گویا ہمیں استثنیٰ حاصل ہے

ابن مستقیم  پير 22 اپريل 2013

زندگی کی تیز رفتاری یا مصروفیت کے باعث کم ہی اس طرف سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم اپنے روز وشب کے اس سفر میں کہاں سے چلے۔۔۔ کہاں تک پہنچے اور اب کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟ البتہ سوچنے کی کوشش کیے بغیر یہ خیال اور احساس تو بہرحال سب ہی کو ہے کہ وقت بہت تیز ہے اور ہماری زندگی کسی برق رفتار گھوڑے پر سوار ہے۔۔۔ کسی مفکر نے زندگی کو گھلتی برف سے تعبیر کیا، اب معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس برف پر درجہ حرارت کئی گنا بڑھ چکا ہے اور یہ کب، کہاں اور کس طرح گھل کر تمام ہوجاتی ہے اکثر احساس بھی نہیں ہوپاتا۔

زندگی اور اس کے طلوع و غروب سے قطع نظر کیا کبھی ہم نے لمحہ بھر کو ٹھہر کر پیچھے گزری مسافت پر نظر کرکے یہ محسوس کرنے کی کوشش کی کہ سفر زندگی میں اب تلک جتنی مسافت بھی ہوپائی ہے اس میں ایک عنصر اور حقیقت سب پر غالب ہے جو جدائی اور بچھڑ جانے سے متعلق ہے۔۔۔ کوئی بھی تو یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس سفر کے دوران اسے جتنے ساتھی اور ہم سفر ملے وہ اب تلک اس کے ہمراہ ہیں۔۔۔! ذرا اپنے خیال کو ماضی کی اس انتہا پر لے جائیے کہ جب آپ نے ہوش سنبھالا۔۔۔ تین، چار سال کی عمر سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اس لمحہ موجود تک لاتے جائیں، آپ شمار نہ کرپائیں گے کہ کتنے ایسے لوگ اور شخصیات یا دوست احباب تھے جو ساتھ چھوڑ گئے، کوئی بہت دیر تک ساتھ رہا تو کوئی ایک محدود وقت تک۔۔۔ مگر یہ سب آپ سے دور ہوگئے۔۔۔ ممکن ہے اگر رات بستر پر آپ کے ماضی کا یہ دریچہ کھلے تو آپ اپنے بچھڑنے والوں کی تلاش میں بہت دور تک نکل جائیں اور رات ختم ہوجائے مگر خیالات کا سیل رواں برابر جاری رہے کہ بچپن کی گلیوں میں کون تھا، پرانا گھر، پرانا پڑوس، پھر ماہ وسال کے بدلتے سلسلے کے ساتھ آپ کا اسکول اور مختلف تعلیمی مدارج۔۔۔

اس ہی گردش ایام کو بڑھاتے چلے جائیں تو پیشہ ورانہ زندگی اور اس کے بعد آج تلک کتنے ہی نشیب وفراز اور اتار چڑھاؤ آئے۔۔۔ زندگی کی ہماری گاڑی تو رواں رہی مگر ہمارے ساتھ والے اب نہ رہے۔۔۔ بوجوہ ان کی راہیں بدل گئیں یا آپ کو ہی کوئی موڑ کاٹنا پڑ گیا۔۔۔ یا پھر انھوں نے تو ساتھ ہی چلنا تھا مگر فرشتہ اَجل کو یہ منظور نہ تھا، چنانچہ بس وہ ایک دن ماضی میں ہی کہیں رہ گئے۔۔۔ اوہ۔۔۔! یہ عجیب وغریب طریقہ زندگی ہے قدرت کے کارخانے میں۔۔۔ مالک کائنات نے اس دنیا سے اپنے بندوں کو بلانے کے واسطے ایک ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ بس پھر ہم سوچتے رہ جائیں اور پھر سوچ میں وقت کی نہ رکنے والی گاڑی میں اپنا منہ پیچھے کی طرف پھیر کر دیکھتے رہ جائیں مگر بے سود اور سراسر بے سود۔۔۔! حیرانی اور پریشانی کسی طور یقین نہ کرنے دے کہ موت کے ہرکاروں کا کوئی تو احتمال ہو۔۔۔ عین جوانی اور مکمل صحت کے عالم میں۔۔۔ بس اچانک۔۔۔! ’’ارے ابھی تو بالکل ٹھیک تھے۔۔۔ کل ہی تو بات ہوئی۔۔۔ ابھی تو یہاں سے گئے۔۔۔‘‘ کتنی ہی باتیں کرنے کے لیے رہ جاتی ہیں، ہم کوئی عذر اور کوئی جواز تلاش کرنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔

دنیا سے جانے والے کی عمر اور بیماری بھی ’’ایسی‘‘ نہ ہو کہ جیسا کہ ہمارے ذہنوں میں ایک معیار طے ہے کہ چلو عمر ہوگئی تھی یا بے چارے عرصے سے فلاں بیماری میں مبتلا تھے۔۔۔ اﷲ نے مٹی عزیز کرلی، ڈاکٹروں نے جواب دے رکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی صورت میں اکثر یا یوں کہیں عموماً یہ معیار ہے کہ موت غیر طبعی ہوگی۔۔۔ یعنی خدانخواستہ کوئی حادثہ یا واقعہ۔۔۔ دیکھیں نا۔۔۔ ہمارے چلتے پھرتے بھی موت کے کتنے ’’مواقع‘‘ ساتھ لگے رہتے ہیں۔۔۔ کچھ گر جائے، گولی لگ جائے، ٹریفک حادثہ، کرنٹ لگنا اور اس ہی پر قیاس کرتے چلے جائیں اور یہ سب ہم سب کے ارد گرد تواتر کے ساتھ برپا ہے۔۔۔ ہم سب جانتے بوجھتے خود کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں کہ گویا ہمیں ان سب سے کوئی ’’استثنیٰ‘‘ حاصل ہو۔۔۔ ہمیں ان سب جانے والوں کے مقابل کوئی خاص چھوٹ حاصل ہو یا ہم ان کی طرح ملک الموت سے مزاحمت کر کے اپنا ’’دفاع‘‘ کرسکتے ہوں۔ دفاع کے نام پر کتنی ہی بھاگ دوڑ کرلی جائے جلد یا بدیر یہ تو ہونا ہی ہے۔۔۔ آج تک کسی کی بچت ہوئی ہے جو ہماری ہوگی۔۔۔!

ہماری مثال قربانی کے ان جانوروں کی سی معلوم ہوتی ہے جو اپنے دائیں بائیں قربان ہوتے جانوروں کے باوجود نہایت اطمینان سے معمولات میں مصروف رہتا ہے۔ چند ایک ہی حساس جانور ہوتے ہیں جو اس کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں یا کوئی تو جان سے ہی گزرجاتے ہیں۔ تو ہم بھی اول الذکرکی طرح ہی اپنی دنیا میں ہی مست رہتے ہیں مگر پھر آخر وہی ہونا ہوتا ہے جو ان جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ شاید اس سے بھی برا۔۔۔ کہ موت دبے قدموں ہمیں پیچھے سے آ لیتی ہے اور ہم چشم زدن میں میت ہوجاتے ہیں۔

خیر بات جدائی سے نکلی تھی اور دائمی جدائی تک جاپہنچی۔۔۔ دراصل گزشتہ کچھ دنوں میں پے درپے انتہائی قریبی احباب اور گھرانوں میں ایسی اموات ہوئیں کہ جنہوں نے زندگی اور اس کی بے وقعتی پہ سوچنے پر مجبور کردیا ؎
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

یوں بھی آج کی مادیت پرست، منافق اور بناوٹی دنیا میں زندگی کی بے برکتی ایسی عام ہوئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔ ابھی ہم بچے تھے، ہم نے ہوش سنبھالا۔۔۔ بچپن، اسکول اور لڑکپن کالج کے رستے جامعہ پہنچ کر جوان کرگیا۔۔۔ مگر وقت تھا کہ رکا ہی نہیں بلکہ اس کی آندھیاں چلتی رہیں اور پھر شادی اور بچوں کی شادی کے بعد ہم بھی اپنے آخری پڑاؤ کی جانب آگئے۔۔۔ ابھی تو بزرگوں دادا، دادی اور نانا، نانی کے قدموں میں بیٹھتے تھے۔۔۔ آج خود ان کے مقام پر پہنچ گئے۔ معلوم ایسا ہوا کہ سب ہوا کے جھونکے کی مانند گزر گیا اور اس ہوا کے دوش پر ہم بھی رہے ٹمٹماتے چراغ کہ اب بجھے کہ جب بجھے۔۔۔!

یہ تو وہ صورت حال ہے کہ جب کچھ ’’اچانک‘‘ نہ ہوا ہو اور کاتب تقدیر سے عمر کے اس قدر ماہ وسال ہوں کہ جسے دنیا طبعی عمر کا نام دیتی ہے اور پھر ذرا ماضی کے دھندلکوں میں دیکھیے ہر جگہ جدائی ہی جدائی نظر آئے گی۔ یہ دنیا اور زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ آج ہم جن لوگوں کے ساتھ ہیں کل نہیں ہوں گے۔۔۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہوگا۔ وجوہات دائمی ہوں یا کچھ اور وصل یاں کچھ کم ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے زندگی کے ایک اہم موضوع کی حیثیت بھی حاصل ہے اب خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ یہ زمانے اور حالات پر منحصر ہے۔۔۔ خیر جدائی اور وصل کے اس کھیل میں ہماری باری بھی ہے لگی ہوئی۔ کب، کہاں، کیسے؟ یہ کسے خبر ہوئی ہے۔۔۔ بس ہم تو حضرت انسان کو دیکھتے ہیں کہ صبح وشام زندگی اور اس دنیا کی بے وقعتی دیکھنے کے باوجود اس ہی عارضی ٹھکانوں پر نہ صرف مرکوز ہے بلکہ اس منشا کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے۔ کسی کو کہنی مارنی ہو یا کسی کو دھکا دے کر گرانا ہو۔۔۔ اس سے بھی آگے نکلنا ہے تو مال کھا جاتا ہے، جان لے لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہاں کسی کو ’’استثنیٰ‘‘ حاصل نہیں اور کچھ نہیں پتا، دنیا کی سب سے بڑی حقیقت جدائی اس کے وصل کو کب اچانک تلپٹ کر ڈالے۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔