28مئی: یومِ عزم و استحکام

تنویر قیصر شاہد  پير 28 مئ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

20سال گزرنے کے باوجود مجھے آج تک پاکستانیوں کے وہ دمکتے چمکتے چہرے نہیں بھُولتے۔اُس روز مَیں نیویارک میں تھا جب 28مئی1998ء کو میرے وطن نے جرأت و دلیری سے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہاں، اسلامی جمہوریہ پاکستان اب باقاعدہ ایک ایٹمی ملک بن چکا ہے۔ 11 اور 13 مئی کو پاکستان کا ازلی دشمن، بھارت، جوہری دھماکے کرکے پاکستان کو دھمکیاں دینے کی غلطی نہ کرتا تو شائد پاکستان بھی اِس میدان میں قدم نہ رکھتا۔

بھارت نے ایٹمی دھماکوں کا کھڑاگ کرکے پاکستان کو کارنر کرنے اور نکّو بنانے کی جسارت کی تھی۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو بھارت کی یہ حرکت منظور نہیں تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد دو ہفتوں تک جب پاکستان کی طرف سے پُراسرار خاموشی چھائی تھی، نیویارک کی تمام پاکستانی کمیونٹی کچھ کچھ مرجھا گئی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے پاکستان سے ہزاروں کلومیٹر دُور بیٹھے پاکستانی زیر دستی کے احساس تلے دَب گئے ہوں۔اور جب پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں، بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں، چھ جوہری دھماکے کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا تو نیویارک کے ساری پاکستانی برادری کے چہرے خوشی، مسرت اور کامیابی کی لَو سے جگمگا اُٹھے تھے۔

سب ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکبادیں دے اور لے رہے تھے۔ اُس روز نیویارک میں ’’لٹل پاکستان‘‘ کہلوانے والے علاقے ’’کونی آئیلینڈ ایونیو‘‘ پر عید کا سماں تھا۔پاکستانی ایٹمی دھماکوں سے قبل مَیں بروکلین کے علاقے ’’میکڈانلڈ ایونیو‘‘ سے ایف ٹرین پکڑ کر چار پانچ روز تک مسلسل نیویارک کے علاقے ’’جیکسن ہائٹس‘‘ جاتا رہا۔ جیکسن ہائٹس میں دولتمند ہندو تاجروں کی اکثریت رہتی ہے۔

ایک اخبار نویس کی حیثیت میں یہ جائزہ لینے کے لیے مَیں وہاں پہنچا تھا کہ دیکھوں تو سہی کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ہندو کمیونٹی کے مزاج اور تیور کیسے ہیں؟ہندو ریسٹورنٹس میں بھی گیا۔ ہندوؤں کے ایک بڑے گروسری اسٹور، جس کے مینجر میرے وقف کار تھے، میں بھی گھوم پھر کا جائزہ لیا۔ جیکسن ہائٹس کے مین بازار میں، بینک کے سامنے، ایک بھارتی نژاد ہندو کا ایک اسٹور تھا جہاں سے مَیں اکثر بھارتی اخبارات اور میگزین خریدا کرتا تھا۔ جھانک لگانے کے لیے وہاں بھی گیا۔

سخت حیرت ہُوئی کہ ہندو دکانداروں کا لہجہ بالکل بدلا بدلا ساتھا۔ایک عجب قسم کا غرور اُن کی باتوں اور اطوار سے ظاہر ہو رہا تھا۔ یہ تو نیویارک میں مقیم ہندوؤں کے غرور کا حال تھا تو ہم اندزہ لگا سکتے تھے کہ بھارت کے اندر ہندو شہریوں کا بھارتی ایٹمی دھماکوں پر تکبّر کا کیا حال ہو گا؟

وہ سمجھ رہے تھے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے دراصل پاکستان کو شکست دے ڈالی ہے۔ یہ تھے وہ لمحات جن میں وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان اور اہلِ پاکستان کا ہی نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند تر کر دیا تھا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ اس عظیم موقع پر عالمِ اسلام کے تمام شہریوں نے بھی دل سے یہی یقین کیا تھا کہ یہ ایٹمی دھماکے صرف پاکستان کی کامیابی نہیں ہیں بلکہ آج سارے مسلمان ممالک بھی کامیاب اور سُرخرو ہُوئے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانیوں نے، بھارتیوں کے برعکس، ایٹمی طاقت بن جانے پر متکبر اور مغرور ہونے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ اللہ ہی ہے جس کے ہاتھ میں انسانوں اور ملکوں کی عزت ہے۔ یہ اللہ کی شکر گزاری ہی کے جذبات تھے کہ 28 مئی کے دن کو سرکاری سطح پر ’’یومِ تکبیر‘‘ کے عنوان سے موسوم کیا گیا۔ہم مسلمان ہر کامیابی پر اللہ ہی کی کبریائی بیان کرتے ہیں۔

ہم آج بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ اُس نے ہمیں اِس عظیم الشان کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اٹھائیس مئی کا یہ دن’’یومِ تکبیر‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’یومِ عزم و استحکام‘‘ بھی ہے۔ ٹھیک دو عشرے قبل یقینا ہمارے عزم کو سُرخروئی ملی تھی۔ اِس عزم بالجزم نے پاکستان کو ایک مستقل استحکام سے بھی ہمکنار کیا۔ اِس کے لیے ایک لمبی اور رازوں بھری جدوجہد کی گئی۔ آج جب کہ ہم سب ، پاکستان کے بیس بائیس کروڑ افراد، 20 واں ’’یومِ تکبیر‘‘ منا رہے ہیں، ایک بار پھر ہمیں اللہ ہی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

اِس منور اور مسعود موقع پر ہمارا سیلوٹ ہے اُن سب پاکستانی حکمرانوںکو جنھوں نے تقریباً ڈھائی عشروں کی مسلسل کمٹمنٹ سے قائد اعظم کے دئیے گئے پاکستان کو ایٹمی طاقت کی شکل دے ڈالی۔ پاکستان کے اُن سب ذہین اور محنتی ایٹمی سائنسدانوں کو بھی ہمارا عقیدتوں بھرا مخلص سلام پہنچے جنھوں نے شب وروز کی محنتِ شاقہ سے اپنے ملک کو دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بنا دیا۔

اِس بے مثل اور عظیم المرتبت کامیابی کے حوالے سے سائنسدانوں میں بظاہر تو ڈاکٹر قدیر خان صاحب اور ڈاکٹر ثمر مبارک مندصاحب کے اسمائے گرامی سامنے آئے تھے لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمارے کتنے ہی گمنام قابلِ فخر سائنسدانوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین ایام اِس کامیابی کے حصول پر قربان کردئیے۔ اِن سب گمنام ہیروزکوہمارا سیلوٹ۔ اُن ڈھائی تین عشروں کے دوران ہمارے جتنے بھی حکمران برسرِ اقتدار آئے اور اُنہوں نے جس عظیم رازداری کا مظاہرہ کیا، اِس ناتے سے وہ سب ہماری سلامی کے حقدار ہیں۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو اِن حکمرانوں میں اسلیے اہم حیثیت کے حامل ہیں کہ اُنہوں نے اپنے وطن کو ایٹمی طاقت بنانے کا عہد بھی کیا اور پھر اِس عہد کو نبھانے کے لیے عملی اقدامات بھی کئے۔ حتیٰ کہ اِس سفر میں اپنی جان بھی ہار دی۔ جناب محمد نواز شریف کو خصوصی حیثیت اسلیے حاصل ہے کہ اُن کے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کو پہلی بار ایٹمی دھماکے کرنے کا اعزاز نصیب ہُوا۔

نواز شریف صاحب کو مستقل شاباش کہ اُنہیں ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے دھمکیاں بھی دی گئیں اور پانچ ارب ڈالر کا لالچ بھی دیا گیا لیکن وہ کسی کے غچے میں آئے، نہ کوئی رعب اُنہیں اپنے راستے سے ہٹا سکا اور نہ ہی ڈالروں کی چمک دیکھ کر اُن کے قدم لڑ کھڑائے۔

نواز شریف صاحب آج آزمائشوں میں گھرے ہیں۔ اُن کی کئی باتوںسے کئی اختلافات ہونے کے باوجود پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعزاز اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ آج بھی مستحکم لہجے میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بات اگر فخر سے کرتے ہیں تو اُن کا یہ فخر حق پر مبنی ہے۔

اب تو ہمارے ایک حساس ادارے کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی صاحب نے بھی اپنی تازہ ترین اور متنازعہ کتاب (The Spy Chronicals : RAW , ISI and the Illusion of Peace) میں بھی یہ اعتراف کر لیا ہے کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پاکستان ایٹمی دھماکے کرکے بڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسد درانی صاحب نے یہ کتاب بھارتی ’’را‘‘ چیف (اے ایس دولت) کے ساتھ مل کر لکھی ہے اور اُن پر چاروں طرف سے یلغار بھی کی جارہی ہے۔

درانی صاحب لکھتے ہیں:’’صرف ایک بات پر مَیں میاں (نواز شریف) صاحب سے خوش تھا اور وہ تھا جب اُنہوں نے ایٹمی دھماکوں کا حکم دیا۔مَیں نے اِس معاملے میں اُن کی کھل کر حمائت کی۔ اُنہوں نے بہادری سے درست فیصلہ کیا۔ جوہری دھماکوں کا فیصلہ کرتے ہُوئے اُنہوں نے اپنے خاص حلقے کی خواہشات کی بھی کوئی پروانہیں کی تھی۔ اُن کے یہ خاص حلقے پاکستان کی بزنس کمیونٹی تھی۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کا حکم دیتے ہُوئے (امریکی صدر) کلنٹن کی طرف سے آنے والی پانچ فون کالز کا دباؤ بھی برداشت کر لیا اور ایٹمی دھماکے کر کے ہی چھوڑے۔‘‘

اٹھائیس مئی کے حوالے سے اسد درانی صاحب نے نواز شریف کی تحسین تو کی ہے لیکن اپنی کتاب میں اُنہوں نے کئی دیگر متنازع انکشافات بھی کر دئیے ہیں جن پر سخت ردِ عمل آ رہا ہے۔سابق چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے کہا ہے کہ ’’اگر ایسی کتاب پاکستان کے کسی سویلین نے اپنے بھارتی ہم منصب سے مل کر لکھی ہوتی تو اب تک اُس کے خلاف کئی فتوے لگ چکے ہوتے۔‘‘

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تو اسد درانی کے انکشافات پر قومی کمیشن بنانے اور قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں نواز شریف کا لہجہ خاصا تلخ ہے۔ غالباً اِنہی دباؤ کا اثر ہے کہ افواجِ پاکستان کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور، نے ایک ٹویٹ بھی کی ہے جس کے مطابق اسد درانی کو آج جی ایچ کیو میں پُرسش کے لیے بلایا گیا ہے۔آج قوم ایک طرف تو ’’یومِ تکبیر‘‘ کا جشن منائے گی اور دوسری طرف اِس پُرسش کا احوال جاننے کا انتظار کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔