ٹیکسٹائل گروپ کی عالمی تجارت اور پاکستان…

ایم آئی خلیل  بدھ 24 اپريل 2013

چین اور بھارت کی جانب سے ان کے کاٹن ریزروز سے روئی فروخت کرنے کی اطلاعات کے ساتھ ہی پاکستان سمیت دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں زبردست مندی کا رجحان پایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چین کے پاس اس وقت روئی کے 10 ملین ٹن اور بھارت کے پاس 25 لاکھ بیلز کاٹن ریزروز موجود ہیں جنھیں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔ انھی دنوں عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں بھی زبردست کمی واقع ہوئی اور عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ کچھ اس طرح جاری و ساری ہے کہ دو ماہ قبل خام تیل کی قیمت 112 ڈالر سے بھی بڑھ گئی تھی جو 16 اپریل تک 98 ڈالر فی بیرل تک آ گئی۔

ادھر عالمی بینک نے کہا ہے کہ چونکہ یورو زون کا مالیاتی بحران اور امریکی معیشت میں کساد بازاری سے جنم لینے والے خطرات اب ٹل چکے ہیں اس رجحان کے باعث ایشیائی برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بینک کے مطابق مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کی معیشتوں میں رواں سال شرح نمو 7.8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ لیکن مختلف عالمی جائزے اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان نے شرح نمو کا جو ہدف طے کر رکھا تھا یعنی 4.2 فیصد وہ حاصل نہ ہو پائے گا۔ البتہ شرح نمو کے 3.3 فیصد تک کے امکانات کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی شرح نمو کا انحصار ٹیکسٹائل سیکٹر پر بھی ہے۔ ٹیکسٹائل گروپ کی عالمی تجارت کے حوالے سے ہم اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے 2011 کے حتمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ٹیکسٹائل اور کلوتھنگ کی ورلڈ ٹریڈ کا حجم 725 ارب امریکی ڈالر رہا۔ جس میں سے ورلڈ ٹیکسٹائل کا حصہ 294 ارب ڈالر اور ورلڈ کلوتھنگ کا تجارتی حجم 431 ارب ڈالرز تھا۔ اسی سال پاکستانی ٹیکسٹائل کی بھارت 9.1 ارب ڈالر اور عالمی تجارت میں پاکستان کلوتھنگ کی ٹریڈ کا حجم 4.6 ارب ڈالرز کا تھا۔ اور یوں عالمی تجارت برائے ٹیکسٹائل اینڈ کلوتھنگ پاکستان کا حصہ 1.88 فیصد رہا۔ جب کہ 2005 میں یہ حصہ 2.23 فیصد تھا۔ پاکستان کی کل برآمدات میں ٹیکسٹائل گروپ کا حصہ 54 فیصد سے 60 فیصد تک رہا ہے۔

اس میں قدرے کمی بیشی ہونے کے باوجود پاکستانی برآمدات کا مکمل انحصار ٹیکسٹائل گروپ پر ہی ہے، اسی وجہ سے پاکستان کئی سال سے یورپ اور امریکا پر اس بات کا زور دے رہا ہے کہ اسے ’’ایڈ نہیں ٹریڈ‘‘ کی سہولیات مہیا کی جائیں۔ اس سلسلے میں امریکی اخبار نے بھی لکھا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ 60 فیصد مصنوعات اس پر مشتمل ہے، اسے چین، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ سے زبردست مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی امریکی منڈیوں میں فری رسائی کا مطالبہ سر فہرست رہا ہے۔

ایک دہائی گزرنے کے باوجود پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جا رہا۔پاکستان کو مراعات دینے کا عمل شروع کیا گیا ہے تو اس میں نان ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔ ادھر گزشتہ روز پاکستانی تاجروں کو بتایا گیا کہ وہ 3500 اشیا ڈیوٹی فری برآمد کر سکتے ہیں، اگرچہ اس GSP اسکیم کے تحت جیم اسٹون، میٹل اور جیولری کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستانی تاجروں کو آگاہ کیا گیا کہ وہ ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر اشیا کی برآمدات پر توجہ دیں۔ امریکا دنیا بھر سے 20 ارب ڈالر کی مصنوعات پر GSP ریلیف دیتا ہے۔ جس میں پاکستان کا حصہ 19 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہے۔

لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ٹیکسٹائل مصنوعات پر ریلیف دیا جائے جیسا کہ امریکا نے اسرائیل اور اردن کو دے رکھا ہے، جی ایس پی اسکیم یعنی Generalaized System Of Preference (GSP) Program سے مستفید ہونیوالے ملکوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت جن ملکوں نے امریکا سے تجارت بڑھائی ان میں بھارت 4.5 ارب ڈالر، تھائی لینڈ 3.7 ارب ڈالر، برازیل 2.3 ارب ڈالر، انڈونیشیا 2.2 ارب ڈالر، ساؤتھ افریقہ 1.3 ارب ڈالر اور فلپائن 1.2 ارب ڈالرز شامل ہیں، پاکستان چونکہ ٹیکسٹائل شعبے میں مہارت رکھتا ہے۔ اس لیے اس ساڑھے تین ہزار اشیا کی لسٹ میں سے پاکستان محض ساڑھے انیس کروڑ ڈالر کی تجارت کر سکا۔ لہٰذا پاکستان کا مطالبہ ہے کہ اس کی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے ڈیوٹی فری رسائی دی جائے۔

پاکستان جو کہ دہشت گردی کی جنگ میں بے پناہ قربانی دینے والا ملک ہے، وہ ایڈ نہیں ٹریڈ کا خواہاں ہے، لیکن ابھی تک اس کے مطالبے پر کان نہیں دھرا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کو یورپ اور امریکا میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کے سلسلے میں رعایتیں فراہم کر دی جائیں تو ٹیکسٹائل گروپ کے عالمی ٹریڈ میں پاکستان کا حصہ 1.88 فیصد سے بڑھ کر کئی گنا آگے جا سکتا ہے۔ ادھر پاکستان میں توانائی کی قلت کے باعث دنیا بھر میں یہ تاثر عام پایا جا رہا ہے کہ پاکستان سے بر وقت ڈیلیوری نہیں ہو پاتی۔ لہٰذا دنیا کے درآمد کنندگان دیگر ملکوں کے علاوہ بھارت کا رخ کر رہے ہیں۔ 2009 میں ٹیکسٹائل پالیسی پیش کرتے وقت یہ یقین دلایا گیا تھا کہ بجلی گیس وغیرہ کے مسائل حل ہو جائیں گے اور پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات آیندہ 5 سال میں 25 ارب ڈالرز تک جا پہنچے گی۔

اگرچہ یہ ہدف ایک ایسے ملک کے لیے جو دنیا بھر میں کپاس کا چوتھا بڑا پیداواری ملک ہے مشکل نہیں تھا۔ لیکن پاکستان کی کل برآمدات 2008 میں 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر محض 23.5 ارب ڈالر تک آ سکی ہے جس میں سے نصف تک ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2012 سے مارچ 2013تک ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات صرف 9 ارب 63 کروڑ ڈالرز کی رہیں۔ جب کہ پاکستان نے خام کپاس کی ایک بڑی مقدار یعنی 76 ہزار میٹرک ٹن برآمد کر دی اور 5 لاکھ 48 ہزار میٹرک ٹن کاٹن یارن کی برآمد سے ایک ارب 65 کروڑ27 لاکھ ڈالرز کمائے اور ایک ارب 43 کروڑ مربع میٹر کاٹن کلاتھ برآمد کر کے ایک ارب 99 کروڑ ڈالر حاصل کیے گئے۔

7 کروڑ 34 لاکھ درجن فٹ ویئر کی برآمد سے ایک ارب 50 کروڑ 87 لاکھ ڈالرز وصول کیے گئے اور ایک لاکھ 95 ہزار میٹرک ٹن بیڈ ویئر کی برآمد سے ایک ارب 31 کروڑ ڈالرز کا زرمبادلہ کمایا گیا۔ ذرا تصور کیجیے اس وقت پاکستان کی کل ٹیکسٹائل برآمدات ایک سال میں اگر 25 ارب ڈالرز کی ہوتیں تو ظاہر ہے پاکستان کی کل برآمدات 45 ارب ڈالرز سے زائد ہوتیں تو آج پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کئی سال کے لیے کافی ہوتے، ملک کو آئی ایم ایف کی محتاجی سے نجات حاصل ہو چکی ہوتی۔ اس سے قبل کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والوں کو ملکی برآمدات میں کئی گنا اضافے کی راہ نہ سوجھی۔

ملک سے بجلی گیس کی قلت ختم کرنے کی تدابیر اختیار نہ کی گئیں، اگرچہ پاکستان کو دنیا بھر میں کپاس کی پیداوار میں برتری حاصل ہے اور پاکستان کو ٹیکسٹائل گروپ کی پیداوار میں تخصیص حاصل ہے۔ پاکستان کو ٹیکسٹائل گروپ کی عالمی تجارت میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ترجیحات مقرر کرنی ہوں گی۔ 2009 میں جس ٹیکسٹائل پالیسی کا اجرا کیا گیا تھا اس کے مطابق اہداف حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑے گی، پاکستان کے بہت سے معاشی مسائل کا حل اس بات میں مضمر ہے کہ ٹیکسٹائل گروپ کی عالمی تجارت میں پاکستان اپنا حصہ بڑھائے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔