نواز شریف کی اصل طاقت الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی میں شامل

رضوان آصف  جمعـء 25 مئ 2018
ہر الیکٹ ایبل تحریک انصاف کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے لیکن اب عمران خان نے جہانگیر ترین کے مشورے پر ہاتھ’’کھینچ‘‘ لیا ہے۔ فوٹو : فائل

ہر الیکٹ ایبل تحریک انصاف کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے لیکن اب عمران خان نے جہانگیر ترین کے مشورے پر ہاتھ’’کھینچ‘‘ لیا ہے۔ فوٹو : فائل

 لاہور: نوازشریف کا ووٹ بینک ہی نہیں بلکہ ان علاقوں کے سدا بہار طاقتور الیکٹ ایبلز ہیں جو ن لیگ کی طاقت بڑھانے کا اصل ذریعہ بنے رہے ہیں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔

پنجاب کے بڑے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک کمزور ہوا ہے لیکن ابھی تک مستحکم ہے؟۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو کمزور مخلوط حکومت قبول نہیں کیونکہ بہت کمزور مخلوط حکومت سیاسی طور پر زخمی نواز شریف کے حملوں اور چالوں کو دو، ڈھائی برس سے زیادہ برداشت نہیں کر پائیگی؟۔

نوازشریف اوروزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بروقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بیانات میں بے یقینی اور خوف کی جھلک کیا آنے والے کسی سیاسی طوفان کا علم ہونے کا ثبوت ہے ؟۔ عام انتخابات مؤخر یا ملتوی ہوتے ہیں تو اس سے تحریک انصاف پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

یہ وہ چند اہم ترین سوالات ہیں جو اس وقت پاکستان کے ہر باخبر اور ذی شعور فرد کی زبان پر ہیں اور اہم ترین حلقے بھی ان سوالوں کو اور ان کے نامکمل جوابات کو بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں، گزشتہ چند روز سے سیاسی ومقتدر حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ شدید ابتر حالت زار کے باوجود پنجاب کے بڑے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک ابھی تک مستحکم ہے اور اگر انتخابات جولائی میں منعقد ہوتے ہیں تو شاید تحریک انصاف ’’توقعات‘‘ کے مطابق نشستیں نہ جیت سکے اور ایسی صورتحال میں اگر تحریک انصاف کو زیادہ تعداد میں چھوٹی جماعتوں اور گروپس کو ملا کر حکومت سازی کرنا پڑتی ہے تو یہ کمزور حکومت ہوگی اور مسلم لیگ (ن) اسے گرانے کیلیے زیادہ طاقت سے سیاسی حملے کریگی۔

، دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یہ درست ہے کہ پنجاب کا اربن ایریا مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اسکی وجہ نوازشریف کا ووٹ بینک ہی نہیں بلکہ ان علاقوں کے سدا بہار طاقتور الیکٹ ایبلز ہیں جو ن لیگ کی طاقت بڑھانے کا اصل ذریعہ بنے رہے ہیں اور اب یہی الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں لہٰذا پنجاب کے شہری علاقوں میں مسلم لیگ (ن) شاید اب پہلے جیسی طاقتور نہیں رہی۔

’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے بیانیہ نے کم ہی سہی لیکن نوازشریف کو فائدہ پہنچانا شروع کردیا تھا اور نیوٹرل ووٹر بھی میاں صاحب کو ہمدردی سے دیکھنا شروع ہو گیا تھا لیکن میاں نواز شریف نے اپنے 2 برس کی جدوجہد کو اپنے ایک بیان سے ٹکے ٹوکری کر ڈالاہے۔

پنجاب کا رہنے والا خواہ کسی بھی جماعت سے منسلک ہو اس کی افواج پاکستان سے محبت ہر سیاسی وابستگی پر حاوی ہو جاتی ہے، نوازشریف نے ممبئی حملوں کے متنازع بیان کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا اور دو روز قبل انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں پھر سے فوج کو ’’GUILTY ‘‘قرار دینے کی کوشش کی تاہم میڈیا اور عوام کی اکثریت ان کی پریس کانفرنس سے متاثر نہیں ہو پائی ہے۔

میاں صاحب کو علم ہوچکا ہے کہ جن الیکٹ ایبلز کے سہارے وہ اقتدار کا کھیل کھیلتے رہے وہ اب ان کے آنگن سے رخصت ہو چکے ہیں اور مستقبل قریب میں احتساب عدالت کی جانب سے متوقع فیصلہ بھی ’’بری خبر‘‘ ہی لانے والا ہے۔ تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت نے عمران خان کیلئے بھی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

ہر الیکٹ ایبل تحریک انصاف کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے لیکن اب عمران خان نے جہانگیر ترین کے مشورے پر ہاتھ’’کھینچ‘‘ لیا ہے کیونکہ پارٹی کے بندوں کو بھی تو ٹکٹ دینا ہیں۔تحریک انصاف کے اندر کی سیاست بھی الجھ گئی ہے۔ رانا حسن نواز کے معاملے پر کور کمیٹی اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان تلخ کلامی نے دھڑے بندی کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔

تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق عمران خان جس قدر اعتماد جہانگیر ترین پر کرتے ہیں اتنا شاہ محمود قریشی یا کسی اور رہنما پر نہیں کرتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 2013 ء سے لیکر آج تک جہانگیر ترین نے پارٹی کیلیے جتنا وقت اور سرمایہ خرچ کیا وہ کوئی دوسرا رہنما نہیں کر سکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔