ابھی عشق کے امتحاں اوربھی ہیں

مقتدا منصور  بدھ 24 اپريل 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کیا11مئی کے انتخابات مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی ملک میں سیاسی حیثیت کے ازسرنو تعین کے لیے منعقد ہورہے ہیں؟کیاپیپلز پارٹی،ایم کیوایم اور ANP کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کامقصد بعض ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے کسی ممکنہ ایجنڈے کی تکمیل ہے؟کیااس طرح انتخابی عمل کی شفافیت برقرار رہ سکے گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج کل ہر زبان پر ہیں۔

الیکشن کمیشن، نگراں سیٹ اپ اور فیصلہ ساز ادارے اس صورتحال پرچپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ان کی جانب سے اس سلسلے میں نہ کوئی بیان سامنے آ رہا ہے اور نہ کوئی اقدام نظر آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کس نازک مقام تک جا پہنچی ہے؟اس کا ادراک ان لوگوں کو بخوبی ہے،جوسیاسی عمل کے گذشتہ کئی دہائیوں سے ناظر وشاہد ہیں۔

اس ہفتے ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے توبہت سے چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں۔منگل کو کوئٹہ میں پے در پے چار بم دھماکے، جن میں چوتھا اپنی شدت کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہولناک تھا۔ FC کے اہلکار کی قربانی نے ہزارہ کمیونٹی کو ایک بہت بڑے نقصان سے بچالیا۔

اسی روز ایم کیوایم کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکا جس میں اس کے دو کارکن شہید ہوئے۔ ANPکی طرح ایم کیو ایم نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں محدود کی ہوئی ہیں اور اب تک اس نے اپنی توجہ انتخابی دفاتر تک محدود کی ہوئی تھیں۔ مگر اس دھماکے کے بعد اس نے شہر بھر میں اپنے تمام دفاتر بند کردیے ہیں۔خدشہ ہے کہ حالات سے بددل ہوکر اگر اس نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا،تو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکے گا،جو اس ملک کی تاریخ کا ایک نہایت افسوسناک باب ہوگا۔

موجودہ خطرات کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی اب تک کوئی انتخابی جلسہ نہیں کرسکی ہے۔منگل کو پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کا پہلا ویڈیو پیغام ٹیلی ویژن چینلوں پر جاری ہوا ہے، جس میں انھوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے جو زبانِ زد عام ہیں۔

اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف بلاخوف و خطر جلسے کر رہی ہیں۔میاں نواز شریف نے پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی دھڑلے سے جلسے سے خطاب کیا۔عمران خان غالباً یکم مئی کو کراچی میں جلسہ کرنے والے ہیں۔ان دو جماعتوں کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام بھی خیبر پختونخواہ جیسے شورش زدہ صوبے میں آزادانہ جلسے جلوس کررہی ہے۔بعض لوگ اب الزام لگا رہے ہیں کہ شاید یہ تینوں جماعتیںشدت پسند عناصر کی معاونت سے جلسے اور جلوس کررہی ہیں۔

اس کے برعکس پیپلزپارٹی،ایم کیوایم اور ANP کو کارنر میٹنگ تک نہیں کرنے دی جا رہی۔ ان کے امیدوار بھی شدت پسند عناصر کے نشانے پر ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان اب تک ANPنے اٹھایا ہے۔ جس کے رہنماؤں پر آئے دن حملے ہوتے ہیں۔اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے محسوس یہ ہو رہا ہے، جیسے صرف غیر ریاستی عناصر ہی جمہوری عمل کو متزلزل کرنے کی کوششوں میں مصروف نہیں ہیں،بلکہ بعض ریاستی عناصر بھی شدت پسند عناصر کی چیرہ دستیوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔

شاید یہی سبب ہے کہ انھیں بھی ملک کی تین اہم ترین سیاسی جماعتوں کے انتخابی عمل سے باہر رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور شاید وہ بھی دائیں بازو کو اقتدار میں دیکھناچاہتے ہیں۔ جس اندازمیں ملک کی لبرل سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی سازش ہورہی ہے اس پر حافظ شیرازی کا یہ شعرذہن میں آتا ہے۔

درمیاںِ قعر دریا تختہ بندھن کردہ ای
بعد می گوئی،دامن ترمکن ہشیار باش

مگرمعاملہ صرف مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے چند لبرل جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں سے روکنے تک محدود نہیں ہے،بلکہ جس انداز میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے وکلاء جنرل(ر)پرویز مشرف کے خلاف آپے سے باہر ہورہے ہیں،اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاشرے میںغلط رویوں کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔پرویز مشرف پر آمر ہونے کا الزام عائد کرنے والے وکلاء جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے ہیں،کس طرح جمہوری اقدار کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں،سب کے سامنے عیاں ہے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بعض سنجیدہ لوگ جمہوریت اور جمہوری عمل کے بارے میں تشکیک کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وکلاء،جو ملک کا دانشور طبقہ کہلاتا ہے،جس اندازمیں طاقت اورتشددکااستعمال کررہاہے،اس سے اندازہ ہورہاہے کہ یہ طبقہ آمریت اور جمہوریت کے فرق سے کلیتاً ناآشنا ہے۔ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ یا تو آمریت کی چیرہ دستیوں سے واقف نہیں یا پھر جنرل ضیاء کا دور بھول چکے ہیں۔اصل میں آمریت وہ تھی،جو جنرل ضیاء نے گیارہ برس تک اس ملک پر مسلط کیے رکھی۔

جب صحافیوں سمیت سول سوسائٹی کے ہر شراکت دار پر کوڑے برسائے گئے۔خواتین سمیت اقلیتوں کا جینا حرام کیا گیا۔لوگوں کی زبان بندی کرنے کے لیے سفاکانہ رویہ اپنایا گیا۔ سیاسی رہنماؤں کی ایک بہت بڑی تعدادکو جیلوںکی سلاخوں کے پیچھے بغیر مقدمہ چلائے دھکیلاگیا یا پھر انھیں جلاوطنی پر مجبور کیاگیا۔

مشرف نے نہ مارشل لاء کا نفاذ کیا اور نہ کسی رہنماء کو بلاجواز جیل میں ڈالا،سوائے ان چند رہنماؤں کے جنہوں نے ازخودایڈونچرم ازم کی راہ اپنائی۔ سیاسی عمل بھی تین چار روز بعد اپنے سابقہ اندازمیں جاری ہوگیا۔ کالم نگاروں نے آمر کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سخت مضامین لکھے۔ایسے کئی اختلافی مضامین 12 اکتوبر 1999ء کے ایکشن کے تین چار روز بعد ہی شایع ہوئے،مگر انھیں سنسرنہیں کیاگیا۔لوگ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال کریں کہ کیاجنرل ضیاء کے پورے گیارہ برس کے دور میں ایسے مضامین کی اشاعت ممکن تھی۔

پرویز مشرف ہی کے دور میں ذرایع ابلاغ کو اظہارکی وہ آزادی میسر آئی،جو اس سے پہلے اسے کسی سویلین دور میں بھی حاصل نہیں تھی۔اس کا مقصد کسی طور پر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب جب کہ وہ خود اپنے اوپر لگے الزامات کا عدالت میں سامنا کررہے ہیں،توانھیں اپنی صفائی کا پورا موقع ملنا چاہیے۔کیا ایک ایسی صورتحال میں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی فوجی حکمران اپنے اوپر لگے الزامات کا عدالتوں میں دفاع کرنے پر آمادہ ہے، وکلاء جیسے تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے متشدد رویہ ان کے غیر جمہوری ہونے کی دلیل نہیں بن رہا ہے؟ اس کے علاوہ وکلاء کا حالیہ متشددانہ طرز عمل دراصل عدالتوں پر اثراندازہونے کی مذموم کوشش ہے اور انھیں روکنے اور ٹوکنے والاکوئی نہیں ہے۔اس نئی صورتحال نے بہر حال عوام کے ذہنوں میں یہ فرق واضح کردیا ہے کون آمرانہ ذہنیت رکھتا اور کس کامزاج جمہوری ہے۔

بہر حال وکلاء کا متشددانہ رویہ ہو یا سیاسی جماعتوں کی موقع پرستانہ بے حسی،پاکستان میں ایک بار پھر آمریت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن رہی ہے۔خاص طور پر جس اندازمیں بعض سیاسی جماعتیں اپنی ساتھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ غیر جمہوری قوتوں کی چیرہ دستیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں،اس نے سیاسی عمل کے مستقبل کو ایک بار پھر مخدوش بنادیاہے۔ آج پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اورANPکوملنے والی دھمکیوں پر جوسیاسی جماعتیں خاموشی کا شکار ہیں، کل جب کوئی دوسری غیر جمہوری قوت ان کے ساتھ ایسا ہی طرز عمل کرے گی تو کیا وہ ان تین جماعتوں سے حمایت کی توقع رکھ سکیں گی؟

حالانکہ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب شدت پسند عناصر نے تین جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنے کے لیے دھمکیاں دیں تو ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں اس روش کے خلاف سینہ سپر ہوکرکھڑی ہوجاتیں اور ثابت کرتیں کہ وہ واقعی جمہوریت کے تسلسل کے لیے انتخابی عمل میں ہر جماعت کی شرکت کو ضروری سمجھتی ہیں۔مگر ان کی اس غیر جمہوری عمل پر خاموشی نے ان کی جمہوریت نوازی کا پردہ چاک کردیاہے۔سیاسی جماعتوں کے اس رویے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمریتیں اس لیے کامیاب ہوئیں کہ سیاسی جماعتیں خود سیاسی عمل کو اس کی صحیح شکل میں جاری رکھنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔