عام انتخابات…خدشات اورتحفطات

نصرت جاوید  بدھ 24 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آٹھ سال تک فوجی عدالتوں، سنسر شدہ پریس اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارنے والے مارشل لاء کے ذریعے حکمرانی کرنے کے بعد جنرل ضیاء نے 1985 میں جزوی جمہوریت کی بحالی کے لیے عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی جماعتی حیثیت میں اس انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ اس فیصلے کے خلاف اس زمانے کی تحریک برائے بحالی جمہوریت میں شامل سیاستدانوں نے ان عام انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم اس اتحاد کے اہم رہنما ہوا کرتے تھے۔ اپنے انتقال سے چند ماہ پہلے انھوں نے میرے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں تواتر سے اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ بائیکاٹ کا یہ فیصلہ ان کی سیاسی زندگی کی چند بدترین غلطیوں میں سے ایک تھا۔

میں انتخابات کے اس سال میں اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار کا نسبتاََ جونیئر رپورٹر تھا۔ مگر 1984 میں پہلی بار بھارت جا کر میں نے وہاں ہونے والے انتخابات کی جو رپورٹنگ کی ، اس نے میری پیشہ وارانہ ساکھ میں بڑا اضافہ کیا۔ اسی لیے میرے مدیر کی یہ خواہش تھی کہ میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شہروں میں جا کر رپورٹنگ کروں۔

انھوں نے جب اس فیصلے کا اعلان ہمارے دفتر میں روزانہ صبح 11 بجے ہونے والی رپورٹروں کی میٹنگ میں کیا تو میرے سارے سینئرز نے متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ ہمارے اخبار کو ان انتخابات کی اس انداز میں رپورٹنگ نہیں کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر پھیلے کے عوام ان میں جوش و خروش سے حصہ لیں گے۔ ان سب کا یہ اصرار بھی تھا کہ انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر ویسے ہی ویرانی نظر آئے گی جو جنرل ضیاء کے ریفرنڈم کے دوران دیکھی گئی تھی۔ میرے ایڈیٹر کا مگر یہ خیال تھا کہ ہمیں دفتر میں بیٹھ کر معروضی حالات پر فیصلہ کن رائے نہیں دینا چاہیے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ رپورٹر فیلڈ میں جا کر وہاں کا ماحول بتائے اور یہ کام میرے سپرد ہو گیا۔

اس وقت کے الیکشن کمیشن نے 1985 کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر کڑی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں۔ وہ جلسے جلوس نہیں کر سکتے تھے اور کا رنر میٹنگوں میں بھی لائوڈ اسپیکر کے ذریعے خطاب کرنے پر پابندی تھی۔ اسلام آباد سے میں سب سے پہلے کوہاٹ پہنچا اور وہاں سے میانوالی اور پھر بھکر اور لیہ سے ہوتا ہوا ملتان تک گیا۔ ملتان سے واپسی پر میں نے جھنگ، سرگودھا اور فیصل آباد کے حلقوں کا جائزہ لیا۔

ان تمام حلقوں کا دورہ کرتے ہوئے میں نے دریافت کیا کہ عوام کی بے پناہ اکثریت 85 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنا چاہتی تھی۔ سیاسی جماعتیں متحرک نہ تھیں مگر امیدواروں کی برادری اور دھڑے کے سرکردہ لوگوں میں بڑا جوش پایا جا رہا تھا۔ میں نے یہ سب لکھ ڈالا تو میرے سینئرز بہت ناراض ہوئے۔ ان سب کو یقین تھا کہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے میں بہک گیا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ پولنگ کے روز چند بڑے شہروں کے سوا ان تمام حلقوں میں جہاں میں گیا تھا ٹرن آئوٹ اوسطاََ 50 فیصد سے بھی زیادہ رہا۔

گزشتہ جمعے میں اسلام آباد سے موٹروے کے ذریعے پنڈی بھٹیاں اور پھر وہاں سے چنیوٹ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ اور چیچہ وطنی سے گزرتا ہوا ساہیوال پہنچا۔ مجھے اس پورے سفر میں کوئی انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آئی۔ عام انسانوں کی اکثریت نے مجھے بڑے غصے سے زیادہ تر یہی کہا کہ وہ ان انتخابات میں کسی بھی جماعت یا امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ دوسرے نمبر پر تعداد ان لوگوں کی تھی جو بجائے مجھے یہ بتاتے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے بڑی پریشانی سے کرید کرید کر یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ انتخابات ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔ میں بڑے اعتماد سے ہاں میں جواب دیتا تو لوگ اعتبار نہ کرتے۔

مزید سوال کرنا شروع ہو جاتے۔ وہ لوگ جنہوں نے کسی نہ کسی جماعت کے متحرک کارکن ہونے کا دعویٰ کیا وہ بھی مجھے بار بار یہ بتاتے رہے کہ انھیں لوگ ان انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ ان کی باتیں سن کر میں کافی پریشان ہو گیا ہوں۔ سیاست اور جمہوریت کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر 11 مئی کے روز لوگوں کی کم از کم اتنی تعداد پولنگ اسٹیشنوں تک نہ آئی جو 2008 میں نظر آئی تھی تو غیر جمہوری قوتیں اس سے بہت فائدہ اُٹھائیں گی۔ اخبارات میں لکھنے اور ٹیلی وژن پر پارسائی کے بھاشن دینے والے آج کل جنرل مشرف کے ساتھ ہونے والے ’’مکافاتِ عمل‘‘ پر بڑے شادماں دِکھ رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ جنرل مشرف کی ان دنوں ہونے والی تذلیل کے بعد آیندہ کوئی طالع آزما جمہوری نظام سے پنگا لینے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ میرا قنوطی ذہن مگر ایسے خیالات کو وقتی اُبال سمجھ رہا ہے۔ مصر میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ نام نہاد عرب بہار کے بعد انتخابات ہوئے اور اخوان المسلمین کے مُرسی اس ملک کے صدر بن گئے۔ وہاں کے سابقہ صدر حسنی مبارک بھی ان دنوں کٹہرے میں بلائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشی طور پر مصر ان دنوں بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ وہاں امنِ عامہ کی صورت حال بھی بد سے بدتر ہو رہی ہے اور عرب دُنیا پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کار بڑی سنجیدگی سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید اس ملک میں فوج کو ایک بار پھر کسی نہ کسی صورت کوئی سیاسی کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔

مجھے یہ خوف محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ 11 مئی کے انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہ حاصل کر پائے گی اور مخلوط حکومت بنانا مجبوری بن جائے گی۔ بھان متی کا کنبہ جوڑ کر بنائی جانے والی مخلوط حکومتیں ضروری مگر غیر مقبول فیصلے نہیں کر پاتیں۔ میں نے پنجاب کے ان شہروں اور قصبوں میں تین دن گزارنے کے بعد بجلی کے بحران کی شدت کو پہلی بار پوری طرح محسوس کیا ہے۔ اس بحران کا حل سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور یہ صرف ایک شعبہ ہے۔ ایک کمزور مخلوط حکومت کے ڈنگ ٹپائو فیصلے لوگوں کو انتخابات کے بعد اور زیادہ مایوس کر دیں گے جس کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں ضرور اُٹھانا چاہیں گی۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہ نمائوں کو اس امکان کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ لوگوں سے اپنے لیے ووٹ ضرور مانگیں لیکن اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک بہتر ٹرن آئوٹ کی التجائیں بھی کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔