افلاطون چپراسی

سردار قریشی  بدھ 30 مئ 2018

اس کا نام بھول گیا ہوں لیکن آدمی دلچسپ تھا۔ یہی کوئی پچیس تیس سال کا رہا ہوگا، جب اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اندرون سندھ کسی دور افتادہ گاؤں سے کراچی پہنچا تھا۔ بڑھیا کے بتانے پر کہ یہ اس کا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ مرنے سے پہلے اسے کماتے کھاتے دیکھنا چاہتی ہے، ترس کھا کر بطور چپراسی ملازم رکھ لیا گیا۔ بظاہر ٹھیک ٹھاک آدمی تھا، بس کبھی کبھی اس کی حرکتوں اور باتوں سے لگتا تھا کہ اس کا کوئی پیچ ڈھیلا رہ گیا ہے۔

اسے ذہنی طور پر معذور یا عدم توازن کا شکار تو نہیں کہا جاسکتا تھا، بس یوں کہیے کہ عمر کے اعتبار سے بڑا ہوتے وقت دماغ نے باقی جسم کا ساتھ نہیں دیا، وہ خود تو بڑا ہوگیا لیکن اس کا دماغ بچے کا بچہ رہ گیا، جو اس سے بڑی معصوم اور بچگانہ حرکتیں کرواتا تھا۔ اس کو چونکہ رات کو دفتر میں سونے کی اجازت بھی دی گئی تھی اس لیے سہولت کی خاطر ڈیوٹی بھی رات کی شفٹ میں لگائی گئی۔ ہیڈ چپراسی عرس سولنگی جب کام سمجھانے اسے نیوز روم میں لایا تو ہمیں پہلی بار موصوف کے دیدار نصیب ہوئے۔

ہمارا دفتر بندر روڈ پر بینک آف انڈیا بلڈنگ میں تھا، جو اب کورٹ ویو بلڈنگ کہلاتی ہے۔ اس کے فرائض میں ڈیسک کے ساتھیوں کے چھوٹے موٹے کام کرنا مثلاً پانی پلانا، سوامی نارائن مندر کے کمپاؤنڈ میں بنے ہوٹلوں سے کھانا اور لائٹ ہاؤس پر سبحان اﷲ ریسٹورنٹ سے چائے لانا شامل تھا، پان سگریٹ کے کھوکھے بھی وہیں ہوتے تھے اور ان کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑتا تھا۔ پہلے دن تو عرس سولنگی نے ڈبل ڈیوٹی دی اور اس کے ساتھ ہوٹلوں کے کئی چکر لگائے لیکن دوسرے دن سے اس کی نوبت ہی نہیں آئی، کیونکہ اس نے کام کرنے کا اپنا طریقہ وضع کرلیا تھا اور اسی میں مگن رہتا تھا۔ ایک ہدایت منگی کے سوا ہم سب ڈیسک کے ساتھی بھی اس کا بھرپور ساتھ دیتے اور اس کی معصومانہ حرکتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ نیوز روم سے ملحق کمپوزنگ سیکشن کے چپراسی نے رضاکارانہ طور پر اس کے کام اپنے ذمے لے لیے تھے، سو بازپرس یا نوکری جانے کا ڈر بھی نہیں رہا تھا۔

دوسرے ہی دن اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ایڈیٹر کے کمرے کی طرف سے نیوز روم میں داخل ہونے والے دروازے کے پاس، جہاں اے پی پی اور پی پی آئی نیوز ایجنسیوں کے ٹیلی پرنٹر نصب تھے، اپنے بیٹھنے کے لیے رکھا ہوا اسٹول ہٹا کر کاٹھ کباڑ والے کمرے میں پھینک آیا اور کرائم رپورٹر کی سیٹ پر قبضہ کر کے وہاں بیٹھنے لگا۔ فائل کیے جانے کے لیے رکھے ہوئے تمام اخبارات اٹھا کر لے جاتا اور ایک ایک کرکے ان کا مطالعہ کرنا شروع کرتا۔ جب سب اخبارات دیکھ چکتا تو دوسرے چپراسی کو بلا کر انھیں فائل کرنے کا حکم دیتا اور خود ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کر اور کرسی سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ جاتا۔

ہمارے ساتھی ہدایت منگی جو اس کو پسند نہیں کرتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن جب کمپوزنگ سیکشن والا چپراسی کہیں کام سے گیا ہوا تھا انھیں پیاس لگی، اب یہ اسے چیخ چیخ کر بلا اور پانی لانے کو کہہ رہے ہیں اور وہ دوسری طرف منہ کرکے یوں بیٹھا ہے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ آخر منگی کو اٹھ کر اس کی سیٹ پر جانا پڑا جس کے جواب میں وہ برا سا منہ بنا کر اٹھا، کوریڈور کے دوسرے سرے پر رکھے واٹر کولر سے پانی کا جگ بھر لایا اور زور سے منگی کی میز پر پٹخ کربولا لو پیو، مرو۔ یہی نہیں واپس جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھتے وقت ہم سب نے اسے کہتے ہوئے سنا ’’کہاں کہاں سے جاہل لوگ آجاتے ہیں، گھر سے پانی پی کر بھی نہیں آتے، کسی کو آرام سے بیٹھا دیکھ جو نہیں سکتے‘‘۔ بس ایک یوسفانی سے ڈرتا تھا جو گٹکا کھاتے تھے اور اس کی پیک ہر وقت منہ میں بھرے رکھتے تھے۔ ان کے ذرا سے اشارے پر بھاگ کر آتا مگر دور کھڑا ہوکر بات کرتا کہ کہیں وہ اس پر پیک کی کلی ہی نہ کردیں۔

انھوں نے تو خیر ایسا کبھی نہیں کیا البتہ کامرس رپورٹر سلیم میمن نے جو خود بھی گٹکا کھاتے تھے، اس وقت یوسفانی کو اپنے منہ میں بھری پیک سے تقریباً نہلا ہی دیا جب وہ اس سے کسی خبر کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ جواب دیتے وقت بیچارے کو یاد ہی نہیں رہا کہ منہ میں پیک بھری ہوئی ہے۔ چپراسی بھی شاید اسی واقعے سے متاثر تھا جو اس کے سامنے پیش آیا تھا۔ یوسفانی ابھی لکھنے کے کاغذوں سے منہ صاف ہی کر رہے تھے کہ سلیم میمن نے دوسری منزل سے سیڑھیاں اتر کر دوڑ لگادی اور لی مارکیٹ پہنچنے سے پہلے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

اخباری دنیا کی معروف ہستی محبوب نوروزی ہمارے پروڈکشن انچارج ہوا کرتے تھے، اخبار پیپلز فاؤنڈیشن ٹرسٹ پریس میں چھپتا تھا جسے جنرل ضیاء نے بعد میں مسلمان کرکے شیخ سلطان ٹرسٹ بنادیا تھا، کاپی پریس لے جانا، اپنی نگرانی میں پلیٹ بنوانا، چھپوانا اور ڈسپیچ کرنا سب ان کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔ ان کی درخواست پر کہ کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے انھیں ایک ہیلپر دیا جائے، ہمارے چپراسی صاحب کی خدمات ان کے حوالے کردی گئیں، اس وقت تک اسے کام کرتے ہوئے ایک سال سے زائد ہوچکا تھا، دفتر سے پریس تک راستے کا پتہ تھا اور موصوف سائیکل چلانا بھی جانتے تھے۔

چار اندرونی صفحات کی کاپیاں پہلے تیار کرکے پریس بھجوائی جاتی تھیں، جن میں ادارتی صفحہ بھی شامل ہوتا تھا۔ بیرونی صفحات (صفحہ اول و آخر) کی کاپی جسے ہم آخری کاپی کہتے تھے رات کو ٹھیک ایک بجے بی بی سی ورلڈ کی ہیڈ لائنز سن کر ڈاؤن کی جاتی تھی۔ 1980ء میں آنے والے داخلی انقلاب کے نتیجے میں نوکری سے نکالے جانے تک آخری کاپی یوسفانی خود جڑوایا کرتے تھے۔ ان کا موٹو تھا کہ کتنی ہی بڑی خبر کیوں نہ مس ہوجائے کاپی لیٹ نہیں ہونی چاہیے۔

گھڑی دیکھ کر کام شروع کرتے اور گھڑی دیکھ کر ہی ختم کرتے تھے، ٹائم آگے پیچھے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ انھوں نے اخبار کے بنڈل لے جانے والی فورڈ میں روزانہ حیدرآباد بھی جانا ہوتا تھا، ان کی رہائش جو وہیں تھی۔ یہی گاڑی شام 5 بجے پھول لے کر کراچی پہنچتی تو انھیں دفتر پہنچا کر پھر پریس جاتی۔ ان کا شیڈول کچھ اس قسم کا تھا کہ یار لوگوں نے لطیفے بنا رکھے تھے، مثلاً کہا جاتا تھا کہ اخبار جائے نہ جائے یوسفانی ضرور حیدرآباد جائے گا۔ اﷲ کا بندہ اس روز کے آنے جانے سے تھکتا تو کیا الٹا اسے انجوائے کرتا تھا۔ ایک دو بار ڈرائیور کی آنکھ لگ جانے کی وجہ سے گاڑی کو سپر ہائی وے پر حادثات بھی پیش آئے لیکن بنڈلز کے نیچے دب جانے کی وجہ سے صاف بچ جاتے تھے۔

تو خیر، یوں ہم سب کے دلارے چپراسی صاحب براہ راست یوسفانی اور نوروزی کی کمان میں کام کرنے لگے۔ جوں ہی اندر کی دونوں کاپیاں تیار ہوتیں یوسفانی کا اشارہ پاکر وہ اپنی سیٹ سے چھلانگ مار کر اٹھتا، رول بنا کر کاپیاں بغل میں دباتا اور سائیکل پر پریس پہنچاتا۔ ایک دن پتہ نہیں اسے کیا سوجھی یا کچھ زیادہ ہی ترنگ میں تھا کہ رول ہینڈل اور سیٹ کے درمیان رکھ کر جوں ہی کیمپبیل اسٹریٹ کے دوسرے سرے پر پہنچا اور پاکستان چوک کی طرف مڑنے لگا، پیچھے سے آتا ہوا ریتی بجری کا تیز رفتار خالی ٹرک کاپیاں اڑا کر لے گیا۔

اب کاپیوں کا رول ٹرک پر تھا اور یہ سائیکل پر اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے،بیچارے بہت چیخے چلائے لیکن ٹرک ڈرائیور یہ جا وہ جا، انھوں نے فریسکو چوک تک اس کا تعاقب کیااور پھر دفتر واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ واردات کا پتہ اس وقت چلا جب پریس سے فون پر اندرونی صفحات کی کاپیوں کے لیٹ ہونے کی وجہ معلوم کی گئی، اس سے پوچھا تو بڑے بھولپن سے بولاوہ تو ٹرک والا اڑا کر لے گیا۔ اس سوال پر کہ تم نے بتایا کیوں نہیں، اس نے اتنا ہی مختصر جواب دیا کہ کسی نے پوچھا ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔