الیکشن لڑنے دینا چاہیے تھا کہ یہاں شخصیات کے لوگوں کے ہاتھوں خاتمے کی روایت کو مضبوط بنانے پر کسی کا دھیان نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنرل مشرف کے مارشل لاء سے پہلے کے حالات سے لے کر ان کی رخصتی تک کے تمام حالات و واقعات کا غیر جانبدار تجزیہ ہونا چاہیے اور وہ تمام باتیں قانون کی زد میں آنی چاہئیں جو ملک کے آئین اور قانون کے خلاف واقع ہوئیں۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کے دن جنرل (ر) مشرف جس طیارے میں سوار تھے انھیں کون لینڈنگ سے روک رہا تھا۔ جن کرداروں کے نام لیے جاتے ہیں سب کے سب زندہ ہیں۔ کیا اس وقت کی حکومت یہ کر رہی تھی یا مارشل لاء کا جواز پیدا کرنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ ڈرامہ کیا جا رہا تھا؟ شاید سب لوگ یہ بات نہ جانتے ہوں کہ ایک ملک اپنی حدود سے باہر بھی وجود رکھ سکتا ہے۔ دوسرے ممالک میں پاکستان کے سفارتخانے پاکستان کا حصہ تصور ہوتے ہیں‘ ان پر حملہ ہو تو یہ پاکستان پر حملہ تصور ہو گا۔ سمندروں میں پاکستان کا پرچم لہرانے والے بحری جہاز بھی پاکستان کی سرزمین کا درجہ رکھتے ہیں‘ اسی طرح قومی ایئر لائنز کے طیارے بھی پاکستان ہی تصور ہوتے ہیں۔ پاکستان کے اپنے طیارے کو جس میں پاک فوج کا سربراہ بھی سفر کر رہا تھا اور دوسرے پاکستانی بھی موجود تھے خطرے میں ڈالنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔اس بات کا لحاظ رکھے بغیر کہ وہ فوج سے تعلق رکھتا ہے یا سول سے۔

جنرل مشرف پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے آئین توڑ کر غداری کا ارتکاب کیا تو اس کے لیے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ جب 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگائی گئی اس وقت جنرل مشرف کے ساتھ جو سول حکومت موجود تھی اس میں شامل جن شخصیات نے اس غیر آئینی عمل کے خلاف احتجاجاً جنرل مشرف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا انھیں چھوڑ کر باقی سب کے خلاف آئین توڑنے کے الزام میں کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

اسی طرح لال مسجد پر کارروائی کے سلسلے میں اگر کسی نے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے مشرف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اُسے چھوڑ کر حکومت میں شامل تمام اہم شخصیات کو لال مسجد میں ہونے والے جانی نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔اسی طرح نواب اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی ذمے داری جنرل (ر) پرویز مشرف پر ڈالنے والوں کو بھی اپنی تمام تر توجہ ان شواہد کو اکٹھا کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ جن کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں جنرل مشرف کا سوچا سمجھا منصوبہ موجود تھا۔ جمہوریت کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہر سطح پر احساس ذمے داری نظر آئے۔ سیاسی رہنما اپنے رویئے اور کردار سے توازن کا اظہار کریں تاکہ لوگوں میں حوصلہ پیدا ہو اور ان کے رویوں میں بھی توازن پیدا ہو جائے۔ محض خبروں کا پیٹ بھرنے کے لیے مار دھاڑ‘ توڑ پھوڑ اور تند و تیز بیانات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔