ماہ مئی کے سانحات

نسیم انجم  اتوار 27 مئ 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

مئی کا مہینہ ہر سال کی طرح اس بار بھی آگ برساتا رہا۔ کئی سالوں میں اس کی شدت میں اضافہ بڑھتے بڑھتے ہیٹ اسٹروک کی شکل اختیار کرگیا ، غالباً تین سال ہی گزرے ہوں گے جب باد سموم نے بے شمار انسانی جانوں کو جھلسا دیا تھا لوگوں کی اموات اس قدر ہوئی تھیں کہ تدفین کے لیے جگہ کم ہوگئی تھی۔

اس سال بھی 64 راہ گیر موت کی وادی میں اتر گئے بے شمار گھرانوں میں نوحے بلند ہوئے، غم کی آندھی چلی اور بچے یتیم، خواتین بیوہ ہوگئیں والدین کے دل کی ٹھنڈک ان کے بڑھاپے کا سہارا آناً فاناً دہکتے سورج کی لپیٹ میں آگیا اور سب کو روتا چھوڑ کر سوئے عدم روانہ ہوا۔

گزشتہ سالوں کے ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے تجربات بڑے تلخ اور سبق آموز تھے۔ حکومت کو ذرہ برابر بھی کراچی والوں کا احساس ہوتا تو وہ کبھی بھی تناور درختوں کو ہرگز نہ کٹواتی اور نہ ہی کورنو کارپس نامی پودے لگائے جاتے،کورنو کارپس نامی پودے بنا تشخیص کے 8002 میں پہلی دفعہ بڑے پیمانہ پر پورے شہر میں لگائے گئے تھے، یہ پودا نارتھ امریکا سے منگوایا گیا جس کی قیمت صرف پندرہ روپے ہے،جب کہ دوسرے پودے دو سو پچاس روپے میں دستیاب ہوتے ہیں، حکومت کی طرف سے یہ کھلم کھلا کرپشن سامنے آئی ہے،جس کا نوٹس لینا ضروری ہے۔

ان درختوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آکسیجن اور زمین کا پانی کھینچ لیتے ہیں اس طرح زمین بنجر اور موسم خشک ترین ہوجاتا ہے کئی دفعہ اعتراض بھی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کیا گیا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں نہ رینگی یہ تو شہر کراچی کا حال ہے، اندرون سندھ اس سے بھی بدتر حالات ہیں، نہ پانی، نہ بجلی، صحرا کی گرم ہوائیں۔

بے چاری خواتین معصوم بچے، گھر کے مرد پانی کے گھڑے اٹھائے میلوں کا سفر طے کرکے پانی لانے پر مجبور کردیے گئے ہیں، آدمیوں کی ذمے داری حصول رزق اور اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہے لیکن یہ بے چارے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لیے سخت دھوپ میں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں، ان کے لیے کسی قسم کی سہولت میسر نہیں۔

حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگا کر لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے۔ وہ اس قدر کنگال ہوچکے ہیں کہ اب جینا، مرنا محال ہوچکا ہے، نہ زندگی کی رونقیں باقی رہیں اور نہ اچھا علاج اور تعلیم۔ ہیٹ اسٹروک عذاب الٰہی کی مانند ہے جب انسان کے گناہ اس قدر بڑھ جاتے ہیں، سرکشی اور احکام خداوندی کی نافرمانی عروج پر ہوتی ہے تو آسمانی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گھن کے ساتھ گیہوں بھی پستے ہیں ۔کرتا کون ہے اور بھگتے سب ہیں۔ جب کہ کراچی وہ شہر ہے جس نے طمع پرستوں کی تجوریاں سونے اور زروجواہر سے بھر دی ہیں لیکن ہوس ختم نہیں ہوتی۔ نیب کے چھاپوں کے دوران اربوں روپیہ، پیسہ، سونے کے مخفی انبار ظاہر ہوتے ہیں۔ دولت کے ذخائر جب سامنے آتے ہیں تو ایک عام شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر اتنی ڈھیر ساری دولت کا کریں گے کیا؟

انھیں فرعون اور قارون کی دولت اور پھر عذاب الٰہی کے ذریعے بربادی اور موت یاد نہیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ گئے، لے کر گئے تو جہنم کا عذاب۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اتفاق سے مئی کے مہینے میں مبارک ماہ کا نزول ہوا۔ ایک طرف رمضان کی رحمتیں اور برکتیں عروج پر ہوتی ہیں تو دوسری طرف کے الیکٹرک کا غیض و غضب شہر کے مکینوں پر نازل ہوتا ہے۔ جب سے کے الیکٹرک نے اپنی ذمے داریاں سنبھالی ہیں وہ ہر مقدس تہوار کے مواقعوں پر لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں خودکفیل ہونے کا مظاہرہ ببانگ دہل کرتی ہے۔

اتنے اندھیرے بڑھاتی ہے کہ گلی، کوچے تاریکی کی آماج گاہ بن جاتے ہیں اور خصوصاً گرم موسم میں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قیامت اتر آئی ہو ۔ سورج سوا نیزے پر اور نفسانفسی کا عالم ۔ ہر شخص گھروں سے باہر نکل آتا ہے، لیکن باہر بھی امان نہیں۔ در و دیوار سے اندرونی و بیرونی ماحول میں آگ اور آگ تن من کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

جوں جوں وقت گزر رہا ہے لوگوں کے دلوں سے خوف خدا کا احساس تیزی سے مٹتا جا رہا ہے اس رمضان میں قرآنی آیات کے ساتھ محض تفریحاً کچھ جملے سحر و افطار کے حوالے سے جوڑ دیتے ہیں۔ کئی سال قبل کے ای کی لوڈ شیڈنگ کو قبر کے اندھیروں اور عذاب قبر سے آگاہی دینے والی آیات کے ساتھ شامل کرلیا گیا تھا اور دھڑا دھڑ پیغامات بھیجے جا رہے تھے اور اندھیروں میں بھٹکنے والے لطف لے رہے تھے۔

ہمارے حکمران بھی جھوٹے حلف اٹھاتے ہیں، قرآن کے ساتھ گویا یہ مذاق کا طریقہ بنالیا ہے۔ اللہ نے قرآن پاک میں فرمادیا ہے کہ ’’بے شک وہ لوگ جو لیتے ہیں اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے قیمت تھوڑی سی ، یہی لوگ ہیں جن کا کوئی حصہ نہ ہوگا آخرت میں اور نہ ہی کلام کرے گا اللہ اور نہ دیکھے گا ان کی طرف قیامت کے روز اور نہ انھیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

’’ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اپنے بیان و زبان سے کتاب کو اس طرح الجھا دیتا ہے کہ تم سمجھو گے کہ یہ مضمون کتاب الٰہی میں ہے، حالانکہ وہ کتاب الٰہی میں نہیں ہوتا اور وہ کہتے ہیں یہ تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کسی انسان کے لیے یہ مناسب نہیں۔‘‘ (سورہ۔ آل عمران)

قرآن کی نفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے ہیں بلکہ گمراہی کے راستوں پر سفر کرتے ہوئے جہنم کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں اکثر اوقات تو دنیا میں ہی کیے کا بدلہ مل جاتا ہے کہ مکافات عمل ساتھ چلتا ہے۔

ماہ مئی میں ہی پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ امریکی ریاست ٹیکساس میں دوران تعلیم شہید ہوگئی اسی اسکول کے سترہ سالہ طالبعلم نے طالب علموں پر فائرنگ کی تھی 10 طلبا جاں بحق ہوئے انھی میں سبیکا شیخ بھی شامل تھی۔ وہ بے حد ذہین بچی تھی وہ 21 اگست 2017 کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت امریکا گئی تھی اور 9 جون 2018 کو اس کی واپسی تھی۔ لیکن کسی کو کیا پتا کامیابی کی منزل پر پہنچنے والی وہ ننھی پری اپنے پیروں پر نہ آسکے گی اللہ اس کی مغفرت فرمائے آمین۔

سبیکا کے غمزدہ والدین سے تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بنفس نفیس تشریف لائے انھوں نے کہا کہ نواز شریف نے خاص طور پر ہدایت کی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ زینب اور اس جیسی دوسری مظلوم بچیوں کے گھر بھی مقتدر حضرات جاتے اور ان کے سروں پر دست شفقت رکھتے اور انصاف دلاتے تو بچیاں تو واپس نہ آئیں لیکن تھوڑا اطمینان ضرور حاصل ہوجاتا، دوسرے قاتلوں کی طرح اس درندہ صفت قاتل کو بھی جمع کردیا گیا ہے لواحقین اس کی پھانسی کے منتظر ہیں لیکن کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

مخیر حضرات کی امداد سے بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں وہ ایک کام یہ بھی کریں کہ (تمام امور عوام کو ہی نمٹانے ہیں) اندرون سندھ میں کنوئیں کھدوادیں، 15-10 جگہوں پر بورنگ ہوجائے تو کم ازکم پانی کا مسئلہ تو حل ہوجائے گا۔ اپنی مدد آپ کے تحت کراچی والوں کو درخت اگانے کی مہم چلانی چاہیے، تاکہ آیندہ برس کوئی ذی نفس اپنی جان سے نہ جائے۔ نیم، پیپل، املتاس، گل مہر اور خوش رنگ پھولوں کے درخت سایہ بھی دیتے ہیں ، جلدی بیماریوں سے بچاتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بنانے کے ساتھ آکسیجن بھی مہیا کرتے ہیں۔ یہ صدقہ جاریہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔