انتخابات کا طبل بج چکا

آفتاب احمد خانزادہ  جمعرات 24 مئ 2018

انتخابات کا طبل بج چکا ہے روز نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے لیکن اس میں سب سے اہم صورتحال میاں نوازشریف کے خود کش انٹرویو سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ملک کے ایک حساس معاملے پر سو چ سمجھ کر دیا اور اسے واپس بھی نہیں لیا اورنہ ہی وہ اس معاملے پر معافی کے طلب گار ہوئے۔

نتیجے میں انھوں نے پوری مسلم لیگ (ن) کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، یہ ایک بالکل نئی صورتحال ہے جو سامنے آئی ہے حکمران جماعت کی کوشش ضرور ہوگی کہ وہ نگرانوں کے ذریعے اپنی کامیابی کی کوشش کرے لیکن مسلم لیگیوں کو یہ پیغام مل چکا ہے کہ آیندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخابات جیتنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اسی لیے ٹکٹ حاصل کرنے کے امیدوار پریشانی اور مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ جب سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے میاں نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دیا ہے وہ عجیب کیفیت میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ اس داغ کو مٹانے کے لیے سارا نظام ہی الٹ پلٹ کرنے کی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں جب کہ مسلم لیگ کی اکثریت اس حد تک جانے کو تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔

میاں نوازشریف کا رویہ ظاہرکرتا ہے کہ جیسے وہ یہ پیغام دے رہے ہوں کہ وہ نہیں تو پھرکوئی بھی نہیں۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگی شدید پریشانی کا شکار ہیں اور سب ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں ان میں سے بعض عقل مندوں نے تو اپنے معاملات طے کر لیے ہیں۔ افسانوی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا شیر رسی توڑ کر نکل بھاگا ہے اور سب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ مسلم لیگیوں کو ہی ہڑپ کر ے گا اسے اب قابوکرنا خود مسلم لیگ کے بس کی بات ہو گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس نے سب مسلم لیگیوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

ایسی بے یقینی کی صورتحال میں پارٹی افراتفری اور انتشار کی کیفیت میں ہی رہے گی، ایسی افراتفری اور ایسا انتشار جو جلد تھمنے والا نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا ہو کہ دباؤ ڈال کر سزا سے بچنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا حالیہ متنازعہ انٹرویو بیک فائرکر گیا ہے۔ خود ان کی جماعت کے لوگ بھی ایسے بیانات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں گے، جس میں پاکستانی ریاست کے مفادات کو نقصان ہو سکتا ہو۔

آیندہ کا منظر نامہ اس روش کی وجہ سے مسلم لیگ کے لیے مزید خوفناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں کے ذہن میں بھی نہ تھی۔ خود میاں نواز شریف نے جس کی راہ ہموار کی ہے، اس وقت پوری جماعت رسوا ہو رہی ہے ایسا لگتا ہے مسلم لیگ میں شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف اور میاں نواز شریف الگ الگ اہداف رکھتے ہیں۔

شہباز شریف نے اہم کامیابی حاصل کر لی ہے وہ مسلم کے صدر منتخب ہو گئے ہیں، اگلا مرحلہ وزارت عظمیٰ کا ہے جس کے لیے میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کے لیے منتخب ہونا مشکل نظر آ رہا ہے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کی علیحدہ ملاقات کی بہت کوشش کی لیکن اس ملاقات کے لیے میاں نوازشریف نہ مانے کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ انھیں اس حد تک پہنچانے میں چوہدری نثار کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہے۔ لیکن اس کے باوجود میاں نواز شریف انھیں پارٹی سے نہ نکال سکے اور اب تو معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں ہی نہیں۔

ایک طرف یہ کھیل ہے تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے حالات کو بھانپ کر خود کو ایم ایم اے کی چھتری میں محفوظ کر لیا ہے اور اب وہ اپنے آپشن کھلے رکھیں گے اور کسی نئی ڈیل کے منتظر رہیں گے جس کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ مولانا کی نیک نامیوں کی گواہی جماعت اسلامی کو دینی ہے، انتخابی عمل میں MMA کے لیے مولانا کا دفاع کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت مشکل ہو گا اور اس کے اثرات MMA میں شامل تمام جماعتوں پر ہونگے۔

ادھر بظاہر عمران خان کو یہ نظر آ رہا ہے کامیابیاں ان کے قدم چوم رہی ہیں اور ان کا احتساب اور نئے پاکستان کا نعرہ مقبول ہو رہا ہے اور ساتھ ہی وہ بدعنوانیوں سے پاک پاکستان کے لیے سب کو اکٹھا کر سکیںگے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام انتہائی مشکل ہے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر انھیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں گزشتہ ستر سال سے جاری بدعنوانی کے خاتمے کا خواب دیکھنا بہت آسان ہے لیکن اس خواب کو پورا کرنے کے لیے پوری قوم کو تیارکرنا بہت کٹھن معاملہ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس سارے گیم میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے لیکن اسے بھی مسائل کا سامنا ہے، پنجاب میں وہ ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں لا سکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کو میاں نوازشریف نے سخت ترین بحران میں مبتلا کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کو بحران میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کی آیندہ کی کامیابی روز بروز دور ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔