الیکشن 2018 اور ماحولیاتی مسائل

محمود عالم خالد  منگل 29 مئ 2018
mehmoodenv@gmail.com

[email protected]

فرانس سے تعلق رکھنے والے معروف میٹرولوجسٹ ایٹینی کیپی کین نے سب سے پہلے ٹویٹ کے ذریعے دنیا کو بتایاکہ 30اپریل بروزپیر پاکستان کے جنوب میں واقع ایک شہرکادرجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیاگیا جو رواںسال ماہ اپریل میں کرہ ارض پرریکارڈ کیاجانے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ انھوں نے لکھاکہ اپریل پاکستان وایشیا میں گرم ترین مہینہ رہا ۔

واضح رہے کہ اپریل 2016کامہینہ تاریخ کاسب سے گرم ترین اپریل قرار دیا گیا تھا۔ 26 مئی2010 میںسندھ کے تاریخی شہر موہنجودڑو میں پاکستان کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 53.5 ریکارڈ کیاگیا ۔ واضح رہے کہ عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق زمین پر سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 56.7 ڈگری سنٹی گریڈ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ڈیتھ ویلی ڈیزرٹ میں 10جولائی1913کوریکارڈ کیا گیا تھا۔

نواب شاہ میںریکارڈ کیا جانے والے یہ درجہ حرارت گرم موسموںکے عالمی ریکارڈ میںاضافہ ہے، وہیں یہ مظہر پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی کو بھی ظاہرکرتا ہے۔ رواں مئی کامہینہ بھی ملک بھر میںخصوصاً کراچی میں گرمی کے پرانے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ایدھی ذرایع کے مطابق اب تک 86 افراد شدیدگرمی کی لہرکا شکار ہوکر موت کی وادیوں میں گم ہوچکے ہیں۔

تشویش ناک صورتحال مگریہ ہے کہ اپنی روش پر قائم رہتے ہوئے حکومتی ذمے داران نے ان اموات کو افواہ قراردے کر یکسر مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ گرمی کی شدید لہر سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ اس حوالے سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے نمایندے کراچی کے چندگنے چنے اسپتالوں کے سوا شہرکی ان غریب اورمضافاتی بستیوں میں نہیں پہنچ پاتے جہاں شدید گرمی لوگوںکوزندگیوں سے محروم کررہی ہوتی ہے ۔

واضح رہے کہ 2015 میں آنے والی گرمی کی شدید لہرمیں بھی صورتحال یہی تھی جب کراچی شہر کے چند اسپتالوں کے اعداد و شمار کو بنیاد بناتے ہوئے جاں بحق ہونے والوںکی شرح انتہائی کم بتائی گئی تھی ۔آج پاکستان کاحب ناقص منصوبہ بندی پیسے کی ہوس کے نتیجے میں بے ہنگم عمارتوں کو ایسا جنگل بن چکا ہے جس نے اس شہرکو ’’ ہیٹ آئی لینڈ ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے جب کہ ان عمارتوں اور پارکس کوختم کرنے کی وجہ سے بے شمار سایہ دار درختوں کاخاتمہ ہوچکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کراچی کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا ۔دنیا بھر کے دیگر معتبر ادارے درجہ حرارت میںہونے والے اضافے سے متعلق جو پیش گوئیاں کررہے ہیں پاکستان میں درجہ حرارت کے اضافے کی شرح ان پیش گوئیوںسے کہیںزیادہ ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی موحولیاتی و موسمیاتی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تمام پیشن گوئیاںدرست ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں ۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی پانچویں تجزیاتی رپورٹ میں اس امر کو واضح کردیا ہے کہ گرین ہاوس گیسوں میں مسلسل ہونے والے اضافے کو نہ روکاگیا تو 2100 تک عالمی درجہ حرارت میں3.7سے4.8سینٹی گریڈ کااضافہ ہوگا جوکرہ ارض کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا ۔ بین الحکومتی پینل کی ہی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سندھ ڈیلٹا کے درجہ حرارت میں4 سے6 ڈگری سیٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا، لیکن ہم من حیث القوم اس امر کی جانب توجہ دیتے نظرنہیں آرہے ہیں۔ وجہ اس کی شاید یہ ہوکہ موسمیاتی تبدیلی کا نشانہ ملک کی غریب عوام ہیں جنھیںوقت آنے پر ووٹوں کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔

اس حوالے سے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد ڈاکٹر قیصر سجاد، مقتدا منصور، توصیف عالم، ڈاکٹر وقار احمد، راقم الحروف اورایڈووکیٹ وقاص احمد نے معروف ماہر موحولیات اورگلوبل واٹر پاٹنرشپ کے رینجل ایکسپرٹ ڈاکٹر پرویز امیرکی سربراہی میں کراچی پریس کلب میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن 2018 میںحصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی مسائل کو اپنے منشورکا لازمی حصہ بنائیں۔

پاکستان کے موسمیاتی و ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا وہ کون سا مظہر ہے جس سے پاکستان کے عوام دوچار نہ ہوں ۔بڑھتا ہوا درجہ حرارت ،خشک سالی، زرعی پیداوارمیںکمی گلیشیئر کا پگھلنا ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی ، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل ہوں یا پانی کا بحران یہ تمام مسائل موسمیاتی ، ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہو رہے ہیں اور ان کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہے جب کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میںہماراکوئی حصہ نہیں۔ ہم اس حوالے سے 135ویںنمبر پر ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلی کا یہ مظہر 5 عوامل پر اثرانداز ہوگا جس میں سب سے پہلازراعت ، جنگلات ، بائیوڈائیورسٹی، صنعتیں، پانی کے وسائل اورصحت کے مسائل سرفہرست ہیں۔

پاکستان میں درختوں اورجنگلات کی کٹائی تیزی سے جاری ہے جس کی بنیادی وجہ ٹمبرمافیا اور لوگوں میں شعور کی کمی ہے جب کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں زمینیںختم کرکے بلند و بالا بلڈنگیں بنائی جارہی ہیں جودرختوں کے لیے سب سے بڑانقصان ہیں۔

اس حوالے سے ہمیں ہنگامی بنیادوں پربالخصوص طالب علموں کے ساتھ ملکر درختوں کی حفاظت کی خصوصی مہم چلاناہوگی کیونکہ درخت لگاناکوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ان کی پرورش کرنااصل کام ہے۔ اس مقصد کے لیے بڑی تعداد میں نرسریاں لگانا ہوںگی ۔ یاد رہے کہ عالمی معیار کے مطابق کسی ملک کے 25% رقبے پر درختوں کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میںیہ رقبہ4 فیصد سے بھی کم ہوچکا ہے۔

پاکستان میں کئی علاقے بتدریج صحرا میں بدل رہے ہیں ۔ پانی کی کمی بارش کا نہ ہونا، حکومتی عدم توجہ کے ساتھ کئی علاقوں میںحیوانات کی آبادیوں میںبھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بھی صحرا زدگی میںاضافہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کی دیہی آبادی شہری علاقوں میں منتقل ہورہی ہے جو اگلے 20/25 سالوںمیں60% تک پہنچ جائے گی۔جس کے ملک کی ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوںگے خاص طورپر شہری علاقوں کے بنیادی وسائل پر جس کی وجہ سے شہری آبادیوں کے ذہنی دباؤ میںاضافہ ہورہاہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ملک کی زراعت سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ سے غذائی قلت اور ان کی قیمتوں میںاضافہ ہو رہا ہے۔ اندازہ لگایا گیاہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں پیداوارکی شدیدکمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے گندم میں20سے30فیصد، چاول میں 15فیصد تک کمی واقعہ ہوسکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات میں جیسے جیسے اضافہ ہوگا اسی تناسب سے غربت اورمال نیوٹریشن میںبھی اضافہ ہوگا، غریب غریب ترہوگا یعنی غربت کی لکیرسے نیچے جائے گا ۔ بچے، بوڑھے اورخواتین سب سے زیادہ متاثرہوںگے۔ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں نقل مکانی کے رجحان میںاضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی اورصنعتی مزدوروں کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ صحت اورتعلیم کی کمی اوردیگر سہولیات کی وجہ سے بھی نقل مکانی میںاضافہ ہو رہا ہے اس میںمیڈیا کا بھی کردار ہے جولوگوںکوشہروں کی طرف راغب کر رہا ہے۔

موجودہ صورتحال میں دنیابھرکی حکومتیں موسمیاتی وماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ ان ملکوں کی سیاسی جماعتیں بھی اپنے منشور میںان مسائل کوترجیحی بنیادوں پر شامل کررہی ہیں۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ 10غیر محفوظ ملکوںمیں شامل ہے جہاںہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں شدت پیدا ہورہی ہے ۔ الیکشن2018 میںحصہ لینے والی تمام جماعتوں کواس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ موسمیاتی وماحولیاتی مسائل سے نمٹنے بغیر پائیدار ترقی کوکسی صورت ممکن نہیں بنا سکیں گی۔ ضرورت اس امرکی ہے تمام جماعتیں ان حقیقی مسائل کو جن کا تعلق براہ راست کی 22کروڑ عوام سے ہے کواپنے انتخابی منشور میں شامل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔