شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار

جاوید قاضی  ہفتہ 26 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

موسم گل کی طرح ، الیکشن کا موسم بھی آچکا۔ حلقہ بام پر خود عالی جناب آتے ہیں ہاتھ میں کشکول لیے کسی روپیہ یا چونی کے لیے نہیں بلکہ ووٹ کے لیے۔ اس موسم میں طرح طرح کی بیان بازیاں سننے کو ملتی ہیں۔ قول واقرار، وعدے غرض یہ کہ کوئی کسر باقی نہ رہے کہ ووٹرکو مائل بہ کرم کیا جائے۔

کہتے ہیں ”Patriotism is the last refuge of a scoundrel” یعنی سماج دشمن کیلیے حب الوطنی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔یہ بات مجھے اس طرح سمجھ آئی جب سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ صاحب سندھ کے دو ٹکڑے کرنے والوں کو لعنت ملامت کر رہے تھے ۔

یہ بات آخر وزیر اعلیٰ کو الیکشن کے زمانے میںہی کیوں یاد آئی۔ اس سے پہلے چکدرہ کے پی کے میں خورشید شاہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کسی کو اگر دیکھنا ہوکہ ترقی کیا ہوتی ہے تو وہ میرے ساتھ سندھ چلے تو میں ان کو باور کروائوں کہ اسکول و اسپتال کس طرح چلائے جاتے ہیں۔ آپ کے اس بیان سے لوگوں نے آپ کا خوب تسمسخرہ اڑایا ۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے مذاق بنائے گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی اور یہ بیان ہضم نہ ہوسکا۔

عجیب ہے سندھ ، ہمیشہ وڈیروں کو ہی جتواتا ہے چاہے وہ کچھ دیں یا نہ دیں۔ سندھ کے اندر ان وڈیروں میں جو بڑی مافیا کہی جاسکتی ہے وہ ’’سید‘‘ مافیا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سندھ میں اس عوامی پارٹی(پیپلز پارٹی) میں وزارت اعلیٰ بھی شاہ کے پاس ہے تو وفاق کی سربراہی بھی شاہ کے پاس ہے اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ جب عوامی پارٹیوں کا راج نہیں ہوتا آمریتوں کا دورہوتا ہے تب بھی صف اول میں شاہ ہوتے ہیں ۔ ان شاہوں کے راج سرحدوں کے قید سے آزاد ہیں اور ان کا نظریہ بھی سید پرستی کا ہوتا ہے چاہے وہ پچاس پارٹیوں میں کیوں نہ تقسیم ہوں۔

خورشید شاہ کے بیان کی لوگوں نے ہنسی اڑائی لیکن مراد علی شاہ کے بیان کو لوگوں نے ہنسی میں نہیں اڑایا بلکہ سنجیدہ لیا ہے، اس لیے کہ انھوں نے گیم بہت سوچ و سمجھ کر کھیلا ہے کیونکہ سندھ کے لوگ اپنے صوبے کے حوالے سے بڑے حساس جذبات رکھتے ہیں۔

سندھ دو ہیں ، ایک سندھ وڈیروں کا سندھ ہے اور دوسرا بیانیے کا۔

سندھ میں پہلے طاقتور وڈیرے پیر صاحب پگارا کے ساتھ ہوتے تھے لیکن آج کے طاقتور وڈیرے کی طاقت کا سرچشمہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ قائم علی شاہ ہوں، خورشید شاہ ہوں یا مراد علی شاہ کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سید اور شاہوں کے ہاتھوں میں رہی۔ پیپلز پارٹی میں یا تو بھٹو ہیں یا زرداری یا پھر شاہ ۔ شاہوں کو پیپلز پارٹی کی باگ ڈور اس لیے دی گئی تاکہ سندھ کے سب سے بڑی اور طاقتور وڈیرہ شاہی کو اپنے گرفت میں کیا جاسکے۔

سندھ کے اندر درگاہیں ہی درگاہیں ہیں اور ان کے سجادہ نشین خود ایک بہت مہیب طاقت ہیں، اقتدارکی مافیا ۔سندھ میں صرف ایک ہی کاروبار ہے اقتدارکا کاروبار اور بھٹو صاحب کے بعد یہ کاروبار اور وسیع ہوکر زرداری صاحب کو منتقل ہوا ۔ اور دوسرا سندھ جو بیانیے کا سندھ ہے کچھ مکس بیانیہ کا حامی ہے صوفی، سیکولر اور قوم پرستی کا۔ کل تک اس سندھ میں جمہوریت اور بھٹو پرستی بھی موجود تھی لیکن اب اس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

اس بیانیہ میں اور بھی حساسیت آجاتی ہے جب کراچی سے سندھ کو تقسیم کرنے کی باز گشت ہوتی ہے۔ اس باز گشت کے رد عمل میں سندھ اس طرح طیش میں آتا ہے جیسے ہندوستان کی گلی میں کسی مسلمان نے گئوں ماتا کی توہین کی ہو۔ بادی النظر میں متحدہ پاکستان بھی طیش میں ہے، مراد علی شاہ سے پہلے کسی بھی وزیر اعلیٰ نے اس طرح کسی بیانیہ پر لعنت نہیں بھیجی۔

پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹرز (followers) کا معیار زندگی جس طرح تباہ کیا ہے، اب ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ وڈیروں کے علاوہ بیانیہ کا ووٹ حاصل کرسکیں ماسوائے سندھ صوبے کی تقسیم کی بات پر لعنتیں بھیجی جائیں ۔ اس نظریے کے اتنے وفادار تو شاید خود جی ایم سید بھی نہ تھے جتنے کے مراد علی شاہ صاحب نظر آرہے ہیں۔

جی ایم سید کہتے تھے کہ جو لوگ سندھ کی تقسیم کی بات کرتے ہیں ان کو برا مت کہو کیونکہ انھوں نے واپس یہیں آنا ہے ان لوگوں کو سندھ کی تاریخ و تمدن کو اپنانا پڑے گا ورنہ یہ لوگ خود اپنے لوگوں کے ساتھ دھوکا کریں گے۔مراد علی شاہ اس وقت کہاں تھے جب زرداری صاحب نے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ٹھان لی تھی ، بلدیاتی نظام کے ذریعے ! کیا وہ سندھ کی تقسیم نہ تھی۔

میں نہیں مانتا پیروں اور سیدوں کی اجارہ داری کو کہ یہ میری تعلیم اور ٹریننگ کا حصہ ہے اور یہ میرے والد کا یقین تھا کہ سندھ کی آزادی بنیادی طور پر سندھ کی طبقاتی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے اور یہ طبقاتی جدوجہد ہے ، سندھ کے سیدوںاور پیروں سے پیروکاروں کی آزادی اور وڈیروں سے دہقانوں کی آزادی۔

ہمارے سندھ کے کچھ دانشور اس وقت جاگے جب کراچی سے انور مقصود نے وڈیرے کو نشانہ بنا کر تمام سندھیوں کو برا کہہ دیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر اس قدر وائرل ہوئی کہ انور مقصود کو معافی مانگنی پڑی۔ اس سے پہلے ڈائو میڈیکل کالج میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا کہ ایک پروفیسر نے سندھی میں بات کرنے پر نا دانستہ طور پر تنقید کی اس بات پر بھی ہمارے سندھی دانشوروںکی غیرت جاگ اٹھی۔

ڈاکٹر موصوف نے سندھ میں اس رد عمل پر نہ صرف معافی مانگی بلکہ اس بات کا بھی عہد کیا کہ وہ اس سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں، اس کا حصہ ہیں ۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے سندھی دانشور بھی وہ ہی کام کر رہے ہیں جو کہ آج کل پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم پر لعنت بھیج کر اپنا ووٹ بینک منظم کر رہی ہے اسی طرح ہمارے دانشور بھی اس بیانیہ کو برا بھلا کہہ کر سستی شہرت حاصل کرنیکی کوشش کررہے ہیں۔کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے۔

الیکشن کے اس دور میں ایم کیو ایم کی اسٹرٹیجی بھی یہی ہے ۔اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں اپنے ووٹرزکی بدحالی اور ابتری کے بعد اب ایم کیو ایم کے پاس بھی کوئی اور راستہ نہیں کہ مہاجر قوم کو وڈیروں کی اجارہ داری سے ڈرا کر اپنے ووٹ بینک کو محفوظ کیا جائے۔ ایم کیو ایم نے بھی اپنے ووٹرز کا وہ ہی حال کیا ہے جو وڈیروں نے سندھ میں اپنے اپنے حلقے کے لوگوں کے ساتھ کیا ۔ وہ سندھ کے شلوار قمیص پہننے والے وڈیرے ہیں اور یہ کراچی کے کرتا اور پاجامہ پہننے والے وڈیرے ہیں ۔ سندھ کے وڈیرے پولیس پٹواری اور کمدار کے زور پر سندھ کے عام لوگوں کو غلام بناتے ہیں اور یہ پرچی، بوری اور ہتھیار کے زور پر۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے اس بیان نے سندھ کی زمین میں مزید نفرت کے بیج بو دیے ہیں۔ اس بات کا اگر جائزہ اس طرح لیا جائے کہ بجائے سندھ کو بہ حیثیت وزیر اعلیٰ کچھ فائدہ پہنچایا جائے، آپ کے اس بیان نے سندھ کو اورگھاٹے میں ڈال دیا ہے۔

مراد علی شاہ کی اس سندھ دوستی پر مجھے غالبؔ کا یہ مصرعہ یاد آیا۔

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔