میاں صاحب سے چند گزارشات

مقتدا منصور  جمعرات 24 مئ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میاں نواز شریف آج اس ملک کے جمہوریت نواز حلقوں کی امیدوں کا واحد محور ہیں ۔ وہ ان تمام لوگوں کی توقعات کا سہارا ہیں، جو اس ملک کو مہذب اور شائستہ معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ جمہوریت پروان چڑھے، آزادی فکر و اظہار یقینی ہو۔ غداریوں اور تکفیرکی سندوں کا اجرا بند ہو، جب کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے صوبے، ہر کمیونٹی اور ہر مذہبی ولسانی اقلیت کو اس کا حق مل سکے ۔

میاں صاحب آپ کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس ملک کی اصل مقتدرہ کا تعلق بھی زیادہ تر اسی صوبے سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ جس جرأت مندی سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، اس کا تصور چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والا کوئی بڑے سے بڑا رہنما بھی نہیں کرسکتا ۔ہم نے دیکھا ہے کہ اس ملک کے بانی کی قیام ملک سے تین دن پہلے کی گئی تقریرکس طرح خلائی مخلوق نے سنسر کی۔ ہم نے یہ بھی دیکھاکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کو کس طرح سید اکبر نامی افغان شہری سے قتل کرایا گیا۔

ہم نے قرارداد لاہور پیش کرنے والے شیر بنگال مولوی فضل الحق اور سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد منظور کرانے والے سائیں جی ایم سید کو حقارت آمیر انداز میں غدار قرار دیا گیا اور یہ رہنما یہی سند لیے اس دنیا سے چلے گئے ۔ کیا مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ باچا خان، جو اس خطے کو آزادی دلانے کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برادشت کرتا ہے، آزاد ملک میں بھی جیلیں ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

اس ملک میں وہ رہنما معمولی حیثیت کے تارا مسیح کے ہاتھوں سولی چڑھوا دیا جاتا ہے ، جو شملہ معاہدے کے ذریعے 93ہزار جنگی قیدی واپس لایا ۔ جس نے اس ملک کو جوہری توانائی کی راہ دکھائی، جواس ملک کو مسلم دنیا کا رہبر بنانے کاخواہش مند تھا، جو آج بھی عوام کے دلوں میں فخر ایشیا اور قائد عوام کے طورپر زندہ ہے۔ وہ اہل علم دانش جنہوں نے اس ملک کے روشن مستقبل کے خواب دیکھے، انھیں صرف اس لیے غیر محب وطن قراردیا گیا کہ انھوں نے غیر جمہوری قوتوں کی ریاست پر بالادستی قبول کرنے سے انکار کیا۔

میاں صاحب، یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ ایک رہنما نے کوئی تین دہائی قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’میں بھارتی ٹینکوں پر سوار ہوکر پاکستان آؤں گا۔‘‘گویا وہ اس ملک کے وجود کے خاتمے کے متمنی تھے، مگر اس ملک دشمن بیان کوصرف اس لیے نظر انداز کردیا گیا،کیونکہ ان کا تعلق طاقتور طبقے سے ہے اور وہ ان حلقوں کے چہیتے ہیں، جو غداری کی سندیں جاری کرتے ہیں، لیکن سندھ کے شہری اضلاع کی نمایندہ تنظیم کے بانی رہنما نے جب محض چند سرکاری افسران کا نام لے کر ان پر تنقید کی ، تو اس کی تحریر، تقریر اور تصویر پر ملک بھر میں ایک صوبائی عدالت سے پابندی لگوا دی گئی۔

میاں صاحب ہوسکتا ہے کہ آپ کا پنجاب سے تعلق، لیکن سب سے بڑھ کر عوام کی بے پناہ حمایت کی وجہ سے شاید اس تحقیر کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کا شکار دیگر صوبائی قیادتیں اور عوام روز اول سے چلے رہے ہیں، جب کہ مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کی اولادیں یہی توہین و تحقیرآج  سہہ رہی ہیں ۔ صرف پنجاب ہی نہیں، بلکہ چھوٹے صوبوں اور چھوٹی کمیونٹیوں سے تعلق رکھنے والے متوشش شہری بھی آپ کے لیے نرم گوشہ اور آپ کی کامیابی کے متمنی ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کو ماورائے آئین و قانون اقدامات اور ان کے ساتھ ہونے والے دوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں والے سلوک کا خاتمہ صرف آپ ہی کراسکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بھی آج اسی تجربے سے گذر رہے ہیں، جو روز اول سے ان کا مقدر رہاہے۔

حالات کا رخ اور عوام کا مزاج یہ بتا رہا ہے کہ اگر انتخابات شفاف ہوئے اور 1951 والا جھرلو نہ پھیرا گیا، تو آپ کے بھاری اکثریت سے کامیابی کے قوی امکانات ہیں ۔ اس لیے وہ تمام شہری جو اس ملک میں جمہوری اقدار کے استحکام ،آئین کی بالادستی اور قانون کی حاکمیت کے خواہشمند ہیں، آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنی کامیابی کے بعد ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے، جو ایک آزاد، جمہوری اور مہذب ملک و معاشرے کا خاصا ہوا کرتے ہیں۔ انھیں آپ سے یہ بھی توقع ہے کہ آپ چھوٹے بڑے صوبے کے ساتھ ہر قسم کے امتیاز سے بالاتر ہوکر حقیقی وفاقیت کو اپنی سیاست کا محور بنائیں گے۔

عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہو، تاکہ ملک خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے ذریعہ پائیدار امن و استحکام کی جانب بڑھا جا سکے۔ یہ طے ہے کہ جب خطے میں امن ہوگا ، تو دفاعی اخراجات کا بوجھ بھی کم ہوگا ۔ یوں یہ رقم ترقیاتی منصوبوں پر لگائی جاسکے گی ۔ تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے نتیجے میں تجارت کو فروغ حاصل ہوگا، تو ایک طرف تنازعات کو ختم کرنے کی سبیل پیدا ہوگی ، جب کہ دوسری طرف معیشت کے استحکام سے عوام کی خوشحال میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

پاکستان کے شہری یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمیں امریکا اور چین کی معاشی مسابقت سے نہ کوئی غرض ہے اور نہ ہی سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت سے کوئی سروکار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہی اپنا دفاع بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔ یہ پہلو بھی ہم سب کے مد نظر ہے کہ سوویت یونین جوہری سپر پاور ہونے اور وسیع فوج رکھنے کے باوجود اس لیے تحلیل ہوگیا کہ وہ عوام کے معاشی مسائل حل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ جب کہ جاپان کوئی فوج نہ رکھنے کے باوجود امریکا اور یورپ سے زیادہ مضبوط و مستحکم صرف اس لیے ہوگیا کہ اس نے معیشت کی ترقی کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ اس لیے میاں صاحب آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ جب آپ چوتھی بار منتخب ہوکر اقتدار میں آئیں ، تو حسب ذیل اقدامات کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔

1۔ پارلیمان کو اہمیت دیں اور تمام تر فیصلہ سازی بالخصوص خارجہ پالیسی سازی کو پارلیمان سے منظور کرائیں۔

2 ۔ آپ خود اور اپنی کابینہ کو پابند کریں گے کہ وہ پارلیمان کے اجلاسوں میں شریک ہوں گے۔

3۔ قانون کی حاکمیت کو صحیح معنی میں قائم کرائیں اور ایسے تمام قوانین و ضوابط کی تنسیخ کرائیں جو انسانی حقوق کے اصولوں ، جمہوریت اور جمہوری اقدار سے متصادم ہوں۔

4۔ اس ملک کو قائد اعظم کے تصور کے مطابق ایک وسیع البنیاد جمہوری مملکت بنائیں گے، جس میں غیر مسلموں سمیت تمام فرقوں اور مسالک کے مسلمانوں کو مساوی شہری حقوق حاصل ہوں ۔

5۔ وہ قوانین جو آپ نے اپنے گزشتہ (تیسرے) دور میں باحالت مجبوری منظور کیے تھے، انھیں پارلیمان کی مدد سے واپس لیں گے۔ بالخصوص ملزمان کا 90 روز کا ریمانڈ اور بغیر وارنٹ گرفتاری کی اجازت شامل ہیں۔

6۔ اقوام متحدہ کے کنونشن جس پر پاکستان دستخط کرچکا ہے، اس کی رو سے زیر حراست ملزمان پر ایذا رسانی کے ذریعے اقبال جرم کرنے کے طریقہ کار کو ختم کرائیں گے۔

7۔ ریاستی اداروں کو آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کا پابند بنائیں گے۔

8۔ ہر ریاستی ادارے سے دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز پر باز پرس کریں گے اور جرم ثابت ہونے پر سزا دیں گے۔

9۔ ریاستی اداروں کو سیاسی عمل میں مداخلت اور سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنے اور من پسند گروپس تشکیل دینے کے غیر آئینی اقدامات سے روکنے کے لیے موثر قانون سازی کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔