سندھ سراپا احتجاج

جاوید قاضی  جمعرات 24 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہمیں پتہ نہیں ہوتا لیکن لاوا کہیں نہ کہیں پک رہا ہوتا ہے۔ معلوم تب پڑتا ہے جب وہ ہماری آنکھوں کے سامنے کہیں ظاہر ہوتا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہم یہ لاوا پکنے ہی نہ دیتے، اس کے لیے کوئی بڑی تگ ودوکرنے کی بھی ضرورت نہ تھی بس تھوڑی سی ہوش مندی درکار تھی۔ ہم کہتے ضرور ہیں کہ ہم سب آئین کے تابع ہیں لیکن آخر یہ کون لوگ ہیں جو لوگوں کو لاپتہ کر دیتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں یہ روایت اس ملک میں کچھ یوں چل پڑی ہے کہ لوگ اچانک لاپتہ ہو جاتے ہیں۔

یہ بات تو کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ اغوا ء ہو جاتے ہیں ان کو مغوی بنایا جاتا ہے اور تاوان ادا کرنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسے لوگوں کے زیادہ تر ٹھکانے افغانستان میں ہیں مگر بہت سے لاپتہ افراد کو مختلف ایجنسیاں اٹھاتی ہیں، نیشنل سیکیورٹی کے نام پر۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف حوالوں سے قوم پرستی کے زمرے میں آتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان لوگوں کی کڑیاں کہیں کسی بیرونی ایجنسیوں سے ملتی ہوں اور ایسے بھی افراد ہونگے جو معصوم ہیں۔ جو قوم پرست تو ہیں، حق خود ارادیت کی بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کا تعلق کسی بیرونی ایجنسی سے نہیں اور نہ ہی وہ کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

ہمارے پاس آئین ہے، قانون ہے تو پھر ہم اس سے ماورا کیوں چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پکڑا بھی جاتا ہے اور پھر کوئی ٹرائل بھی نہیں چلتا، نہ FIR درج ہوتی ہے اور نہ ہی عدالتوں کے علم میں یہ بات آتی ہے، یا پھر ہم اس بات کو وسیع دل کے ساتھ تسلیم کریں کہ اس ملک میں ایسی طاقتیں بھی وجود رکھتی ہیں جو آئین و قانون سے بھی ماورا ہیں۔ ایسی بیرونی طاقتیں بھی اس ملک میں لاپتہ افراد کی کھوج میں ملوث ہوچکی ہیں جن کی اپنی جڑیں پاکستان دشمن عناصر میں موجود ہیں۔

اس تحریک کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ تحریک خود ہی اس ملک کی دشمن ہو۔ یہ تحریک بنیادی طور پر انسانی حقوق کی تحریک ہے۔ ان لاپتہ اور گمشدہ افراد کے خاندان کے لوگ ، کراچی پریس کلب کے سامنے سراپا احتجاج ہیں وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں ، بس اتنا کے ان کے پیاروں کو واپس بازیاب کیا جائے اگر ان پر فرد جرم عائد ہوتا ہے تو اوپن عدالت میں مقدمے چلائے جائیں ۔

اسی مقصد کو پانے کے لیے کچھ سال قبل ماما قدیر نے کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد تک پابہ جولاں سفر کیا۔ ماما قدیر کے ساتھ ان بلوچ گم شدہ قوم پرستوں کی بیٹیاں اور خاندان والے بھی اس سفر میں شامل تھے۔ اس ملک کے لیے ایک طرح سے یہ بہتر تھا کہ احتجاج کے اس طریقہ کار سے ہمارے ملک کی جمہوری اقدار مضبوط ہو رہیں تھیں کیونکہ اگر کشمیر کو دیکھا جائے تو وہ ہندوستان کے آگے اس طرح سراپا احتجاج ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔

ایسی ہی طرز کی تحریکیں گزشتہ دو سالوں سے سندھ کے اندر بھی جنم لے رہی تھیں ۔ ان لاپتہ افراد کی واپسی کے لیے ، دھرنے دیے گئے، بھوک ہڑتال کی گئی اور پھر ایسے لوگ بھی لاپتہ ہوئے جو ان تحریکوں کی سربراہی کر رہے تھے۔

اس تحریک میں ایک نئی تیزی آئی جب دو دن پہلے پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کے دوران بیٹھی ہوئی عورتوں پر قانون نافذ کرنے والے فورس نے اپنی بندوقیں تان لیں اور ان کو زدوکوب کیا اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی ۔ اس ویڈیوکو پورے سندھ نے دیکھا اور عورتوں پر اس تشدد کو دیکھ کر پورا سندھ اس وقت طیش میں ہے۔ ریاست کے اس رویے نے بجائے مسائل کو سلجھانے کے اور الجھا دیا ہے۔

اس ملک میں کیا موجود نہیں عام فوجداری عدالتیں، خصوصی دہشتگردی عدالتیں اور ملٹری کورٹس جو ایک مخصوص مدت کے لیے بنائی گئیںلیکن حیرت اس بات پر ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے سنگین مجرم ہیں کہ ان کو اس ملک کی ان عدالتوں میں پیش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں پر ماورائے عدالت قتل بھی ہوجاتے ہیں جیسے کہ راؤ انوار نے کیے! کیا گزرتی ہوگی ان لوگوں کے لواحقین پر جب اس ملک کی وسیع عدالتیں بھی ان کے لیے کچھ نہ کرسکیں اور کوئی سوموٹو بھی کام نہ آسکے۔ اب ان لاپتہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہوچکی ہے اوران افرادکا تعلق ملک کے چاروں صوبوں سے ہے۔

ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ ریاست کے پاس تعلیم ، روزگار اور اچھی صحت مہیا کرنے کے لیے کوئی ذرایع موجود نہیں ۔ یہ نوجوان آخر کہاں جائیں؟ کونسا راستہ اپنائیں ؟جب ان کی بنیادی ضروریات زندگی ہی ریاست پوری نہ کرسکے ۔ یہ نوجوان یا مدرسوں کی طرف جائیں گے یا پھر قوم پرست نظریوں کو اپنائیں گے ۔

دونوں صورتوں میں وہ اپنے ہاتھ میں قلم اٹھانے کی بجائے ہتھیار اٹھائیں گے۔ ایسی تحریکیں پھر چاہے وہ منظور پشتین ہو یا کوئی اور جنم لیتی رہیں گی اور جن کو آہنی ہاتھوں سے روکا نہیں جاسکتا۔ ایسی تحریکوں پر ریاست کا غصہ کرنا یا رد عمل کا اظہارکرنا اپنی شکست ماننے کے مترادف ہے یعنی counter productive ہونا ہے۔

ہم بھی اپنی نوجوانی کے دور میں چی گویرا کو اپنا رہبر مانتے تھے، بھگت سنگھ بننے کے خواب دیکھتے تھے۔ سندھ میں اس وقت دو نظریے تھے۔ ایک جی ایم سید کا قوم پرست نظریہ اور دوسرا سرخ انقلاب۔ ہم سرخ انقلاب کے حامی تھے۔ آج کی نیشن نوجوانوں(Youth) کی ہے اور نوجوانوں کو ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ہے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے۔ اس ملک کا نظام جس ڈگر پر ہے اس سے نوجوانوں کے اندر ایک اشتعال کی صورت نظر آ رہی ہے۔

میاں صاحب کو راستوں کے جال بچھانے، گرین بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں سے فرصت نہیں۔ لیکن ہیومن ریسورسس ڈویلپمنٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ مزید زبوں حالی کا شکار ہیں، معیار زندگی ابتر ہے۔ نوجوان اس ملک کے بجٹ کا حصہ نہیں، نہ سیاست میں ان کے لیے بہتری اور نہ ہی وہ ریاست کے مجموعی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

قصہ مختصر کہ ان لاپتہ افراد کو عید سے پہلے اپنے پیاروں سے ملوایا جائے اور ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں ہی فیصلہ کریں کہ ان میں سے کون مجرم ہے اور کون معصوم۔ ریاست کے اس ٹھوس اقدام سے لوگوں میں انتشار کم ہوگا، ریاست کی عزت بڑھے گی اور دشمن عناصر کا ایجنڈا کمزور ہوگا، کیونکہ اس ملک کی بنیادیں اتنی بھی کمزور نہیں کہ دو ملک دشمن نعروں سے ہل جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔