بجلی کے بدترین بحران کا خدشہ؛ گیس کمپنی اور کے الیکٹرک میں واجبات کا تنازع بڑھ گیا

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 26 مئ 2018
تنازع کا اہم فریق واٹر بورڈ ہے، 32 ارب سے زائد کے واجبات ہیں، ذرائع کے الیکٹرک، ٹرم آف ریفرنس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ فوٹو: فائل

تنازع کا اہم فریق واٹر بورڈ ہے، 32 ارب سے زائد کے واجبات ہیں، ذرائع کے الیکٹرک، ٹرم آف ریفرنس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ فوٹو: فائل

 کراچی: سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات کا تنازع ایک بار پھر شدت اختیارکرگیا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے کے الیکٹرک کی جانب سے وزیر اعظم کے زیر صدارت اجلاس میں گیس سپلائی معاہدہ طے کرنے اور واجبات کے تخمینہ کے لیے آڈٹ فرم کی تقرری کی یقین دہانی پوری نہ ہونے پرکے الیکٹرک کو گیس کی سپلائی کم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی نے کے الیکٹرک سے اپنے واجبات کی وصولی کے لیے ٹرم آف ریفرنس پر عمل درآمد نہ ہونے پر گیس سپلائی کم کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک ہفتہ کے اندر گیس سپلائی معاہدہ طے نہ کیے جانے کی صورت میں کے الیکٹرک کو گیس کی سپلائی میں ایم ایم سی ایف ڈی کمی کر دی جائے گی جس سے شہر میں بجلی کا بدترین بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، شہر میں گرمی کی موجودہ صورتحال اور رمضان کی وجہ سے شہریوں کو ہولناک صورتحال کا سامنا ہوگا۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 23 اپریل کو گورنر ہاؤس کراچی میں کابینہ کی کمیٹٰی برائے توانائی کے اجلاس میں کے الیکٹرک نے وزیر اعظم کی موجودگی میں 15 روز میں گیس کی خریداری کا معاہدہ طے کرنے اور 21 روز میں واجبات کا تخمینہ مرتب کرنے کے لیے آڈٹ فرم کی تقرری پر آمادگی ظاہر کی تھی تاہم ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجودکے الیکٹرک کی کوئی یقین دہانی پوری نہ ہو سکی۔

کے الیکٹرک نے حسب روایت اپنی جان چھڑانے کے لیے تمام ملبہ کراچی واٹر بورڈ پر ڈال دیا ہے کے الیکٹرک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اورکے الیکٹرک کے واجبات کے تنازع کا ایک اہم فریق کراچی واٹر بورڈ ہے جس پر کے الیکٹرک کے 32 ارب روپے سے زائد کے واجبات ہیں کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں ٹرم آف ریفرنس تینوں فریقین کے مابین طے کرنے پر اتفاق کیا گیا تاہم اجلاس کے بعد سے اب تک واٹر بورڈ نے ٹرم آف ریفرنس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔