کیا آج کا پاکستان

عبدالقادر حسن  جمعرات 24 مئ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک زمانہ تھا اور وہ زمانہ مسلم لیگ کا تھا جب برصغیر کے گلی کوچوں میں سلہٹ کے سبزہ زاروں سے لے کر بلوچستان کے پہاڑوں تک ہر جگہ ہرمسلمان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔ یہ نعرہ اس لیے بھی بہت مقبول ہوا کہ مسلمانوں میں سے ہی ایک طبقہ مسلم لیگ کے مخالف تھا ان کے جواب میں یہ نعرہ بلند ہوا کہ کوئی مسلمان ہے تو پھر وہ مسلم لیگ میں آجائے۔

مسلم لیگ پاکستان کی بانی جماعت ہے پچھلے ستر برسوں میں اس کے ناموں میں تبدیلی آتی رہی اس کی مہاریں مختلف شتر بانوں کے ہاتھوں میں رہیں لیکن نام مسلم لیگ کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہی رہا ۔

آج کی نسل یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ہندوستان کے نام سے ایک بڑے ملک میں ایک دھان پان سے شخص محمد علی جناح نے اس سرزمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ انگریز تو ہندوستان کو آزاد کر کے جا ہی رہے تھے اور ہندو ان کے جانشین بننے کے امیدوار تھے لیکن مسلمانوں کے سروں میں کچھ اور ہی سمایا ہوا تھا ۔

ان کا بس چلتا تو وہ انگریزوں سے ہندوستان کی وہ حکومت واپس چھین لیتے جس کو وہ اپنی چالاکیوںاور عیاریوںسے مسلمانوں سے ہتھیا کر ہندوستان کے حکمران بن گئے تھے لیکن انگریزوں کی دانشمندانہ عملداری کی وجہ سے حالات بہت بدل چکے تھے اور مسلمان اس بات تک آ گئے تھے کہ اس وسیع ملک میں ہمیں ایک آزاد ریاست چاہیے کیونکہ وہ اپنے سابقہ محکوم ہندوؤں کے ساتھ اشتراک نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ ایک ایسا آزاد ملک چاہتے تھے جس میں وہ آزادی کے ساتھ اپنے پرانے خوابوں کی تعبیر دیکھ سکیں اپنی وسیع و عریض مملکت کی یاد میں ایک چھوٹی سی مملکت ہی قائم کر سکیں جو آگے چل کر شائد کبھی ہمارے پرانے خوابوں کو حقیقت بنا سکے۔

آج کی نوجوان نسل کیا جانے انھوں نے تو ایک آزاد ملک میں آنکھ کھولی یہ غلامی کی مصیبتوں سے آشنا نہیں ہیں اس لیے شائد ان کو آزاد ملک کی قدر نہیں اور اوپر سے ان کو حکمران بھی ایسے ملے جو کہ آزادی کے باوجود بھارت کی خوشنودی نما غلامی کو ترجیح دیتے رہے یعنی وہ آزاد ہو کر بھی اس قوم کو غلام بنانے کی کوشش کرتے رہے ۔ وہ جو لال قلعہ پر پرچم لہرانے والی بات ہے وہ کوئی لطیفہ نہیں جیسے کہ آج کل کے پسماندہ پاکستانی سمجھتے ہیں بلکہ وہ ان امنگوں، امیدوں، آرزوؤں اور خواہشوں کا اظہار تھا کہ ہندوستان ہمارا تھا اور ہمارا رہے گا۔

مستقبل کے خواب دیکھنے والے مسلمانوں کے یہ تصور میں بھی نہیں آتا کہ وہ کسی ملک میںاور پھر اس ملک میں جس پر انھوں نے صدیوں تک حکومت کی ہو وہ ہندوستان کے غلام یا دوسرے درجے کی قوم بن کر زندہ رہ سکتے ہیں چنانچہ جہاں ایک علیحدہ ملک کے اور بہت سے اسباب تھے وہاں سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ماضی کے نشے میں سرشار مسلمان ایسی آزادانہ سوچ رکھتے تھے کہ اس کو کتنا بھی واضح کیوں نہ کیا جائے یہ آج کے مسلمانوں کی کھوپڑی میں نہیں سما سکتی۔

پوری کوشش کی جارہی ہے اور نہایت منظم طریقے سے کی جارہی ہے کہ پاکستان کے مسلمان بھارت کی بالادستی اور ہندو کی سیاست اور قیادت قبول کرلیںوہی ہندو جس سے بچ نکلنے کے لیے ہم نے پاکستان بنایا تھا اور اس کی خالق جماعت مسلم لیگ تھی اور بد قسمتی سے آج پھر وہی مسلم لیگ ہے مگر اس کا کردار مختلف ہے ۔ اس میں وہ جان نہیںیہ تاریخ سے انکار ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر مسلمانوں کے لیے نہیں بنایا گیا تھا اس میں سیاست بھی تھی قومی اور اسلامی ثقافت کا تحفظ بھی تھا اور اپنی آزادانہ مرضی سے کاروبار مملکت چلانے کا ارادہ بھی تھا۔

ہندوؤں کے واضح معاشی استحصال سے نجات بھی تھی جن مسلمانوں کو اسلام کی حکومت پسند نہیں تھی اور جو مذہب اور سیاست کو الگ الگ سمجھتے تھے وہ قیام پاکستان کے زمانے میں اس حقیقت سے تو انکار کر ہی نہیں سکتے تھے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر نہیں بنا کیونکہ یہ تاریخی حقیقت اس وقت ہر ایک کے سامنے تھی اور اس سے انکار ممکن نہیں تھا لیکن انھوں نے پاکستان کی اسلامیت کو کمزور کرنے کے لیے تحریک پاکستان کے ایک اور نقطے پر زیادہ زور دینا شروع کیا کہ پاکستان ہندو کی معاشی اور کاروباری برتری کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے بلا شبہ یہ بھی ایک نقطہ تھا لیکن ایک آزاد مسلمان ملک میں یہ سب خود بخود حل ہو جانا تھا۔ اسلام کو لولا لنگڑا دیکھنے کے خواہشمند اس طبقے نے اس پر مسلسل زور دیے رکھا۔ سیکولر مزاج کے کمزور ذہن والے مسلمان حکمران بھی اندر سے ان سے ملے ہوئے تھے اور اس طبقہ کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں سے اسلامیت کو کمزور کرنے اور دین و مذہب کو ریاست بدر کرنے کے منصوبے کے تحت بھارت کے ہندو کی معاشی بالادستی سے نجات کو اہمیت دی گئی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قیام پاکستان کی اصلی بنیاد معاشی تھی۔

ادھر کچھ عرصے سے جب انھی طرح کے خیالات والے لوگوں نے قلابازی کھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات اور سلسلوں کی وکالت شروع کر دی اور پاکستانیوں کو یہ باور کرانے لگے کہ پاکستان کا فائدہ اس میں ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کاروبار کرے تو ان کی خدمت میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ حضور آپ اتنی جلدی ہی بدل گئے کل تک تو آپ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور قیام پاکستان کی واحد وجہ بھارت کے ہندو کے معاشی استحصال کو بتاتے تھے اور پاکستان نے آپ کو وہ معاشی اور سماجی ترقی دی جس کا آپ بھارت میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے تو پھر آخر ایسی کون سے تبدیلی واقع ہو گئی ہے کہ آپ بھارت کے گن گانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔

کیا ہندوؤں نے مسلمانوں کے معاشی استحصال سے توبہ کر لی ہے یا پھر مسلمان معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ انھیں کسی کی پرواہ نہیں رہی۔ ان دنوں بھی نام کے معمولی ردو بدل کے ساتھ پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ہے اسی لیے مجھے مسلم لیگ کا اصلی کردار یاد آگیا ۔ آج کے مسلم لیگی شتر بانوں سے بس ایک مودبانہ سوال ہے کہ کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کے لیے مسلم لیگ نے جدو جہد کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔