سنتا جا سر دھنتا جا

سردار قریشی  ہفتہ 26 مئ 2018

ٹیکسی ڈرائیور شاید مسلم لیگ (ن) کا کارکن تھا یا پرجوش حامی، گھر سے پریس کلب تک سارا راستہ میرا دماغ چاٹتا رہا، اللہ کا بندہ نان اسٹاپ بولے جاتا تھا، رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، جیسے اس کے بریک فیل ہو گئے ہوں، میرے بیٹھتے ہی شروع ہوگیا۔

’’عدلیہ ہو یا نیب، جسے دیکھو ہاتھ دھوکر شریف خاندان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ انھیں کرپشن ایک اسی خاندان میں نظر آتی ہے اور وہ بھی صرف میاں نواز شریف اور ان کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز میں، باقی ملک میں جیسے سب فرشتے رہتے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ کرپشن ہے کس بلا کا نام۔‘‘

میں نے غلطی سے پوچھ لیا اب کیا ہوا ہے، کیا میاں صاحب کے خلاف کرپشن کا کوئی نیا کیس بنایا گیا ہے، پہلے سے چلتے ہوئے کسی کیس میں کوئی پیشرفت ہوئی ہے یا کسی کیس میں ان کی پیشی کے وقت احتساب عدالت کے جج نے کوئی ایسے ریمارکس دیے ہیں جن سے اسے تکلیف پہنچی ہے۔

تو اس نے یوں تقریر کرنا شروع کر دی جیسے ٹیکسی نہ چلا رہا ہو کسی جلسہ عام سے خطاب کر رہا ہو۔ خدا خدا کر کے پریس کلب پہنچے تو اس کی تقریر سننے سے جان چھوٹی،کان پک گئے تھے، اترتے وقت میں نے اسے کہا کہ آئندہ اول تو میں کبھی اس کے ساتھ سفرکرنے کی غلطی کروں گا نہیں لیکن اگرکر بیٹھوں تو وہ بلانے پر بھی مجھے لینے نہ آئے۔

بھلا بتاؤ، ٹیکسی میں کیا اس لیے سفر کیا جاتا ہے کہ راستہ بھر ڈرائیورکا بھا شن سننا پڑے۔ اس سے اچھا تو بندہ بس میں لٹک کر چلا جائے، پیسوں کی بچت کے ساتھ تقریر بھی نہیں سننی پڑے گی، بس ذرا جھٹکے اور لوگوں کی کہنیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔

ویسے وہ کہتا سچ تھا، کسی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجانا بہت غلط بات ہے، جس کے پاس پہلے سے اتنا کچھ ہوکہ اسے مزید کسی چیزکی تمنا یا آرزو کرنے کا خیال تک نہ آئے وہ کرپشن کیوں کرے گا، پیٹ بھرا ہو تو کتنی ہی اچھی اچھی چیزیں کیوں نہ سامنے دھری ہوں کھانے کو دل ہی نہیں چاہے گا، کوئی پیٹ پھڑوا کر مرنا چاہے تو اس کی بات الگ ہے۔ سو میں ٹیکسی ڈرائیورکی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ انسان سے کرپشن اس کی محرومیاں کرواتی ہیں، جو چیز اس کے پاس نہیں ہے اس کے ہونے کی خواہش اسے چوری کرنے پر اکساتی ہے۔

محرومیوں کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے، آپ نے کھانا اس لیے نہیں کھایا کہ من بھاتا نہیں تھا یا آپ کے پاس کھانا کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، بھوک دونوں صورتوں میں لگے گی اور جب بھوک ستاتی ہے تو تگنی کا ناچ نچاتی ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے الفاظ میں بھوک وہ بری بلا ہے جو داناؤں کو دیوانا بنا دیتی ہے (بْکھ بچھڑو ٹول دانا دیوانا کرے) کرپشن اصل میں ہوتی ہی بے وسیلہ اور محروم طبقات میں ہے، نظر اس لیے نہیں آتی کہ اس طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا، عدلیہ اور نیب کو چھوڑیں ہماری اور آپ کی نچلی سطح پر بھی اس کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔

آیئے! آج میں آپ کو اس حوالے سے ایک سچی اور دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ اس کہانی کے سارے کردار اصلی اور زندہ سلامت ہیں،کوئی تحقیقات کرنا چاہے تو میں تعاون کرنے کو بھی تیار ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔ چیئرمین نیب، جسٹس جاوید اقبال شاید ہمارا اخبار بھی نہیں پڑھتے کہ اس کا نوٹس لیں، حالانکہ ہم ان کے ادارے کی کارگزاری رپورٹ موصوف کی تصویرکے ساتھ باقاعدگی سے شایع کیا کرتے ہیں۔

احفاظ بھائی نے اخباری کالموں پر مشتمل میری آنے والی کتاب کے لیے جو تعارفی کلمات تحریر فرمائے ہیں، ان میں ایک جگہ لکھا ہے کہ آج کل کے صحافیوں کی بے ایمانیاں دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اتفاق سے آج کی کہانی بھی اسی سے متعلق ہے۔ وہ ایک اخباری ادارے میں چپراسی تھا، دس بارہ جماعتیں پڑھا ہوا ضرور تھا لیکن آتا جاتا کچھ نہیں تھا، نہ ہی کچھ کرنے کی صلاحیت تھی ۔ ادارے میں کام کرنے والے اپنے گاؤں کے ایک صاحب سے سفارش کروا کر، جو چیف ایگزیکٹو افسرکے بہت قریب تھے، اس نے ٹیکنیکل شعبے میں چند ہفتوں کی ٹریننگ لی اور چپراسی کے حلقے سے نکل کر ہنرمند کارکنوں کی صف میں شامل ہو گیا۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن ملک کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے نتیجے میں ادارے کی انتظامیہ میں رد وبدل ہوا تو وہ نئے سی ای او کی کاسہ لیسی کر کے ان ہی صاحب کا ہم منصب بن گیا جن کی سفارش سے ہنر مند کارکن بنا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جہاں سے اس نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ پہلے اپنے ایک سرکاری ملازم رشتے دارکو جو گریڈ 6 میں پرائمری اسکول ٹیچر تھا، بلوا کر ادارے میں اپنا ہم منصب لگوایا اورکام کیے بنا سرکاری خزانے سے حرام تنخواہ بھی وصول کرتے رہنا سکھایا۔ سالہا سال یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر وزیر تعلیم کی ملی بھگت سے اسے گریڈ 6 سے براہ راست نہ صرف گریڈ 16 میں ترقی دلوائی بلکہ کئی سالوں کی تنخواہ کے فرق کی مد میں لاکھوں روپے کے بقایا جات بھی وصول کیے۔

حرام پیٹ میں گیا تو ذہن بھی تیزی سے کام کرنے لگا، ایک سیاسی شخصیت کے وزیر اعظم بننے پر اس نے ان پر پہلے سے قومی زبان میں چھپی ہوئی کتاب کا ایک علاقائی زبان میں ترجمہ کیا اور اپنے نام سے چھپوا کر ان ہی سے اس کی رونمائی کروا ڈالی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ صرف ایک صوبائی سرکاری محکمے نے اپنی لائبریریوں کے لیے پوری قیمت پر 7 لاکھ روپے مالیت کی کتابیں خریدیں۔ دوسرے سرکاری محکموں کے آرڈر پورے کرنے کے لیے اس کو اپنی چربہ کتاب کے زیادہ قیمت والے مزید کئی ایڈیشن شایع کرنے پڑے۔ اس نے اپنے رشتے داروں اورکئی دوسرے لوگوں کو بھاری رقوم کے عوض جو پرکشش نوکریاں دلوائیں وہ اس کے علاوہ تھیں۔

حرام کمائی کیسے عیش کراتی ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس کے بچے ملک کے ایسے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے تھے، جن میں اچھے بھلے کھاتے پیتے خوشحال اور با اثر لوگوں کو بھی اپنے بچوں کو داخلہ دلانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر شاید 440 وولٹ کی شدت کا جھٹکا لگے مگر یہ حقیقت ہے کہ آج وہ خود ایک ایسے اخباری ادارے کا مالک و سربراہ ہے جہاں اس سے کہیں زیادہ اہلیت و صلاحیت رکھنے والے اس کے ملازموں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

اس کا اخبار آپ کو کسی اسٹال پر یا ہاکر کے پاس نظر نہیں آئے گا لیکن وہ ہر ماہ لاکھوں روپے مالیت کے صرف سرکاری اشتہارات حاصل کرتا ہے جو ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے اصول پر ’’کھاؤ اور کھلاؤ‘‘ کے فارمولے کے تحت ملتے ہیں۔ دینے والے تو عیش کرتے ہی ہیں لینے والوں کی بھی پانچوں گھی میں کے مصداق چاندی ہوتی ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پہلی بار اشتہارات کی خرید وفروخت کا یہ کاروبار اسکینڈل کی صورت میں منظر عام پر آیا تھا، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ڈائریکٹر سطح کے کئی افسران اس کی لپیٹ میں آئے تھے، نوکریاں تو گئیں جیل جاکر چکی پیسنے کی نوبت آسکتی تھی۔ سب کہتے تھے اب یہ دھندہ ہمیشہ کے لیے ختم سمجھو، لیکن نہیں، اس کارروائی کا الٹا نتیجہ نکلا، کاروبار نے اور بھی وسعت اختیار کر لی۔

پہلے جن کو اشتہارات بالکل نہیں ملتے تھے اب ان کو بھی ملنے لگے، ڈر جو ختم ہو گیا۔ ان ہی دنوں میری ایک متاثرہ افسر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بجائے شرمندہ ہونے کے مزاحیہ انداز میں کہا نوکری کیا چیز ہے، اتنا کما لینے کے بعد اگر تین چار سال جیل بھی کاٹنی پڑے تو سودا مہنگا نہیں۔ آج کل پھر ویسی ہی ایک آڈٹ نما انکوائری کا ڈراما رچایا جا رہا ہے، ہوگا ووگا کچھ نہیں، کچھ عرصہ بعد بات پرانی ہو جائے گی، پرانی کیا ہو گی کسی کو یاد بھی نہیں رہے گی ۔ایسے نظام میں کرپشن کی نت نئی کہانیاں جنم نہیں لیں گی تو اورکیا ہوگا، سنتا جا سر دھنتا جا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔