ہائے گُل اور

عبدالقادر حسن  ہفتہ 26 مئ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اس سے پہلے کہ میں حکومت کو خدا حافظ کہوں یا رخصتی کے روائتی کلمات ادا کروں ایک ہوشربا خبر آپ بھی پڑھ لیں اور سر دھنیں اس پر تبصرہ کی گنجائش کہاں کہ حکومت نے جاتے جاتے بہت سارے دیگر کارناموں کی طرح ایک اور کارنامہ سر انجام دیا۔ میں نے خبر کی اشاعت کے بعد ایک دن اس امید پر انتظار میں گزار دیا کہ شائد حکومت اس خبر کی تردید کر دے لیکن حکومت کی جانب سے خاموشی رہی تو سوچا کہ قارئین کو بھی اس دلچسپ خبر میں شریک کروں ۔

صدر مملکت کی تنخواہ میں سیکڑوں فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد ان کی ماہانہ تنخواہ تقریباً آٹھ لاکھ ہو گئی ہے۔ اس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی۔ اس سے قبل صدر مملکت کی تنخواہ ایک لاکھ سے بھی کم تھی اور تجویز یہ دی گئی تھی کہ چونکہ صدر صاحب کا عہدہ ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے اس لیے ان کی تنخواہ سب سے زیادہ ہونی چاہیے لہذا چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ کو بنیاد بناتے ہوئے صدر مملکت کی تنخواہ چیف جسٹس کی تنخواہ سے ایک روپیہ زیادہ رکھ کر مقرر کر دی گئی ہے جب کہ ان کے دیگر الائونس اور مراعات اس کے علاوہ ہوں گی اور مہنگائی کے تناسب سے ہر سال اس میں دس فیصد کا اضافہ بھی کیاجائے گا۔

اس نئی تنخواہ کے بعد صدر مملکت کی تنخواہ کسی بھی سرکاری عہدیدار سے زیادہ ہوجائے گی۔ جمہوری طرز حکومت میں صدر مملکت کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہے جس کا کام حکومت کی جانب سے بجھوائے جانے والے آئینی بلوں پر دستخط کر کے ان کی منظوری دینا ہے اس کے علاوہ وہ کبھی کبھار کسی تقریب کی صدارت کر لیتے ہیں یا کسی سلامی کے چبوترے پر بلحاظ عہدہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ جس بھی نام نہاد جمہوری پارٹی نے ہم پر حکومت کی اس نے اپنی مرضی سے صدر کا انتخاب بھی کیا۔ گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جناب آصف علی زرداری نے بطور صدر مملکت حکومت کو ایوان صدر میں بیٹھ کر چلایا اور ان کے وزیر اعظم کٹھ پتلی کہلائے۔

انھوں نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ صدر مملکت کے پاس آئینی طور پر کسی بھی حکومت کو برخاست کرنے کی جو تلوار 58 ٹو بی کی صورت میں ان کے ہاتھ میں ہر وقت تیار رہتی تھی اور وزیر اعظم اس کے ڈر سے سہمے رہتے تھے انھوں نے آئین میں ترمیم کر کے ان کا یہ ڈنگ نکال دیا اور اب وزیر اعظم کم از کم ایوان صدر کی طرف سے مطمئن ہیں کیونکہ اس سے پہلے ان کے اپنے بنائے ہوئے صدر ہی ان کو ڈس چکے تھے اور اپنی ہی حکومتوں کو برخاست کر چکے تھے۔ صدر کے اختیارات کی جانب بات نکل گئی۔

دراصل میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کی تنخواہ سب سے زیادہ مقرر کر دی گئی لیکن خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کی درخواست کیا صدر مملکت نے خود ہی کی تھی یا حکومت نے خود ہی بڑھا دی کیونکہ حکومت کے کئی عہدیداروں کی تنخواہیں صدر مملکت کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق خاص طور پر پنجاب میں بنائی گئی پچاس سے زائد کمپنیوں کے سربراہ اور دیگر ملازمین ہوشربا تنخواہیں وصول کر رہے ہیں لیکن ہر ایک کو اپنے عہدے کاحساب خود دینا ہے اور ہم جن کے پیرو کار ہیں ان سے تو سر بازار ہی یہ بھی پوچھ لیا گیا تھا کہ آپ کے کرتے کی لمبائی زیادہ ہے اور جو کپڑا بیت المال سے ملا ہے اس سے اتنا بڑا کرتہ نہیں سل سکتا تو اس عظیم مسلمان حکمران نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا ہے کیونکہ میں طویل قامت ہوں اور صرف میرے حصے کے کپڑے سے میرا کرتہ نہیں بن سکتا تھا ۔ ہر ایک کو اپنے اپنے لمبے کرتے کا حساب دینا ہے ۔

ہمارے موجودہ صدرتو پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کرنے جارہے ہیں جاتے جاتے وہ بھی اس نئے اضافے سے مستفید ہوں گے لیکن وہ درویش شخصیت کے مالک ہیں انھوں نے اپنی درویشی میں ایک پیش گوئی کی تھی کہ دنیا دیکھے گی کہ پاناما کیس میں بڑے بڑے لوگ بے نقاب ہوں گے اور یہی ہوا۔ میری ان سے کوئی ملاقات نہیں لیکن میں ان کی درویشی کا قائل ہوں ۔ وہ جس طرح کی مرنج مرنجان شخصیت کے مالک ہیں ان کو زیادہ تنخواہ یا مراعات کی ضرورت بھی نہیں وہ تو پرانی تنخواہ میں گزارا کر رہے تھے لیکن حکومت نے اچانک ان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا اس کے در پردہ کیا راز پوشیدہ تھا وہ بھی اگلے ہی دن کھل گیا، ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاموشی سے اضافہ کر دیا گیا ہے۔

جس سے پارلیمنٹیرین کے علاوہ ان کے جیون ساتھی بھی مستفید ہوں گے ان کو لاکھوں روپے سفری اخراجات کی مد میں ملیں گے اور میڈیکل کی سہولیات گریڈ بائیس کے افسر کے برابر ہوں گی، یہ تنخواہیں اور مراعات موجودہ اور سابقہ ارکان دونوں کو یکساں حاصل ہوں گی ۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو مزید مراعات جن میں گاڑیاں پٹرول، ڈرائیور، پرائیویٹ سیکریٹری، سٹینو اور نائب قاصد کے علاوہ اعزازیہ دگنا کر دیا گیا ہے جب کہ تنخواہ اس کے علاوہ ہو گی۔

یہ سب ہم عوام کی جیب سے جارہا ہے اور مزید اضافہ بھی ہماری جیب سے ہی جائے گا جب کہ عوام جس بدحالی کا شکار ہیں اس کا گزر بھی اس اشرافیہ کے آس پاس سے نہیں ہوتا، عوام کو تو ایک کرتہ بھی نصیب نہیں اور یہ بدماشیہ ہمارے وسائل پر ڈاکہ مار کر اپنے لیے کئی کرتوں کا بند وبست کر چکی ہے ۔ ان کے دلوں سے خوف خدا ختم ہو چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ بل اسمبلی میں پاس ہو رہا ہوگا تو کسی ایک ممبر نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ہو گی کیونکہ یہ اس بدماشیہ کا مشترکہ مفاد تھا اور جہاں ان کا مفاد ایک ہو وہاں یہ فوراً متحد ہو جاتے ہیں، بس عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ان کے پاس کئی ہتھیار ہیں جن کا وہ بوقت ضرورت بے دریغ استعمال کرتے ہیں، ہم تو بقول شاعرمختصراً صرف یہی کہہ سکتے ہیں۔

آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔