فاٹا انضمام: نواز لیگ کا آخری دلنواز فیصلہ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 25 مئ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

چاہیے تو یہ تھا کہ جناب میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں جو دھواں دھار پریس کانفرنس کی ہے، اِسے موضوعِ سخن بنایا جاتا لیکن ابھی اِس پڑھی گئی پریس کانفرنس کی پرتوں کو مزید کھلنا اور منکشف ہونا ہے۔میاں صاحب نے کہا تھا کہ وہ اپنے سینے میں دبے رازوں کو عیاں کردیں گے، سو یہ راز رفتہ رفتہ عیاں اور بے نیام ہو رہے ہیں۔تازہ پریس کانفرنس میں باقی باتیں تو وہی پرانی ہیں لیکن ’’مشرف غداری کیس‘‘ کے حوالے سے نئی بات کہی گئی ہے۔

اِسے بھی پرانی اور نئی ثابت کرنے کے لیے فریقین اپنا اپنا زور لگا رہے ہیں۔نواز شریف اپنے بعض عزائم کے اعتبار سے غیر متزلزل ثابت ہو رہے ہیں۔ اِس وقت جب کہ نواز شریف و نون لیگ آزمائشوں اور امتحانوں کا شکار ہیں اور اگلے ایک ہفتے میں نون لیگ کی مرکزی حکومت بھی ختم ہونے والی ہے، ایسے میں نون لیگ اور نون لیگی وزیر اعظم کے کسی کام کی تعریف کرنا مشکل امر ہے۔

انصاف کا تقاضا مگر یہ ہے کہ جس کسی نے بھی عوامی مفاد میں قدم اُٹھایا ہو، کوئی مثبت کوشش کی ہو، اُسے بغیر کسی تعصب کے کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ ہماری جری سات قبائلی ایجنسیوں کو، جنہیں عرفِ عام میں ’’فاٹا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، کے پی کے میں ضَم کرنے کی راہ ہموار کرکے نون لیگی وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے ایک عظیم کامیابی سمیٹی ہے۔ یہ ایسا تاریخ ساز اقدام ہے جس کا زیادہ تر کریڈٹ نواز  شریف اور نون لیگ کی مرکزی حکومت کو جاتاہے۔

اِن سطور کی اشاعت تک فاٹا انضمام، اصلاحات کا بِل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو چکا ہوگا۔ دہائیوں سے نظر انداز ’’فاٹا‘‘ میں اصلاحات لانے کا آغاز نون لیگ نے کیا۔ 19مئی 2018ء کو پی ایم ہاؤس میں وزیر اعظم عباسی صاحب کی زیر صدارت ’’ قومی سلامتی کمیٹی‘‘ کا 23واں اجلاس ہُوا تھا۔ نہایت اہمیت کا حامل یہ اجلاس عین اُس وقت منعقد کیا گیا جب وزیر اعظم صاحب ’’او آئی سی‘‘ کے اجلاس میں شرکت کرکے ترکی سے واپس آئے ہی تھے۔

نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اس اجلاس میں دیگر کئی اہم فیصلوں کے ساتھ ’’فاٹا‘‘ کو خیبر پختونخوا میں مدغم کرنے کی بھی توثیق کر دی گئی۔نواز شریف صاحب اور نون لیگ کے دونوں دیرینہ اقتداری اتحادی، حضرت مولانا فضل الرحمن و محمود خان اچکزئی صاحب، بوجوہ اِس انضمام کی مخالفت کررہے تھے؛چنانچہ قومی سلامتی کمیٹی کے مذکورہ اجلاس میں یہ دونوں صاحبان شریک نہیں ہُوئے ہیں تو اِس پر کسی کو کوئی حیرت بھی نہیں ہُوئی ہے۔ عباسی صاحب نے ذاتی حیثیت میں آخری لمحات تک اِنہیں ہم خیال بنانے کی حتمی کوشش تو کی لیکن ناکام رہے۔ ایک انگریزی معاصر کا کہنا ہے کہ’’نون لیگ نے فیصلہ یہی کیا تھا کہ فاٹا کے انضمام بارے اگر یہ دونوں اتحادی شخصیات تشریف نہیں لاتیں تو نہ لائیں ۔ اُن کے بغیر ہی ہمیں یہ فیصلہ ہر صورت کرنا ہے۔ ہم کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔‘‘

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کے جملہ معزز اراکین کی موجودگی میں متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی کہ پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے ’’فاٹا‘‘ انضمام کے لیے آئینی، قانونی اور انتظامی طریقہ کار طے کیے جائیں۔ کمیٹی نے آیندہ ایک عشرے کے دوران ’’فاٹا‘‘ کواضافی ترقیاتی فنڈز دینے کی توثیق بھی کی اور خاص طور پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ فنڈز کسی اور جگہ استعمال اور ٹرانسفر نہیں ہو سکیں گے ۔

’’فاٹا‘‘ انضمام کا یہ مظاہرہ اپنی نوعیت کا منفرد اور غیر معمولی اقدام ہے۔ عشروں سے اِس کا انتظار کیا جارہا تھا۔ اب نون لیگی حکومت کے آخری دنوں میں وفاق کے زیر انتظام ساتوں ایجنسیوں کے لاکھوں عوام کی بر آئی ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں فاٹا عوام کی دعائیں مستجاب ہُوئی ہیں۔فیصلے کی توثیق سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سپیشل اسسٹنٹ برائے قانون، بیرسٹر ظفر اللہ، کی نگرانی میں کئی نشستیں ہُوئی تھیں۔ ان میں اپوزیشن پارٹیوں کے چنیدہ افراد باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔نون لیگی قیادت نے’’فاٹا‘‘ کی حالت بہتر بنانے کے لیے کئی عملی کوششیں بھی کی ہیں۔

مثال کے طور پر ’’ایف سی آر‘‘ کے قانون(جسے مقامی آبادی سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے) کو ختم کرکے ’’رواج ایکٹ‘‘ متعارف کروانا چاہا لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ مقامی قبائلیوں کا کہنا تھا کہ ’’ایف سی آر‘‘ اور ’’رواج ایکٹ‘‘ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے؛چنانچہ اِس کے بعد عدالتِ عظمیٰ اور پشاور عدالتِ عالیہ کی عملداری کو ، قومی اسمبلی و سینیٹ کے منظور شدہ بِلوں کے تحت، فاٹا تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔نون لیگ نے ’’فاٹا‘‘ سے ’’ایجنسی ڈویلپمنٹ فنڈ‘‘ کا خاتمہ بھی کر دیا کہ اِس فنڈ پر پولیٹیکل ایجنٹس کی اجارہ داری بن چکی تھی اور عمومی طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ’’سورس آف کرپشن ‘‘ بن گیا ہے۔ جناب نواز شریف کی ہدائیت پر ایک ’’فاٹا ریفارمز کمیٹی‘‘ بھی تشکیل دی گئی تھی۔

سرتاج عزیز صاحب اس کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ اِس کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ اگلے دس برس میں ’’فاٹا‘‘ کی ترقی کو مہمیز دینے کے لیے ضروری ہے کہ ’’فاٹا‘‘ کو ہر سال 100ارب روپے فراہم کیے جائیں اور اِن میں کبھی انقطاع پیدا نہ ہو۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے بھی کمٹمنٹ دی ہے کہ یہ رقم باقاعدہ ہر سال ’’فاٹا‘‘ کو مہیا کی جاتی رہے گی لیکن ابھی تک یہ گتھی نہیں سُلجھ سکی ہے کہ 100ارب روپے کا یہ سالانہ فنڈ وفاقی حکومت فراہم کیا کرے گی یا پھر چاروں صوبے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقوم میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ کم کرکے اِسے ’’فاٹا‘‘ کے لیے مختص کریں گے تاکہ سو ارب روپے اکٹھے کیے جا سکیں۔

ابھی تو صرف کے پی کے نے رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی اپنی رقم میںسے کچھ حصہ کاٹ کر ’’فاٹا‘‘کی خدمت کر سکے گا۔ خیبر پختونخوا میں’’فاٹا‘‘ کے مکمل انضمام یا اتصال تک بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ابھی تو مولانا فضل الرحمن صاحب جولائی 2018ء کے موعودہ انتخابات میں اِس انضمام کے خلاف تقریریں کرکے اپنے ووٹروں کو بھڑکائیں گے بھی اور ووٹ بھی کھرے کریں گے۔ وہ اپنے ہمنواؤں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ’’فاٹا‘‘ کو الگ صوبہ ہونا چاہیے، چہ جائیکہ اسے کے پی کے میں ضَم کر دیا جائے۔

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ’’فاٹا‘‘ میں مولانا موصوف کے پیروکاروں کی تعداد کم نہیں ہے۔انھوں نے لنڈی کوتل میں گذشتہ روز انضمامی توثیق کے خلاف پہلا منظّم مظاہرہ تو کروا دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔