کردار خود بولتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 30 مئ 2018

جب کسی ملک کا سسٹم غلیظ، بدبودار، کرپٹ ہوتا ہے، جب ادارے کمزور اور لوگ طاقتور ہوتے ہیں، جب قانون اقتدار کی لونڈی بنا ہوا ہوتا ہے، جب صرف کمزوروں کو سزا مل رہی ہوتی ہے، جب انصاف چھپتا پھر رہا ہوتا ہے، جب لوگ بھوکے سورہے ہوتے ہیں تو پھر حکمرانوں اور طاقتور طبقوں سے وابستہ لوگ اس خیال میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ وہ ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہوئے ہیں اور پھر جب اقتدار ختم ہوجاتا ہے، طاقت جاتی رہتی ہے، اختیار گم ہوجاتا ہے اور وہ جب زمین پر آگرتے ہیں تو پھر ان پر خوفناک انکشاف ہوتا ہے کہ انسان ٹانگوں کے سہارے نہیں بلکہ کریکٹر کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔

ایسے انسان پھر اپنی باقی زندگی گھسیٹ گھسیٹ کر گزارتے ہیں، وہ جتنا کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں اتنا اور گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے آپ کو صادق، امین، دیانتدار، ایماندار ثابت کرنے کے لیے ساری زندگی چیختے چلاتے رہتے ہیں، لیکن کوئی بھی ان کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

ایسے انسانوں کے لیے ہی ایمرسن نے کہا تھا ’’تم جو کچھ ہو، اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا‘‘۔ اس لیے کہ کردار خود بولتا ہے، کردار گونگا نہیں ہوتا ہے، اس کی آواز آپ کی آواز سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ آپ کہیں اور اپنی نظریں نہ دوڑائیں، صرف اپنے ہی ملک میں ذرا غور سے دیکھ لیں تو آپ کو ایسے لاتعداد گرے ہوئے لوگ نظر آجائیں گے جو اپنی زندگی گھسیٹ گھسیٹ کر گزار رہے ہیں۔ یہ سب کے سب ایسے لوگ ہیں جو اقتدار اور طاقت میں اپنے آپ کو خدا سمجھے بیٹھے ہوئے تھے، جن کا گھمنڈ اور غرور دیکھ کر خدا پرست لوگ کانپ جاتے تھے۔

جو یہ سمجھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے اقتدار اور طاقت کی رات کبھی نہیں آئے گی۔ آج وہ سب مارے مارے پھررہے ہیں، ان میں سے بعض تو اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھے ہیں، انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں آتا ہے کہ اقتدار اور طاقت کبھی کے جا چکے ہیں، وہ یہ بات بھی بھولے بیٹھے تھے کہ اقتدار اور طاقت کبھی کسی کے بھی نہیں ہوئے ہیں، یہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ بات بھی بھول گئے تھے کہ کردار کی طاقت ہی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے، جو مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔

آئیں تاریخ میں جھانکتے ہیں، مارول نے کیمرج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی، جو آگے چل کر بادشاہ چارلس دوم کا مشیر بنا۔ مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا لیکن جب بادشاہ کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بدامنی، رشوت ستانی، کرپشن اور ظلم و ستم کا بازار گرم ہوگیا تو مارول نے بادشاہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقیدیں کیں، اور ہجویں شایع کیں۔ اس کی تحریریں بادشاہ کی نظر سے گزریں، بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھا جائے۔ دھمکیاں، خوشامدیں، لالچ، دولت اور حسن کے جال سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ بدمعاشوں کے وار اور حسیناؤں کی ادائیں اسے اپنے فرائض سے نہ ہٹا سکیں۔

آخرکار مارول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک روز ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے ساتھ ملا لینے کی غرض سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ہزار پونڈ کا چیک دے کر چلنے لگا۔ مارول نے اس سے ایک منٹ ٹھہرنے کی التجا کی اور فوراً اپنے خدمت گار کو بلوا کر پوچھا ’’کل شام تم نے کیا پکایا تھا‘‘۔ نوکر نے جواب دیاکہ جناب کو تو معلوم ہے کہ کل شام میں نے آپ کے لیے گو شت بنایا تھا۔ مارول نے پھر سوال کیا کہ آج شام کے لیے کیا بندوبست کیا ہے، نوکر نے کہا کہ آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں۔ مارول نے خدمت گار کو رخصت کیا اور اب لارڈ ڈین بی سے مخاطب ہوکر بولا ’’حضور نے سن لیا، میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے، آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو‘‘۔

عظیم شاعر گولڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا، مرتے دم تک غربت اور قرض اس کے دوست تھے، تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی، اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارا نہ کیا، ذلیل سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ ارسطائیدس کو اس کی غیر متزلزل ایمانداری کی بنا پر ’’انصاف پسند‘‘ کا خطاب ملا۔ ایتھنز کے سپہ سالار فوشین کو سکندر اعظم نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، اسے دولت، انعام واکرام کے علاوہ ایشیا کے چار شہروں کی حکومت کا لالچ دیا گیا، لیکن فوشین نے جو جواب دیا وہ یہ تھا ’’اگر سکندر فی الواقع میری عزت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ مجھے ایمانداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش نہ کرے‘‘۔ شمالی امریکا کے ریڈ انڈین اس بات کے قائل تھے کہ بہادر آدمی کے لیے دولت کی آرزو کرنا نہایت مکروہ فعل ہے، چنانچہ ان میں قبیلے کے سردار اکثر مفلس ہوتے تھے۔

سسرو اس قدر محتاط تھا کہ نہ دوستوں کے تحفے قبول کرتا تھا نہ دشمنوں کی رشوت۔ جو بھی کریکٹر کے سہارے کھڑا رہا، وہ آج بھی کھڑا ہی ہوا ہے، چاہے وہ تاریخ میںہو یا اپنی زندگی میں۔ اور جس جس نے ٹانگوں کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کی، وہ سب کے سب اوندھے گرے ہوئے ہیں، چاہے وہ تاریخ میں ہوں یا اپنی زندگی میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔