ایک خوشگوار تبدیلی

مقتدا منصور  پير 28 مئ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یہ اکیسویں صدی ہے، دنیا میں بڑی تبدیلیوں کی صدی۔ اس صدی میں دنیا ’’ہر نقش کہن‘‘ مٹانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ایک طرف عالمی جنگوں کے تصورات سے نکلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف سرد جنگ کی نفسیات، سحر اور اثرات سے جان چھڑانے پر آمادہ ہے۔

شمالی اور جنوبی کوریا کی قیادتیں 70 برس کی سخت گیر مخاصمت کے بعد ایک دوسرے سے مل بیٹھتی ہیں۔ امریکا شمالی کوریائی قیادت سے ملنے پر آمادہ ہورہا ہے۔ چین اور امریکا تجارتی مسابقت کو کم کرکے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر آمادہ ہورہے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور اختلافات پس پشت جارہے ہیں۔

مگر جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات اور تنازعات مزید گہرے ہورہے ہیں۔ معاندانہ رویوں میں شدت آرہی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور تلخ نوائیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ سے عام شہری زندگی کی بازیاں ہار رہے ہیں۔ دونوں جانب کے شدت پسند ) (Hawks زیادہ فعال ہیں جب کہ امن دوست حلقے ) (Doves جو کہ اکثریت میں ہیں، اس لیے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں کہ دونوں ممالک کی منتظمہ شدت پسندوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود امن دوست حلقے قیام امن کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتظامی اور سلامتی کے اداروں کے اعلیٰ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ شدومد کے ساتھ امن کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔

فکری تبدیلی کے اسی رجحان کا ایک بڑا نمونہ ہمیں گزشتہ پیر کو دیکھنے کو ملا۔ جب پاکستان اور بھارت کی بڑی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان امرجیت سنگھ دولت اور اسد درانی کی بنکاک، استنبول اور کھٹمنڈو میں ہونے والی گفتگو کو سینئر صحافی ادتیہ سنہا (Aditya Sinha) نے قلم بند کرکے کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔

اس کتاب “The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace”  میں دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان نے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ بلکہ مسٹر اے ایس دولت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارتی حکومت پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھارت کے دورے کی دعوت دے اور ان کا شایان شان استقبال کرے، تاکہ غلط فہمیوں کی دھند کو ختم کیا جاسکے۔

پاکستان کا رویہ بھی کسی طور کم مفاہمانہ نہیں ہے۔ جس کا ثبوت اسی ماہ اسلام آباد میں ہونے والی جنوبی ایشیا میڈیا کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس کے آخری روز ISPR کے DG جنرل آصف غفور کی جانب سے مندوبین کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس عشائیہ تقریب سے خطاب کے دوران جنرل آصف غفور مسلسل سارک کو فعال بنانے اور جنوبی ایشیا کے صحافیوں کے ساتھ روابط کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔

اگلے روز ہم (سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ، رکن صوبائی اسمبلی مہتاب اکبر راشدی اور راقم) تو کراچی واپس آگئے، لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق GM ظہیر خان کی قیادت میں سارک ممالک کے آئے صحافیوں نے وزیرستان کا دورہ کیا۔ جس سے پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں کی مذاکرات کے لیے مثبت سوچ اور فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔

مسٹر دولت نے اس پہلو پر بھی زور دیا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار اور مستقل امن کا واحد ذریعہ ہے۔ جو صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ ان ہی خیالات کا اظہار اسد درانی نے بھی کیا۔ اس نکتہ نظر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل پیش نہیں کرتیں، بلکہ دنیا کی معلوم تاریخ میں ہر جنگ کے بعد معاملات کی درستی کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ہے۔ لہٰذا ان افسران کے اس مشورے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ معاملات و مسائل کے حل کے لیے صرف اور صرف مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے امن دوست حلقے کئی دہائیوں سے اپنی دونوں حکومتوں کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ قیام امن کے لیے مذاکرات کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا ضروری ہے۔

یہ بات خاصی تشویش کا باعث ہے کہ اکہتر برسوں کے دوران فاصلے کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں۔ بحیثیت سیاست، صحافت اور تاریخ کے ایک طالب علم، یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ 1954ء تک دونوں ممالک کے درمیان پاسپورٹ بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب کہ 1965ء تک ویزا کا جھنجھٹ نہیں تھا۔ دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے ملک میں داخل ہونے کے بعد On arrival ویزا مل جاتا تھا۔ یہی کچھ معاملہ ڈاک کے نرخوں کا تھا۔ عام مقامی نرخوں پر خطوط دونوں ممالک میں آیا جایا کرتے تھے۔

ریلوے مزدور یونین کے صدر منظور رضی کے مطابق 1965ء کی جنگ سے قبل تک ان دونوں ممالک کے ریلوے ملازمین کو سال میں ایک بار پاکستان اور بھارت میں فری سفر (پاس) کی سہولت حاصل تھی۔ تاشقند معاہدے کے بعد گو کہ روابط بحال ہوگئے، مگر پہلے جیسا برادرانہ طرز عمل نہیں رہا۔ بلکہ دونوں ممالک نے پورے ملک کے بجائے چند مخصوص شہروں کے ویزا کا سلسلہ شروع کرکے تعلقات کی کشیدگی کو نئی شکل دی۔ یہ دنیا میں ایک انوکھا تجربہ ہے۔ کیونکہ جب کسی ملک کا ویزا ملتا ہے، تو اس پورے ملک میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ قیام پاکستان کے وقت برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے نے قائداعظم کا انٹرویو لیتے وقت سوال کیا تھا کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو کیسا دیکھتے ہیں، تو بانی پاکستان نے نہایت اطمینان کے ساتھ جواب دیا تھا کہ میں حکومتی ذمے داریوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ کراچی میں اور چھ ماہ ممبئی میں گزارنا پسند کروں گا۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار مہاتما گاندھی نے اپنے ایک انٹر ویو میں کیا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کچھ دن بھارت میں اور کچھ پاکستان میں گزاروں۔

شاہنواز بھٹو مرحوم نے ممبئی میں جو کوٹھی تعمیر کی تھی، ان کے فرزند ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس کوٹھی کو 1957ء تک اس امید پر اپنی ملکیت میں رکھا کہ جب کبھی وہاں جانا ہو تو یہ کوٹھی قیام کا ذریعہ ہو۔ لیکن جب بہتر تعلقات کے آثار معدوم ہوتے چلے گئے، تو پھر انھوں نے اس کوٹھی کو فروخت کردیا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا دہلی میں واقع گھر میں پاکستان کا ہائی کمیشن قائم ہے۔ ممبئی میں قائداعظم کے گھر کے بارے میں پاکستان کی خواہش ہے کہ اس میں پاکستان کا قونصل خانہ کھلے۔

بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ ان دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی تسلسل کے ساتھ ملاقاتوں اور ان کی گفتگو کا کتابی شکل میں منظر عام پر آنا نئی صبح کی نوید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں انتہائی حوصلہ افزا مشورے شامل ہیں۔ اگر ان مشوروں پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ خطے میں پائیدار اور دیرپا امن قائم نہ ہو سکے۔

ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ خفیہ اداروں کے سابق سربراہاں جو اندرون خانہ کہانیوں کے اصل رازداں ہوتے ہیں، اگر اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیں کہ مذاکرات ہی تمام اختلافات کو حل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں، تو پھر اس میں دو رائے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ بلکہ ضروری ہوگیا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی اپنی اناؤں کے دائروں سے باہر نکل کر ان سابق افسران کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے کے لیے کسی فوری حکمت عملی پر غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔