اسکولوں پر حملے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 26 مئ 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم پر حملے شروع ہوگئے۔ طالبان نے والدین کو دھمکی دی ہے کہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے خاندانوںکے ساتھ بدترین سلوک ہوگا۔ طالبان نے پھر مساجد کے دروازوں پر پمفلیٹ تقسیم کیے ہیں جس میں جدید تعلیم کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے والدین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنی بیٹیوں کو اسکول نہ بھیجیں۔ اس علاقے میں طالبات کے بعض اسکولوں پر بم سے حملے کیے گئے ہیں۔

تعلیم حاصل کرنے والی طالبات اور والدین سخت خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیم دشمن طالبان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ قبائلی علاقے میں طالبان دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں اور وہ اپنی روایت کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔

انڈونیشیا کے علمائے کرام کی کانفرنس میں پاکستانی علماء نے طالبان کے خلاف فتویٰ جاری کرنے سے انکار کیا۔ انڈونیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کے 15 رکنی علماء کے وفد نے شرکت کی تھی۔ علماء کے وفد کے ترجمان نے اس کانفرنس کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی علماء نے طالبان کی مذمت کی قرارداد کی حمایت سے انکارکیا ۔

مدرسہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا انور نے کانفرنس سے واپسی پر کہا کہ کسی بھی پاکستانی عالم نے طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا۔ قبائلی علاقے، بلوچستان اور افغانستان سے ملنے والی اخباری اطلاعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ طالبان پھر منظم ہو رہے ہیں ۔

جیسے جیسے ڈیورینڈ لائن کے دوسری طرف طالبان کی سرگرمیاں بگڑتی ہیں اس کے اثرات قبائلی علاقے پختون خواہ اور بلوچستان میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ قبائلی علاقے کی صورتحال پر کڑی نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مقتدرہ نے قبائلی علاقے میں نوجوانوں کی تحریک کے زور کو روکنے کے لیے مذہبی انتہاپسند گروہوں کی سرپرستی شروع کردی ہے۔

نوجوانوں کی تحریک کراچی میں محسود قبیلے کے ایک نوجوان نقیب محسود کی پولیس کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے بعد شروع ہوئی تھی اور اب لاپتہ افراد کی بازیابی اور قبائلی علاقوں سے چیک پوسٹ ختم کرنے کے مطالبات کررہی ہے۔ طالبان کی قیادت میں چلنے والی تحریک دنیا کی عجیب وغریب تحریک ہے۔ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ پر مشتمل فوج کو پشتو زبان میں ’’ طالبان ‘‘ کہا جاتا ہے۔

طالبان نے جب کابل پر قبضہ کیا تو ملا عمر خلیفتہ المسلمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملا عمر نے دیگر اصلاحات کے علاوہ خواتین سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھیننے کا حکم جاری کیا۔ یہی وجہ تھی کہ افغانستان میں طالبان کے دور اقتدار میں خواتین کے اسکول کالج بند ہوگئے ۔ خواتین کی ملازمت کرنے کے حق کو چھین لیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے پورے دور میں خواتین گھروں میں مقید  رہیں۔ کچھ حوصلہ مند خواتین نے گھروں میں خفیہ اسکول قائم کیے۔

امریکا اور اتحادی افواج نے نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد افغانستان پر حملہ کیا۔ طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور ہزاروں طالبان ڈیورنڈ لائن عبور کر کے قبائلی علاقے میں داخل ہوئے اور اپنے مذہبی انتہاپسندی کے بیانیے کے ذریعے قبائلی علاقے میں جگہ بنائی اور پورے قبائلی علاقے میں خواتین کے اسکولوں پر حملے ہوئے۔ ان حملوں میں سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ جب ملا فضل اﷲ نے سوات پر قبضہ کیا تو کابل جیسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔

خواتین سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا، خواتین کے اسکول بند ہوگئے، خواتین پر خریداری، کاروبار ارو دیگر سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی۔ ملالہ سوات کے غیر سرکاری اسکول کی طالبہ تھی ۔ ملالہ نے سوات کی صورتحال بی بی سی اردو سروس میں بیان کی، یوں ملالہ کو عالمی شہرت ملی۔

پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد سوات کی صورتحال بہتر ہوئی۔ ملالہ دوبارہ اپنے اسکول جانے لگی اور اس صورتحال پر دوبارہ بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر لکھنا شروع کیا تو طالبان ملالہ کی جان کی دشمن ہوگئے۔ نامعلوم افراد نے اچانک ملالہ پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ واپس اسکول سے گھر جا رہی تھی۔ ملالہ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئی۔

پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں نے ملالہ کی جان بچائی، پھر پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے منظم فورس بنائی گئی، پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا۔ سوات پر یہ آپریشن انتہائی کامیاب رہا۔ اگرچہ سوات قبائلی علاقوں سمیت دیگر علاقوں میں یہی سلوک ہوا مگر اب قبائلی علاقے میں طالبان کی سرگرمیوں کے دوبارہ بڑھنے سے اندازہ ہورہا ہے کہ حالات کو ایک منظم سازش کے تحت خراب کیا جارہا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور میں فوجی اور سول تنصیبات پر خودکش حملے پھر شروع ہوگئے ہیں۔ اب طالبان نے اسکولوں پر حملے شروع کردیے ہیں ، پوری دنیا میں ان حملوں کی مذمت ہونے لگی ، طالبان کا عروج پاکستانی ریاست کے لیے خطرناک ہے ۔

چند پاکستانی علماء کا طالبان کی حمایت میں بیان ان قوتوں کے گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عناصر پھر طالبان کو ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد مذہبی دہشت گردی کے خلاف جو بیانیہ تیار کیا تھا ایک منظم طریقے سے اس بیانیے کے منفی بیانیے کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ تو ملک کے لیے فائدہ مند ہے نہ ہی پڑوسیوں کے لیے کسی صورت قابل قبول ہے۔

پیرس میں قائم مالیاتی دہشتگردی پر نظر رکھنے والا ادارہ پاکستان کے خلاف اقدامات کے لیے پرتو ل رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی سفارتکاروں کی سرگرمیوں کو محدود کردیا ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ امریکا کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔ ایک طرف عالمی سطح پر یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ملک میں امن و امان کی صورتحال کے لیے سنگین خطرات ہیں۔ حکومت کو اس صورتحال پر فوری توجہ دینی چاہیے، اس سے قبل کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔