دامن کو ذرا دیکھ

رئیس فاطمہ  اتوار 27 مئ 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

مسلسل بے وقوف بنانے والے سیاستدان ایک بار پھر عوام کو اپنے ’’خوش کن‘‘ بیانات سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ’’اگر ہمیں منتخب کیا گیا تو ہم سارے مسائل حل کردیں گے، کراچی کو لاہور بنادیں گے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسے احمقانہ بیانات مسلسل آرہے ہیں۔

کوئی ان سے پوچھے کہ خواہ پی پی ہو یا (ن) لیگ دونوں کو دو دفعہ اور تین دفعہ موقع ملا تو انھوں نے کیا کیا۔ (ن) لیگ کی تمام تر توجہ صرف لاہور پر ہے۔ سندھ میں زرداری نے لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا دعویٰ کیا تھا، مگر صرف لاہور کی طرح لاڑکانہ ہی کیوں؟ لاہور تو خیر سے بن گیا اورنج ٹرین بھی چل گئی، لیکن لاڑکانہ میں خاک اڑ رہی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے ملنے والے فنڈز کہاں گئے۔ رہا کراچی تو اس کا نوحہ لکھنے والے بھی دستیاب نہیں۔

کراچی شہر جو پورے ملک کو کما کر کھلاتا ہے کسی غلیظ قصبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں۔ سب جلسوں میں لگے ہوئے ہیں کوئی چوزہ خول سے نکلتے ہی اپنا ماتھا عوام کے آگے چومنے کو پیش کر دیتا ہے۔ جلسے عوامی ہو رہے ہیں، عوام کو آوازیں دی جا رہی ہیں۔ ’’آؤ اور ہمیں ووٹ دو۔‘‘ اب وہ ساری سیکیورٹی کہاں گئی جب کوئی بھی لیڈر جلوس کی شکل میں نکلتا تھا۔ ہٹو بچو کی آوازوں کے ساتھ سائرن بجاتی گاڑیاں دندناتی پھرتی تھیں۔

راستے بلاک کردیے جاتے تھے تاکہ پرندہ پر نہ مار سکے۔ عوام کی کسی وزیر تک رسائی ناممکن۔ اب کیا ہوا کہ عوام کے ہجوم میں کھڑے ہیں۔ نہ گولی کا ڈر نہ خودکش حملوں کا۔ اچانک اتنی بہادری کہاں سے آگئی؟ کہ گاؤں گوٹھوں سے بسیں بھر بھر کر جلسوں کی رونق بڑھائی جا رہی ہے کسی کو قیمے والے نان کھانے کا لالچ دیا جا رہا ہے، کسی کو بریانی کا۔ نقد رقم الگ کراچی کی سیر الگ۔ غریب آدمی کے لیے ہزار دو ہزار بھی بہت۔ کاش پی پی، (ن) لیگ اور ایم کیو ایم نے کچھ کام کیے ہوتے تو انھیں جلسے کرنے کی سندھ میں ضرورت نہ پڑتی، خصوصاً کراچی میں انھیں اپنی طاقت دکھانے کے لیے کرائے پر عوام نہ لانے پڑتے۔

آج کل نواز شریف کے اس بیان کی زبردست بازگشت سنائی دے رہی ہے جو انھوں نے ممبئی حملوں کے بارے میں دیا۔ ادھر بیان آیا ادھر تیر و تفنگ لے کر کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کے غول سامنے آگئے کالموں اور تجزیہ نگاروں کے تبصرے اور تجزیے بتاتے ہیں کہ:

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

قلم خود بول اٹھتے ہیں کہ کتنی قیمت میں بکا۔ تجزیہ کاروں کی اہمیت اور قیمت کا اندازہ بخوبی ہو رہا ہے، دو گروپ بن گئے ہیں۔ ایک نواز شریف کو غدار تک قرار دے رہا ہے اور دوسرا فوج کی تعریف و توصیف کر رہا ہے۔کوئی نواز شریف کو بے قصور ثابت کر رہا ہے۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ نواز شریف تو خود فوجی گملوں میں لگی پنیری کے تناور درخت ہیں وہ فوج مخالف بیانات کیوں دے رہے ہیں۔ ’’دُم پر پیر رکھنا‘‘ ایک محاورہ ہے وہی نواز شریف پر صادق آرہا ہے۔ خود کا اقتدار خطرے میں پڑا تو سب کچھ یاد آگیا۔ افواج پاکستان کا کام صرف قومی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت تک ہونا چاہیے۔ لیکن وہ کہاں جنھیں ہے:

’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ والا معاملہ ہے۔

پاکستان میں اول تو جمہوریت ہے ہی نہیں۔ پس پردہ بقول نواز شریف کے ’’خلائی مخلوق‘‘ الیکشن کروائے گی۔ تو میاں صاحب خلائی مخلوق کہاں نہیں ہے؟ آپ خود اس خلائی مخلوق کے لائے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اسی خلائی مخلوق نے بنوائی تھی۔ جتنا کام لینا تھا لے چکے اب وہ کسی کام کی نہیں رہی۔ انھیں اب الطاف حسین کی ضرورت نہیں تھی اس لیے اس کا تیا پائنچہ کر دیا ۔ مستحکم پارٹی خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھرگئی کہ خلائی مخلوق کو اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر یہ بھی دیکھیے کہ پاکستان کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہ کون ہیں اورکہاں سے آئے ہیں؟ سیکیورٹی ایجنسیاں کون چلا رہا ہے۔ ان سیکیورٹی ایجنسیوں کے گارڈ کروڑوں کی ڈکیتیاں کرکے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس گیس کٹر بھی ہیں اور تمام وہ جدید سامان جن سے گیٹ کاٹے جاتے ہیں۔ لاکرز توڑے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ کیوں ان سیکیورٹی گارڈ کے جعلی نکلتے ہیں۔ بچے کیوں جعلی نکلتے ہیں۔

آخر گارڈ کو ملازم رکھتے وقت نادرا آفس سے اس کے شناختی کارڈ کی تصدیق کیوں نہیں کروائی جاتی۔ یہ ڈکیت پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ بینک کس کی ملکیت ہیں ۔ سی این جی اسٹیشن کن کے ہیں، شوگر ملیں کن کی ہیں؟ یہ سب بتانے کی بھلا کیا ضرورت۔ عائشہ صدیقہ بھی اپنی کتاب میں سب کچھ لکھ چکی ہیں۔ لکھنے والوں کی تحریریں کون چیک کرتا ہے، کون دھمکیاں دیتا ہے، کس کے ہاتھ لمبے ہیں؟ یہ سب باتیں طشت از بام ہیں لیکن زبانوں پہ تالے لگے ہیں کہ اپنا اپنا مفاد سب کو عزیز ہے۔

اسی لیے زرداری بھی ’’بلے کو دودھ پلانے‘‘ کی بات اس وقت کرتے ہیں جب انھیں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار اس لیے نبھانا پڑتا ہے کہ وہ اگلی بار الیکشن جیت سکیں۔ یہ خلائی مخلوق نواز شریف کو 2013ء کے الیکشن میں بخوبی نظر آئی تھی اسی لیے بہت جلد اپنی جیت کا اعلان کردیا۔ اس وقت یہی خلائی مخلوق ان کی منظور نظر تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زرداری ہوں یا نواز شریف دونوں ’’خلائی مخلوق‘‘ تیر نظر کے مارے ہوئے ہیں۔

جب خلائی مخلوق بے وفائی پر اتر آئی تو آپ میدان میں آکر سچ بولنے لگے۔ جس وقت ممبئی دھماکے ہوئے تھے اس وقت آپ نے چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا تھا؟ اس موضوع پر دو ہفتوں سے اتنے کالم مختلف اخبارات میں شایع ہوچکے ہیں کہ اب کچھ اور لکھنے کی گنجائش نہیں اور نہ ہی ضرورت ہے۔ کالم نویسوں اور تجزیہ کاروں نے ہر ہر پہلو سے جائزہ لیا ہے۔ میں تو صرف اتنا کہوں گی کہ نواز شریف کا یہ بیان خلائی مخلوق کو ایک وارننگ ہے کہ ’’باز آجاؤ، ورنہ ابھی بہت سے راز سینے میں دفن ہیں۔‘‘

اب آپ راؤ انوار کا معاملہ لے لیجیے وہ اتنے دن کہاں چھپے رہے اور اچانک خلائی مخلوق کی طرح کہاں سے نازل ہوگئے؟ کیا لوگ نہیں جانتے کہ راؤ انوار کو ’’بہادربچہ‘‘ کہنے والے زرداری نے کیوں انھیں یہ خطاب دیا۔ صرف زرداری ہی نہیں دوسری بہت سی مخلوقات نے راؤ انوار سے حسب مرضی کام لیا جعلی پولیس مقابلے کروائے اور کس کی یقین دہانی سے وہ عدالت میں پیش ہوئے؟

پاکستان کے حالات سب جانتے ہیں کہ بے حد خراب ہیں کسی لیڈر کو عوام کی فکر نہیں ہے رمضان میں مہنگائی کا جن جس طرح بے قابو ہوکر بوتل سے باہر نکلا ہے اس نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ ہوش ربا گرانی نے روزہ داروں کو جیتے جی مار دیا ہے۔ پھل فروشوں نے خود ساختہ طور پر پھلوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بجٹ آنے کے بعد ہر شے کی قیمت یوں ہی بڑھ گئی تھی کہ جوتا گانٹھنے والا موچی بھی اس کی زد میں آگیا ۔

فقیر بھی بیس روپے سے کم پر راضی نہیں۔ اگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی صرف مہنگائی کو کنٹرول کرلیتی تو لوگ انھیں آنکھیں بندکرکے ووٹ دیتے۔ لیکن عوام کے ووٹوں سے کیا ہوتا ہے پانچ پانچ سال کی باریاں کون سی مخلوق لگاتی ہے یہ سب جانتے ہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں جنھیں بسوں اور ٹرکوں میں بٹھا کر جلسہ گاہ میں لایا جاتا ہے، ایک بار یہی کہوں گی کہ فوجی گملوں میں لگے پودوں کو خلائی مخلوق پہ تنقید کا حق نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔