ہیٹ اسٹروک اور کرنے کے کام

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

آج کل گرمی کی شدت ہم سب کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ عام طور پر لوگوں کو اس کی اصل وجوہات کا علم ہی نہیں، اگر ہم اس کی وجوہات معلوم کرلیں تو اس پریشانی کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

بڑھتی ہوئی گرمی کی ایک وجہ زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ سائنسدانوں کے بقول اس درجہ حرارت کی ایک بڑی وجہ ہماری ترقی ہے، یعنی جیسے جیسے ہم ترقی کر رہے ہیں ویسے ویسے زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، مثلاً جب کسی انڈسٹری میں کوئی فریج، ائیرکنڈیشنڈ یا گاڑی بنتی ہے تو اس عمل میں انڈسٹری چلنے سے آلودگی اور درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، نیز یہ گاڑیاں، فریج اور ایئرکنڈیشنڈ جب استعمال میںآتے ہیں تو اس عمل سے بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں سائنسدانوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مذکورہ بالا اشیاء کے استعمال سے گرین گیسز خارج ہوتی ہیں، جن سے آلودگی میں اضافہ بھی ہوتا ہے، نیز ’اوزون‘ کی سطح میں سوراخ ہو چکا ہے، جس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور اس عمل سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

یوں ہمیں بڑھتی ہوئی گرمی کی ایک وجہ تو سائنسدانوں نے بہت واضح بتادی ہے، لہٰذا بڑھتی ہوئی گرمی کو کم کرنے کا حل ہم مندرجہ ذیل طریقوں سے ازخود کرسکتے ہیں۔

1۔ تعیشات کی اشیاء کا استعمال کم سے کم کریں، مثلاً ایئرکنڈیشنڈ کم سے کم استعمال کریں، بلاضرورت کھول کر نہ چھوڑ دیں، بہت سے افسران گاڑی میں سوار ہونے یا آفس آنے سے گھنٹوں پہلے ائیرکنڈیشنڈ آن کرا دیتے ہیں، یہ عمل انتہائی غلط اور گرمی کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

2۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں بلاوجہ ضرورت سے زائد سامان خرید کر لے آتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بغیر بھی تو آپ زندگی گزار سکتے ہیں، مثلاً یہ ضروری تو نہیں کہ ہمارے گھرکے ہر کمرے میں ایک الگ ٹی وی، کمپیوٹر اور ڈسپنسر وغیرہ ہو۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ان سب کے استعمال سے کس قدر گرین گیسز خارج ہوتی ہوں گی اور کس قدر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہوگا؟

3۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے استعمال کی اشیاء بھی ضرورت سے زائد رکھتے ہیں، مثلاً ایک جوڑی جوتا استعمال کے لیے کافی ہوتا ہے مگر ہم کئی کئی جوڑیاں رکھتے ہیں اور اس کے باوجود عید یا تقریبات کے لیے مزید کئی کئی جوڑیاں خرید لیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ تمام زائد اشیاء جو ہم خرید رہے ہیں یقیناً کسی فیکٹری یا انڈسٹری میں تیار ہوتی ہوں گی، ہم جتنی زیادہ اشیاء خریدیں گے، اتنی ہی زیادہ انڈسٹری چلے گی، اور جتنی زیادہ انڈیسٹری چلے گی، اتنی ہی زیادہ گرین گیسز فضا میں شامل ہوں گی، جس سے ’اوزون‘ کی سطح بھی خراب ہوگی اور درجہ حرارت بھی بڑھے گا، یعنی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ یوں اگر ہم کم سے کم اشیاء خریدیں، کم سے کم اشیاء استعمال کریں، تو گرمی کی شدت کم کرسکتے ہیں۔

4۔ سادگی کا ختم ہوتا تصور بھی گرمی کی شدت میں اضافے کا ایک اہم کردار ہے۔ میڈیا اور اشتہارات کے سبب اب عام لوگ بھی اپنی حیثیت سے زیادہ اچھی اور پرتعیشات والی زندگی گزارنے کا عزم رکھتے ہیں، جس کے سبب روزمرہ کی زندگی میں سادگی کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور دکھاوے کے لیے پیسہ خوب خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر ایک صبح و شام بے چین رہتا ہے کہ وہ نئی سے نئی اشیاء لے کر اپنا ڈرائنگ روم سجالے، بڑی سے بڑی نئے ماڈل کی گاڑی لے لے۔ غرض خوب پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جتنا پیسہ خرچ ہوگا، اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے اتنی ہی زیادہ اشیاء خریدیں اور زیادہ اشیاء خریدنے کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ اشیاء جہاں تیار ہوئیں وہاں فیکڑیاں، انڈسٹریاں زیادہ چلیں اور یوں ان کے زیادہ چلنے سے زیادہ آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔

پہلے وقتوں میں گرمی، آلودگی وغیرہ کا مسئلہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگ سادگی پسند کرتے تھے، اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ آج چین کا ملک آلودگی پھیلانے میں سب سے آگے ہے، کیونکہ اب یہاں انڈسٹریز زیادہ لگ رہی ہیں، دن رات چل رہی ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ آپ اور ہم دن رات چائنا کا مال خرید رہے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ بہت سستا ہے، گویا ہمارا یہ عمل بھی آلودگی کا اور زمین کا درجہ حرارت بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ یوں اگر ہم اپنی زندگی میں سادگی کو اپنالیں یعنی کم سے کم اشیاء خریدیں اور استعمال کریں تو اس سے گرمی کی شدت کم کرنے میں بھی مدد ملے گی اور گھر کا خرچہ بھی کم ہوسکے گا۔

مزید دیگر طریقوں سے بھی گرمی کی اس شدت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مثلاً درخت لگا کر۔ یہ کام کئی طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً

1۔ ہمارے ہاں مساجد کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے، شہری علاقوں میں مساجد کے ساتھ دکانیں بھی کرائے پر دی جاتی ہیں، لہٰذا مساجد میں آنے والے نمازی اگر صرف مساجد کے چاروں اطراف اندر اور باہر درخت لگا دیں اور جب نماز کے لیے آئیں تو انھیں پانی بھی دیدیں تو ایک بہت بڑی تعداد میں درخت بغیر کسی بڑی منصوبہ بندی کے لگ جائیں گے۔ یہاں مساجد میں جو لوگ دکانیں چلا رہے ہیں ان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، مثلاً وہ پودے خرید کر دے سکتے ہیں اور دن بھر دکان پر بیٹھے بیٹھے ان کی دیکھ بھال بھی کرسکتے ہیں۔

2۔ مساجد کی طرح تعلیمی اداروں کا جال بھی اس ملک میں ہر سو پھیلا ہوا ہے، اگر اساتذہ اپنی ہر کلاس کے دس دس بچوںکے دو دو گروپ بھی بنا ڈالیں تو ہر اسکول کے کم از کم بیس، بیس گروپ بنیں گے، یہ گروپ اپنے اسکول کے اطراف اور قریب کے علاقوں میں درخت لگا کر انھیں دن میں ایک مرتبہ پانی بھی دے سکتے ہیں اور اساتذہ اس کے عوض انھیں امتحان میں پانچ، پانچ اضافی نمبر اور تعریفی اسناد بھی دے سکتے ہیں۔ یہ طلبا گروپ اپنے قریبی علاقے کے دکانوں کے سامنے بھی درخت لگا سکتے ہیں اور اس کے عوض دکانداروں سے پودے کی قیمت بھی وصول کرسکتے ہیں، جو بہت معمولی ہوتی ہے اور جب دکاندار اپنے سامنے ہی درخت کا پودا لگتا دیکھے گا تو وہ یہ قیمت یقیناً ادا کردے گا اور خود سے اس کی دیکھ بھال بھی کرتا رہے گا۔ اسکول کے علاوہ کالجز اور جامعات کے اساتذہ بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔

یہ تمام کام ہم اپنی مدد آپ خود ہی کرسکتے ہیں اور اس میں کسی بڑے سرمائے اور حکومت کی مدد کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حکومتی اداروں کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ ترقیاتی اسکیموں کی اب تک جو منصوبہ بندی سامنے آئی ہیں، ان میں درختوں اور پودوں کا خاتمہ ہی ہوا ہے، نیز سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کی تعمیرات سے شہروں میں اب نہ تو سبزہ نظر آتا ہے اور نہ ہی کچی زمین۔ اگر ہم غور کریں تو اب شہروں میں ہر جگہ پختہ زمین یا روڈ نظر آتے ہیں، جس کے باعث بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہوپاتا، بلکہ سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور سارا پانی ندی نالوں کے ذریعے سمندر میں چلا جاتا ہے، لہٰذا حکومتی اداروں میں بیٹھے منصوبہ بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھوں کو مکمل طور پر ٹائلز وغیرہ سے پختہ نہ کریں، بلکہ ماضی کی طرح یہاں پودے لگائیں، اس عمل سے زیر زمین پانی کی کم ہوتی شرح کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل ہوسکتا ہے۔

تجاویز تو اور بھی بہت ہوسکتی ہیں، مگر مذکورہ بالا پر ہی آپ اور ہم مل کر عمل کرلیں تو گرمی کے اس موجودہ عذاب سے کسی حد تک چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔