نہ اِدھر اُدھر کی تو بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا ؟

رحمت علی رازی  اتوار 27 مئ 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

چند دن بعد نون لیگ کی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں اپنے آئینی اختتام کو پہنچ جائینگی۔ نئے عبوری حکمران عنانِ اقتدار سنبھالیں گے۔ ساٹھ دن بعدنئے انتخابات کا رَن پڑیگا۔ نگران وزیر اعظم کے انتخاب میں اِس بار وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے ’’کمال‘‘ راز داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

میڈیا سے نگرانوں کے نام اور چہرے یوں چھپائے جا رہے تھے جیسے کوئی ناکتخدا خوامخواہ گھونگٹ نکالنے کی کوشش کرتی پھرے۔ اب لگتا یہ ہے کہ اب نگران وزیراعظم کا فیصلہ کوئی اور ہی کریگا۔

نون لیگی حکومت کے خاتمے اور نواز شریف، اُن کی راج دلاری، اُن کے داماد اور سمدھی، اُنکے لندنی بیٹوں کی جس طور ’’عزت‘‘ ہو رہی ہے، ہمیں یہاں پنجابی کی ایک مثل یاد آ رہی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:’’اللہ کریم انسان کو رزق اور عہدہ عطا فرمائے تو جَر کر کھانا اور صبر کے ساتھ اقتدار کی باگیں ہاتھ میں رکھنی چاہییں۔‘‘ دکھ، رنج اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اور شریف خاندان نے جَر کر نہیں کھایا ہے۔

نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عزتِ سادات بھی جاتی رہی، اقتدار بھی ہاتھ سے نکل گیا، عوام کے اعتبار سے بھی محروم ہو گئے، اپنے کرموں کے کارن عدالتوں میں دھکے بھی کھائے جا رہے ہیں، سیاسی مستقبل بھی مخدوش و موہوم ہو چکا ہے اور ساری دنیا کی انگلیاں بھی اپنی طرف اُٹھ رہی ہیں۔ آلِ شریف سب کے سامنے ملزم بن کر رہ گئے ہیں۔ ابھی ملزم سے آگے بھی ایک منزل آنیوالی ہے۔

اب جب کہ نون لیگی اقتدار کے خاتمے میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں، نواز شریف اور شریف خاندان کے اقتداری ایام کا اگر ہم یہاں جائزہ لینے کی مکمل کوشش کریں تو اِس کالم کا دامن تنگ پڑ جائے گا لیکن اِس کے باوجود کوشش کی جا سکتی ہے کہ اِن پانچ برسوں میں نون لیگ، شریف خاندان اور نواز شریف نے قوم و ملک کی کیا خدمت کی اور عوام کو اِن سے کیا ملا؟

نریندر مودی کے بلاوے پر بے خودی کا طاری ہونا۔۔۔قبلہ نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بنتے ہی چھاتی ٹھونک کر کہا کہ عوام نے مجھے اِس بار اسلیے منتخب کیا ہے کہ مَیں بھارت سے اچھے تعلقات بناؤں۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہئے!! پاکستان کے عوام اِس بیان پر تو ششدر رہ گئے۔

مارے حیرت کے سب نے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ اُن پر کذب کا اتنا بڑا طومار باندھا گیا تھا اور وہ بھی نواز شریف کی زبانی۔ متعلقہ حلقے اور ادارے بھی چوکنّے ہو گئے۔ نواز شریف کو اقتدار میں آئے تقریباً ایک سال ہو چکا تھا کہ نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم بن گئے۔ اُنہوں نے اپنی تاجپوشی کے موقع پر نواز شریف کو مدعو کیا تو میاں صاحب مارے خوشی کے بے خود سے ہو گئے۔

عوامی حلقوں کا بالاتفاق کہنا تھا کہ نواز شریف کو مودی کے بلاوے پر بھارت نہیں جانا چاہیے لیکن نواز شریف مُصر تھے۔ کسی نے معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا تو کمال مہربانی سے ارشاد فرمایا: جانے سے پہلے اپنے متعلقہ اداروں سے مشورہ کرکے جاؤنگا لیکن اِس وعدے کو بھی اُنہوں نے پسِ پشت ڈال دیا اور بے خود ہو کر دہلی پدھار گئے۔ پاکستانی عوام نے اُنکے اِس عمل کو سخت ناپسنددیدگی کی نگاہوں سے دیکھا۔بھارت میں وہ اپنے صاحبزادگان کو بھی ہمراہ لے گئے تھے۔ بلا جھجک صاحبزادگان اور نواز شریف نے بھارتی تاجروں سے شیڈول کے بغیر خفیہ ملاقاتیں کیں تو ہمارے عوام نے سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

نواز شریف پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنھوں نے بھارتی دَورے میں کشمیری قیادت سے ملنے سے قطعی انکار کردیا۔ دل میں یہ چور تھا کہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرونگا تو مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے بھارتیوں کو تو خوش کر دیا تھا لیکن خود کشمیری ہو کر کشمیریوں کا دل توڑ دیا تھا۔ بعد ازاں نواز شریف نے اپنی نواسی یعنی مریم نواز شریف کی بیٹی کی شادی کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم مودی اور اُنکے ساتھ بھارتیوں کے ایک جتھے کو جس انداز میں لاہور دعوت پر بلایا، اُس روز تو پاکستانیوں کے دل مایوسی میں بجھ سے گئے تھے۔

مودی کے ساتھ آنیوالے ہائی پروفائل بھارتیوں نے مبینہ طور پر جس طرح پروٹوکول اور ویزے کی حرمت کی دھجیاں اُڑائیں، یہ ہم سب کے لیے شرمناک منظر تھا لیکن میاں صاحب کو اس سارے عمل کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ عیاں ہو رہا تھا کہ بھارتی محبت میں نواز شریف کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اُنکے گرد شبہے اور شک کی دھند رفتہ رفتہ گہری ہوتی جارہی تھی۔

فروری 2015ء میں نواز شریف نے چنیوٹ کے نواح میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے ملک وقوم کو یہ ہوشربا خوشخبری سنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے چنیوٹ میں ہمیں اعلیٰ درجے کی چاندی، انتہائی بیش قیمت تانبے اور سونے کے ذخائر سے نواز دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے وزیر اعلیٰ بھائی شہباز شریف کی موجودگی میں چمکتے دمکتے چہرے کے ساتھ چنیوٹ میں موجود سامعین کے ساتھ ساتھ سارے ملک کے سُننے والوں کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا: ’’کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم تو یہاں لوہا اور تانبا ڈھونڈ رہے تھے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے سونے کے وسیع ذخائر سے نواز دیا ہے۔‘‘

اُنہوں نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہُوئے جوشیلے انداز میں کہا تھا: ’’اب کشکول کو بلندیوں سے نیچے گرا کر ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جائے گا۔‘‘ اُنکے ساتھ برادرِ خورد نے فرمایا تھا کہ ’’چنیوٹ کے اِن لہلہاتے کھیتوں کی تہہ میں سونے کے ذخائر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔‘‘ جوشِ جذبات میں وہ یہ بھی فراموش کر گئے کہ کوئی بھی ٹھوس شئے ٹھاٹھیں نہیں مارا کرتی۔دونوں مقتدر بھائیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ چنیوٹ سے ابتدائی طور 500 ملین ٹن اعلیٰ درجے کا لوہا نکالا جائے گا۔ لیکن اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہر طرف خاموشی چھا گئی۔

آج تک پاکستان بھر کے معصوم عوام شریف برادران سے پوچھ رہے ہیں کہ چنیوٹ سے نکلنے والے سونے، چاندی، تانبے اور سٹیل کے ذخائر کہاں گئے؟ اُنہیں کون غتر بود کر گیا؟ کیا سونے کے وہ تمام ذخائر مٹی ہو گئے؟ اصل بات یہ ہے کہ نون لیگ کے حکمرانوں نے معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک بار پھر کوشش کی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ اہلِ چنیوٹ اس جھوٹ اور دھوکہ دہی پر بجا ناراض ہیں۔

شائد یہ اِسی ناراضگی کا اثر تھا کہ 22 مئی 2018ء کو شہباز شریف چنیوٹ گئے تو ضلع بھر کے اکثریتی نون لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز اُنکے استقبال کو آئے ہی نہیں۔ خالی کرسیاں وزیر اعلیٰ کا انتظار کرتی رہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے محمود الرشید نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اخراجات اتنے شاہانہ رہے کہ وہ پانچ سال 17 لاکھ ماہانہ میں غریب عوام کو پڑتے رہے انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کوئی ڈیم بنایا نہ اپنے حصے کے پانی کا تحفظ ہی کر سکے۔

نواز شریف نے تیسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہی اعلان فرمایا تھا کہ وہ کالا باغ ڈیم نہیں بنائینگے۔ اُنکے بھائی شہباز شریف نے تو سندھ جا کر یہ تک اعلان کر دیا کہ سندھ پر سیکڑوں کالا باغ ڈیم قربان کرنے کو تیار ہیں۔ سیاسی اسکورنگ کرنے کے لیے یہ اعلانات تو خوب تھے لیکن دراصل یہ پاکستان کو درپیش توانائی اور پانی کے مہیب مسائل کو مزید مہیب اور مہلک بنانے کے اقدامات تھے۔

پاکستان کے اکثریتی عوام تو یہ چاہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے کہ یہ تعمیر ہو گا تو پاکستان میں بجلی کے شرمناک مسائل ختم ہونگے۔ نوازشریف نے کالا باغ ڈیم بنانے سے بھی انکار کر دیا اور ملک بھر میں کوئی نیا ڈیم بھی نہ بنایا۔ اپنے حصے کے دریاؤں کا پانی بھی بھارتی دستبرد سے محفوظ رکھنے میں بالکل ناکام رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت نے دریائے جہلم کے پاکستانی پانی پر کشن گنگا ڈیم بنا کر ہمیں زراعت، ہمارے دریا اور ہماری توانائی کے مستقبل کو تاریک بنا دیا ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔

بھارت نے پاکستان کی زرعی زمینوں کو صحرا بنانے کی کامیاب سازش کی ہے۔ اب ہمارے حکومتی کارندے نواز شریف کے محبوب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں ورلڈ بینک بھاگے بھاگے گئے کہ کشن گنگا ڈیم بنا کر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، ہماری مدد کی جائے؟ بھلا نالائقوں اور غفلت شعاروں کی مدد کون کرتا ہے؟ جب کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کو قانونی طور پر روکا جا سکتا تھا، تب تو نواز شریف اور اُنکی حکومت بھارت کے محبت وعشق میں گہری نیند سوئی رہی تو اب آخری لمحات میں ورلڈ بینک کے کرتا دھرتا پاکستان کی کیوں سُنیں گے؟

نواز شریف کو یہ وہم تھا کہ چونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ’’کوئی اور‘‘ بناتا اور چلاتا ہے، اسلیے اِس بار وہ وزارتِ خارجہ کا قلمدان بھی خود اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔ خیال تو خوب تھا لیکن اِس خیال کے ساتھ جُڑے اُن تما م باریک اور حساس مسائل کا نواز شریف ادراک نہ کر سکے جو وزارتِ خارجہ چلانے اور وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے ناگزیر ہیں۔ نواز شریف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو بننے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی بن بیٹھے لیکن ایک کامیاب وزیر خارجہ کے لیے جس ذہانت کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، نواز شریف اس سے محروم تھے۔

انگریزی زبان پر عدم گرفت نے اور بھی تماشے دکھائے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نواز شریف چار سال اور ایک مہینہ پاکستان کے وزیر خارجہ رہے لیکن خارجہ محاذ پر پاکستان کے حصے میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں آ سکی۔ ایران، افغانستان اور بھارت ایسے تینوں بڑے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے۔ بھارت سے تو وہ بہت آگے بڑھ کر بوجوہ معانقہ اور مصافحہ کرتے نظر آ رہے تھے لیکن پاکستانی عوام کے ساتھ سب نے یہی محسوس کیا کہ بھارتیوں کے ساتھ نواز شریف کی گُوڑی اور گہری جپھیاں قومی مفادات میں کم اور ذاتی مفادات کے لیے زیادہ ہیں۔ نواز شریف سے منسوب دونوں ’’لیکس‘‘ نے یہ بات ثابت بھی کر دی ہے۔

پاکستان میں گرفتار بھارتی خطرناک جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے وہ مسلسل انکاری رہے اور بھارتی ارب پتی تاجر سجن جندل کو خفیہ طور پر مری کی سیر کراتے پائے گئے۔ نجانے جندل سے کیا خفیہ باتیں ہوتی رہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سجن جندل ارب پتی بزنسمین ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی خاص اداروں کا کارندہ بھی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نواز شریف نے غدارِ پاکستان شیخ مجیب الرحمن کی بھی تعریفیں کرنا شروع کر دیں۔

جہاں تک کہ نواز شریف پاکستانی عوام کے ساتھ ہیتِ مقتدرہ کا اعتبار اور اعتماد بھی کھو بیٹھے۔ اُنکی موجودگی میں ایران نے تو چابہار بندرگاہ کی شکل میں بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات مستحکم کیے لیکن نواز شریف ایران کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہی رہے۔ بطورِ وزیر خارجہ نواز شریف امریکا کو بھی پاکستانی مفادات سے ہم آہنگ نہ کر سکے۔ وہ دو امریکی صدور کے ساتھ بروئے کار آئے مگر کسی کو پاکستان کی طرف مائلِ بہ کرم نہ کر سکے۔ وائٹ ہاؤس میںامریکی صدر کے سامنے لکھی چِٹوں پر اپنا بیانیہ پڑھنے کے منظر کی وجہ سے ساری دنیا میں پاکستان کا مضحکہ اُڑایا گیا۔

ہاں، سی پیک کی شکل میں چین سے سفارتی تعلقات کچھ بہتر رہے لیکن خارجہ امور کی باریکیوں سے شناسائی رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کے ساتھ بہت آگے بڑھ کر تعلقات قائم کرنا پاکستان کی کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے کیونکہ دنیا کا کوئی ملک بھی ایک ہی ٹوکری میں اپنی خارجہ پالیسی کے سارے انڈے رکھنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ نواز شریف نے غیر دانشمندی اور عدم دُور اندیشی کے ساتھ یہ رسک بھی لیا۔

پاکستان کواِس کا ایک بڑا سَیٹ بَیک اُس وقت پہنچا جب شنگھائی کانفرنس میں چین نے بین السطور پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ پیرس میں ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے مالی اجلاس میں بھی چین نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا؛ چنانچہ جب طاقتور مغربی ممالک نے بعض سیکورٹی مسائل کی بنیاد پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی دی تو چین پھر خاموش رہا۔

کہا جا سکتا ہے کہ اگر بطور وزیر خارجہ نواز شریف نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بابوؤں کو متحرک کیا ہوتا تو پاکستان کو یہ روزِ بَد دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتا۔ اُنہوں نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت میں لندن اور امریکا کے لاتعداد دَورے کیے لیکن پاکستان کے مفاد میں نتائج صفر ہی رہے۔ اُنکے غیر ملکی دَوروں پر اُٹھنے والا پاکستانیوں کا اربوں روپیہ کھو ہ کھاتے میں چلا گیا 50 ارب ڈالر کے بھاری اورسُودی غیر ملکی کمر شکن قرضے بھی ان کا ’’سنہری‘‘ کارنامہ ہے۔

نواز شریف 49 ماہ اقتدار میں رہے اور قرضے50 ارب ڈالر لے لیے۔ اِس دوران ملک میں کوئی نئی اور بڑی صنعت نہیں لگی اور نہ ہی نئے کارخانے معرضِ عمل میں آئے جہاں پاکستانی عوام کو ملازمتیں، روزگار ملتا۔ پاکستان کی ایکسپورٹ بھی ناک کے بَل زمین پر آ گری لیکن ہم حیران ہیں کہ نواز شریف اور اُن کی حکومت اندھا دھند غیر ملکی قرضوں کا کمر شکن بوجھ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے کندھوں پر مسلسل لادتی رہی۔

تمام ماہرینِ معیشت متفق ہیں کہ 1947ء سے لے کر2013ء تک 65 برسوں میں پاکستان نے تقریباً 40 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے لیکن اکیلے نواز شریف کی تیسری پانچ سالہ حکومت نے 50 ارب ڈالر کے قرضے لے کر پاکستان کے ہر شہری کو لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کو حیرت اس بات پر ہے کہ یہ پچاس ارب ڈالر گئے کہاں؟

پاکستان کی چالیس فیصد آبادی تو اب بھی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، پھر یہ کھربوں روپے کے قرضے کس کے پیٹ میں جا کر گم ہو گئے ہیں؟ نواز شریف اور اُن کے حالیوں موالیوں میں سے کوئی ایک بھی اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سوال صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے بھی چند ماہ پہلے پوچھا تھا لیکن اُنہیں بھی کوئی جواب دینے کا تکلّف گوارا نہیں کیا گیا۔

کوئی بے حسی کی بے حسی ہے!! نواز شریف، راج دلاری اور لندن میں براجمان دونوں شریفیہ شہزادے تو یہ بتانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ لندن میں ایون فیلڈکے کروڑوں پونڈ مالیت کے مہنگے فلیٹس خریدنے کے لیے اُن کے پاس دولت کہاں سے آئی؟ نیب عدالت میں تو نواز شریف صاف ہی مُکر گئے ہیں۔ اب کر لو جو کرنا ہے۔ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ پھر یہی نواز شریف اور اُن کے سمدھی بھلا بدقسمت اور بے بس پاکستانیوں کو یہ کیوں بتائیں گے کہ بھاری شرحِ سُود پر لیے جانے والے پچاس ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کہاں گئے؟

آج پاکستان پر 92 ارب ڈالر کے قرضے چڑھ چکے ہیں اور ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں زمین پر جا پڑا ہے۔ آج ہی عالمی مالی ادارے ’’موڈی‘‘ نے انتباہ کیا ہے کہ ممکن ہے کمزور پاکستانی معیشت کے سبب ڈالر کی قیمت 125 روپے ہو جائے۔ پاکستان کے گردشی قرضے بھی ایک کھرب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ مگر حکمران ملک کی چوری شدہ دولت پاکستان کو واپس کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

پاکستانی عوام بجا طور پر سوال پوچھ رہے ہیں کہ نواز شریف کو مبینہ طور پر یہ تو معلوم ہے کہ بعض پاکستانیوں نے ممبئی جا کرڈیڑھ سو لوگ قتل کر دیے لیکن اُنہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ لندن کے فلیٹس کے لیے رقوم کہاں سے آئیں؟ پیسے لندن کس نے اور کیسے بھیجے؟ منی ٹریل کا کھُرا دینے کے لیے وہ ہر گز تیار نہیں ہیں۔ اب تو اُنہوں نے 23 مئی کو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’مَیں بے قصور ہُوں۔ مجھ پر کرپشن ریفرنس اسلیے بنائے گئے ہیں کیونکہ مَیں نے پرویز مشرف پر غداری کا کیس بنایا تھا۔ مجھے اس کی سزا دی جا رہی ہے۔‘‘

چہ خوب۔ 23 مئی 2018ء کو اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں نواز شریف نے پانچ صفحات پر مشتمل لکھی ہُوئی جو پریس کانفرنس پڑھی ہے، یہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کہ اُنہوں نے ایک بار پھر عدلیہ اور سیکورٹی اداروں کو بلیک میل کرنے کی ناقابلِ رشک جسارت کی ہے۔ 128 سوالوں کے شافی جواب نہ دے سکے تو یہ گرد اڑا دی ہے۔ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں تو بہت کر رہے ہیں لیکن قوم کو یہ نہیں بتا رہے کہ قافلہ کیوں لُٹا؟ کس نے لُوٹا؟

اگر ہمارے احتسابی ادارے کمزور اورکاہل الوجودنہ ہوتے تو ملزم نواز شریف کی غصب شدہ دولت اُسی طرح نکلوائی اور اگلوائی جا سکتی تھی جس طرح ملائیشیا کے نئے منتخب وزیر اعظم مہاتر محمد نے ملائشیا کے سابق کرپٹ وزیر اعظم نجیب رزاق اور اُنکی اہلیہ سے ابتدائی طور پر لُوٹی ہُوئی دولت نکلوائی ہے۔ اُنکے گھروں پر پولیس نے چھاپے مارے ہیں اور اندر چھپائے گئے کروڑوں ڈالر برآمد کر لیے ہیں کسانوں پر ظلم اور محنت کشوں کا استحصال بھی نواز خاندان کا منشور رہا ہے نون لیگ اور نواز شریف حکومت نے صنعتیں تو نہیں چلنے دیں لیکن زراعت کا بھٹہ بھی بٹھا دیا۔

دن رات محنت مشقت کرنے والے کسان پورے ملک کے لیے گندم کی شکل میں ہمارے لیے روٹی اور گنّے کی صورت میں ہمارے لیے چینی پیدا کرتے ہیں۔ وہ تو ہمارے محسن ہیں لیکن نون لیگی حکومت نے گندم کی صحیح قیمت نہ لگا کر ملک بھر کے کسانوں کو تقریباً ہلاک ہی کر ڈالا ہے۔ حکمران طبقے کی شوگر ملیں بھی ہیں۔ وہ بے کس اور محنتی کسانوں سے سستے داموں گنّا خرید تو لیتے ہیں لیکن اِس کے مناسب دام دیتے ہیں نہ وقت پر رقوم کی ادائیگیاں ہی کرتے ہیں۔

شوگر مل مالکان نے کسانوں کا گنّا کرش کرنے کے ساتھ کسانوں اور اُنکے خاندانوں کو بھی کرش کر دیا ہے۔ کسی نون لیگی حکمران نے اُن کی فریاد نہیں سُنی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے حکمرانوں اور شوگر مل مالکان نے رَج کر کسانوں کا استحصال کیا ہے۔ جو شوگر مل مالکان ہیں، وہی حکمران ہیں۔ پھر غریب کسان کی شنوائی کہاں ہوتی؟ اُنکی فریاد پر کون کان دھرتا؟ جب نواز شریف اپنے اعمال و افعال کی بدولت عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے تاحیات نااہل قرار دیے گئے تو وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کی لاٹری نکل آئی اور یہ جناب وزیر اعظم بنا دیے گئے۔

اُنکی تقریباً گیارہ ماہی وزارتِ عظمیٰ کسی ایک فیصلے کے اعتبار سے بھی عوامی اور قومی مفاد کے حق میں ثابت نہیں ہو سکی۔ وہ خود کو ’’اپنے وزیر اعظم‘‘ کا وفادار اور تابعدار ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے جسے عوام نے سخت ناپسند کیا۔ مسٹر عباسی نے البتہ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ بے تحاشہ اضافہ کر کے عوام کی ’’دعائیں‘‘ ضرور سمیٹیں۔ کس کس بد بختی کا ذکر کیا جائے؟ شاہد خاقان عباسی کے دَور میں اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں تعینات امریکی کرنل جوزف کو پُر اسرار طور پر رہا کر دیاگیا۔ اِس فیصلے نے عالمی سطح پر ہمارا تو سر ہی جھکا دیا ہے۔

کرنل جوزف ایک پاکستانی نوجوان کا قاتل تھا۔ نون لیگی حکمرانوں کے نزدیک یہ تھی مظلوم و مقتول پاکستانی عوام کی اوقات!! دو دن بعد نواز شریف کی حکمران جماعت کے اقتداری خاتمے پر اگر پاکستان کے بائیس کروڑ عوا م اجتماعی طور پر شکرانے کے نوافل ادا کریں تو شائد کسی کے لیے کوئی اچنبھے اور حیرت کی بات نہیں ہو گی۔ جس پارٹی کا سربراہ وزیر اعظم بن کر پارلیمنٹ میں صرف گیارہ بار جا سکا، اُسکے اور اُس کی پارٹی کی مستقل رُخصتی پر قوم بھلا شکرانے کے نوافل کیوں نہ ادا کریگی!! اب تو عوام بھی حکمرانوں سے کہتے سنے گئے ہیں کہ  ؎

نہ اِدھر اُدھر کی تو بات کر

یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا

تیری رہبری کا سوال ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔