اور اب میڈیا کی شامت!!

اسد اللہ غالب  بدھ 24 اپريل 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

دو دن سے میڈیا میں میرا نام آ رہا ہے اور قارئین سوچتے ہوں گے کہ اپنی باری آئی تو چپ لگ گئی۔ نہیں یہ بات نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور کالم لکھنے کی سکت سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہوں۔لیکن مجھے احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے، میں کسی قانون سے بالاتر نہیں۔ اگر میں خلاف قانون کام کروں گا تو میری کریڈیبلیٹی ختم ہو جائے گی اور لکھے ہوئے حرف کی حرمت قائم نہیں رہ سکے گی۔

وفاقی وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کا مسئلہ سپریم کورٹ گیا تو میں نے تب بھی لکھا اور بار بار لکھا کہ مسئلہ اربو ں اور کھربوں کا نہیں ، چند کروڑ کا ہے، یہ موقف اس وقت کے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بھی اختیار کیا مگر عدالت کے سامنے صحیح پوزیشن پیش نہیں کی گئی۔اب ایک لسٹ سامنے آئی ہے اور دوسری بھی شاید چند دنوں میں آ جائے۔ ویسے دونوں لسٹیں مل ملا کر 27 کروڑ کی ہیں جن میں بڑا حصہ صحافیوں کے لیے ٹکٹوں اور ہوٹل اخراجات پر مشتمل ہے۔

پھر ایک بڑی رقم ایک سرکاری تحقیقی ادارے کے لیے ہے اور ایک بڑی رقم سپریم کورٹ کے کسی میڈیا کمیشن کے کھاتے میں بھی ظاہر کی گئی ہے۔میرے نام پر اڑھائی لاکھ کی رقم دکھائی گئی ہے جو مجھے ٹائپ کی غلطی نظر آتی ہے کیونکہ مجھے یہ رقم پندرہ برس سے چلنے والی اپنی ویب سائٹ ملت آن لائن کے لیے ملی۔ میں نے وزیر اعظم ، سیکریٹری اطلاعات اور پی آئی او سے بارہا مل کر درخواست کی تھی کی جس طرح اخبارات اور نجی ٹیلی ویژنوں کو سرکاری اشتھارات ملتے ہیں ، اسی طرح ویب اخبارات کو بھی اشتھار جاری کیے جائیں،حکومتی اہل کاروں کا جواب یہ تھا کہ ایسی کوئی پالیسی نہیں ، جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ فی الحال انھیں بجٹ سے گرانٹ دی جائے اور اشتھارات کے لیے پالیسی بنائی جائے۔

میں نے متعلقہ حکام سے یہ بھی کہا کہ جس طرح آن لائن ، این این آئی اور انٹر نیوز کو تیس، تیس لاکھ اور چوبیس لاکھ سالانہ گرانٹ دینے کی منظوری دی گئی ہے، اسی طرح ویب اخبارات کے لیے حتمی پالیسی کی تشکیل تک ایسی ہی عبوری گرانٹ جاری کی جائے۔ بہرحال وزیر اعظم کی ہدائت پر دس لاکھ روپے کی خصوصی بجٹ گرانٹ کے لیے سمری تیار ہوئی ، میرے پاس اس کی کاپی موجودہے۔مگر مجھے ملت آن لائن کے لیے صرف اڑھائی لاکھ روپے کا کراسڈ چیک موصول ہوا۔ میں یہی سمجھا کہ سمری میں کٹوتی کر دی گئی ہو گی۔اب یہ چیک میرے نام سے ظاہر کیا گیا ہے، میں ان سطورکے ذریعے وزارت اطلاعات، فاضل عدالت اور پورے میڈیا سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے ریکارڈ میں ٹائپ کی یہ غلطی درست کر لیں۔میرے پاس کراسڈ چیک کا نمبر اور ملت آن لائن کے اکاؤنٹ میں اس کے جمع ہونے کا ریکارڈ موجود ہے۔

خفیہ فنڈ میں بیمار صحافیوں یا ان کی وفات کی صورت میں ان کی بیواؤں کے لیے بھی کچھ رقم کا تذکرہ ہے۔یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ملک میں بہت کم اخبارات ایسے ہیں جن میں سوشل سیکیورٹی کا رواج ہے اور صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے علاج معالجے کے اخراجات ان کا ادارہ برداشت کرتا ہے۔ پچھلے چھ سات برس سے عملی طور پر بستر سے چپک کر رہ گیا ہوں۔

ظاہر ہے علاج معالجہ میری ضرورت ہے، امریکا اور یورپ میں تو ہر شہری کو علاج معالجے کی سرکاری طور پر سہولت حاصل ہے، بزرگ شہریوں کے اور بھی زیادہ حقو ق ہوتے ہیں ،محکمہ اطلاعات کے خلاف رٹ میں پہلا کام یہ ہوا کہ یہ اکاؤنٹ منجمد کر دیا گیا ۔میں نہیں جانتا کہ موجودہ وزیر اطلاعات نے گلوکارہ ریشماں کے علاج کے لیے پانچ لاکھ روپے کس مد سے ادا کیے ۔ اگر یہ فنڈ واگزار ہو گیا ہے تو عارف نظامی صاحب میرے علاج کا بھی بندوبست فرمائیں۔

ان کی وزارت کے حکام اور بعض مخیر صاحبان کا مجھے تعاون حاصل رہا ہے، ان کی فہرستوں کا انتظار ہے ۔ویسے آیندہ سے وزارت اطلاعات کو چاہیے کہ وہ ہر ضرورت کا فنڈ خفیہ کے بجائے علانیہ ہیڈ میں پارلیمنٹ سے منظور کروائے۔ صوابدیدی فنڈ تو کسی محکمے کے پاس نہیں ہونا چاہیے اور ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈ کا اجرا مکمل طور پر بند کر دینا چاہیے۔جنرل ضیاء الحق نے اسے کلہ فنڈ قرار دیا تھا، ان دنوں یہ لاکھوں میں تھا ، اب یہ کروڑوں میں ہے۔

اور تقریبا ایک ہزار ارکان اسمبلی اس بہتی گنگا میں اشنان کرتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ فوج کا بجٹ پارلیمنٹ میں آنا چاہیے، اصول تو یہ ہے کہ آج صحافیوں کے اخراجات ویب سائٹ پر آئے ہیں ، آیندہ ہر ریاستی اور حکومتی ادارے کے اخراجات ایک ایک تفصیل کے ساتھ ویب سائٹ پر آنے چاہئیں تا کہ عام آدمی کو پتہ چل سکے کہ کون سا افسر یا اہل کار قومی خزانے سے کیا لے رہا ہے اور اس کے عوض ملک اور قوم کی کیا خدمت کر رہا ہے۔

پیسے بٹورنے کا ذریعہ صرف قومی یا صوبائی بجٹ ہی نہیں ، غیر ملکی امداد بھی شامل ہے اور اب تو کیری لوگر بل کے تحت امریکی ڈالر براہ راست عوام کو دیے جا رہے ہیں، بیرونی سفارتخانوں خاص طور پر کینیڈا،جرمنی،برطانیہ اور بھارت کی طرف سے کیا بندر بانٹ ہوتی ہے، اس کی معلومات بھی عوام تک پہنچنا ضروری ہیں۔این جی اوز کیا گل کھلا رہی ہیں اور کتنا مال ڈکار رہی ہیں ، ان سے باز پرس بھی ہونی چاہیے۔

خفیہ لسٹ میں بعض بڑے اخراجات بھی شامل ہیں، میرا خیال ہے کہ جب وزارت کے پاس متعلقہ مد میں بجٹ ختم ہوجائے تو وہ صوابدیدی فنڈ سے خرچ کر لیتی ہے۔صحافیوں سے خصوصی اسائنمنٹ کروانا وزارت کی ضرورت ہے، صحافیوں کی نہیں۔ جو تجربہ پرانے صحافیوں کے پاس ہے ،اس سے بہرہ مند ہونے میں حرج کیا ہے۔

لیکن یہ درست ہے کہ اس پر خفیہ فنڈ کے بجائے علانیہ فنڈ خرچ ہونا چاہیے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ مجھے بھی اخبارا ت اور ٹی وی کی طرح معمول کے اشتھاری بجٹ سے ادائیگی کی جاتی، مجھے تو کراسڈچیک ملا ، خدا جانے یہ کس مد سے آیا، اس پر خفیہ فنڈ تو نہیں لکھا تھا۔کئی صحافیوں نے وضاحت کی ہے کہ وہ فلاں دورے میں شامل ہی نہیںہوئے مگر ان کا نام فہرست میں موجود ہے۔اب اخبار نویسوں کو کھانے کھلائے گئے وہ خفیہ فنڈ میں چلے گئے، اب میں نے توسرکاری تقاریب میں آنا جانا چھوڑ دیا ہے۔

نگراں وزیر اعلی کے کھانے میں نہیں گیا ، نہ وزیر اطلاعات کی بریفنگ میں حاضر ہوا، نہ صدر صاحب کے بلاول ہاوس میں حاضر ہوا اور نہ اپنے محبوب جرنیل کیانی کی دعوت قبول کی کیونکہ ان پر جو اخراجات ہو رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس مد سے ہو رہے ہیں،انسان احتیاط ہی کر سکتا ہے۔میرا خیال ہے آیندہ کوئی صحافی کسی سرکاری تقریب میں شامل نہیں ہو سکے گا۔ عزت ہر ایک کو پیاری ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔