سیاسی بدعت

نصرت جاوید  بدھ 24 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چنیوٹ سے جھنگ کی طرف سفر کرتے ہوئے آپ کو تقریباً ہر پانچ منٹ کے بعد سڑک کے دونوں اطراف قد آدم بورڈ لگے نظر آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے جھنڈے والے تین رنگوں کے درمیان میں سے اس بورڈ پر سید عنایت علی شاہ کی تصویر اور نام نمایاں نظر آتا ہے۔

اس بورڈ کا بنیادی مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ اس علاقے میں پیپلز ورکس پروگرام کے تحت کون سا ترقیاتی منصوبہ کتنے روپوں کی لاگت سے کتنے عرصے میں مکمل ہوا۔ اس منصوبے پر جو رقم خرچ ہوئی وہ میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں میں سے نکال کردی گئی تھی۔ مگر یہ بورڈ کچھ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے عنایت علی شاہ صاحب کی ذاتی فیاضی نے اس علاقے کی قسمت بدل ڈالی۔ قصہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔ چنیوٹ۔

جھنگ روڈ پر عوام کی ہمہ وقت ترقی کا دعویٰ کرنے والے عنایت علی شاہ صاحب 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بجائے ’’تبدیلی کے نشان۔عمران خان‘‘کی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیں۔ اللہ کرے وہ اس انتخاب میں بھی کامیاب ہوں۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے بعد وہ عوام کی اس طرح ’’خدمت‘‘ نہ کر پائیں گے جیسے گزشتہ پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رقوم کے ذریعے کرتے رہے۔ اپنی انتخابی تقاریر میں عمران خان بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین کا اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب مقامی حکومتوں کی ذمے داری ہوگی۔ شاہ صاحب جیسے لوگوں کو منتخب ہوجانے کے بعد صرف قانون سازی پر توجہ دینا ہوگی۔

عمران خان صاحب کو شاید علم ہوگا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو قانون سازی کے بجائے ترقیاتی منصوبوں پر لگانے کی بدعت جنرل ضیاء کے ایک چہیتے وزیر خزانہ جناب ڈاکٹر محبوب الحق نے شروع کی تھی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب جونیجو صاحب وزیر اعظم بنے تو ان کی حکومت کا پہلا بجٹ ان ہی ڈاکٹر صاحب نے پیش کیا تھا۔ وہ ایک بہت ذہین اور قابل ماہر معاشیات تھے جو ایوب خان کی وزارتِ منصوبہ بندی سے ہوتے ہوئے ورلڈ بینک کے اعلیٰ عہدوں تک جا پہنچے تھے۔ جنرل ضیاء نے انھیں وزیر منصوبہ بندی بنایا تھا۔

مگر ایک طاقتور وزیر خزانہ ہوتے ہوئے غلام اسحاق خان ان کی راہ میں اکثر معاشی نظم وغیرہ کے نام پر بہت رکاوٹیں کھڑی کردیا کرتے تھے۔ 1985ء کے انتخابات کا جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ دوسری جماعتوں سے وابستہ لوگوں نے اپنی قیادت کی حکم عدولی کرتے ہوئے ان انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ جب ایسے لوگ قومی اسمبلی میں آگئے تو جنرل ضیاء اور ان کے رفقاء نے طے کرلیا کہ انھیں اپنے اپنے علاقوں کا طاقتور سیاستدان بنادیا جائے تاکہ سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ہونے والے آیندہ انتخابات میں بھی پرانے لوگ منتخب نہ ہو پائیں۔

’’نئے چہرے‘‘ ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھائے رہیں۔ جنرل ضیاء اور ان کے رفقاء کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ذمے ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنے سر لے لیا۔ پاکستان ان دنوں افغان جہاد میں اپنے کردار کی وجہ سے امریکا کا بڑا لاڈلا ہوا کرتا تھا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ اس کی مدد کرنے کو بڑے تیار رہتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس کا پورا فائدہ اُٹھایا۔ غیر ملکی امداد کی گراں قدر رقم کے ساتھ انھوں نے عالمی دُنیا کو یہ باور کروایا کہ حکومت پاکستان اسلام آباد میں بیٹھے بابوؤں کے بجائے عوامی نمایندوں کی بتائی ترجیحات کی روشنی میں پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا چاہ رہی ہے۔ میرا شمار ان چند صحافیوں میں ہوتا تھا جو اس منصوبے کے پیچھے مقاصد سے پوری طرح آگاہ تھے اور اس کے منفی اثرات کو بھی تھوڑا بہت سمجھ سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب میرے جیسے صحافیوں کی قومی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے ترقیاتی منصوبے چلانے کے خلاف تحریروں پر بڑے چراغ پا ہوتے۔

اکثر ہمیں جاہل، متعصب اور زمینی حقائق سے قطعی ناآشنا ہونے کے طعنے دیتے رہتے۔ اس سب کے باوجود ڈاکٹر صاحب وزارتِ خزانہ میں ایک سال بھی مکمل نہ کرپائے۔ مگر ان کی متعارف کردہ بدعت سے ہم آج تک چھٹکارا نہیں پاسکے۔

پاکستان میں اس بدعت کو ختم کرنے کا سنہری موقعہ ایک اور فوجی آمر کے دنوں میں نصیب ہوا تھا۔ نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کی جماعتوں کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے انھوں نے بھی اپنے پیشرو جرنیلوں کی طرح مقامی حکومتوں کے ذریعے ’’ نئے چہروں‘‘ کو آگے لانا چاہا۔ مگر 2002ء کے انتخابات کے ذریعے جو قومی اسمبلی بنی اس کے اراکین کو بدستور’’ترقیاتی فنڈ‘‘ ملتے رہے۔ وہ نہ ملیں تو قومی اسمبلی کے اراکین بددل ہوجاتے ہیں۔ حکومت سے تعاون نہیں کرتے اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم تک پورا نہیں ہونے دیتے۔

قومی اسمبلی کا رکن بڑا اصول پسند اور کرپشن سے پرہیز بھی کرتا ہو تو ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ سرکاری محکمے اور ان کے من پسند ٹھیکے دار اس کی طرف سے منظور کروائے ترقیاتی منصوبوں کی کل لاگت کا دس سے پندرہ فی صد کمیشن اسے یہ منصوبہ مکمل ہونے سے بہت پہلے یک مشت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ 2002ء میں مقامی حکومتوں کے اصل پشت پناہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو(NRB)کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی چوہدری دانیال عزیز کو یہ کمیشن لینے پر اُکسایا جاتا۔

وہ نوجوان سختی سے انکار کرنے کے بعد میرے پاس آکر مایوسی سے بڑبڑانا شروع ہوجاتا۔ گزشتہ ہفتے ساہیوال میں مجھے نچلی سطح کے کچھ افسر ملے جنہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا ’’کمیشن‘‘ اب 17فیصد ہوگیا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے سید عمران شاہ واحد آدمی بتائے گئے جنہوں نے اسے لینے سے ہمیشہ انکار کیا۔ یقینا ایسے مزید لوگ بھی ہوں گے۔ مگر انکار کرنے والوں کی تعداد اور ناموں کو کون یاد کرتا ہے؟

عنایت علی شاہ کی مثال نے مجھے یہ خواہش کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ آیندہ جو بھی حکومت بنے وہ ترقیاتی منصوبوں میں قومی اسمبلی کے اراکین کو ملوث کرنے کی بدعت کا خاتمہ کردے۔ کم از کم یہ سوچتے ہوئے کہ ان کے طفیل سیاسی طورپر مضبوط ہوتا رکن بالآخر کسی اور جماعت کا ٹکٹ لے کر دوسرا انتخاب لڑاکرتا ہے۔ جس جماعت کی حکومت نے پیسے دیے ہوتے ہیں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔