ہم نہیں، توکچھ بھی نہیں

کشور زہرا  بدھ 24 اپريل 2013

120گز کے کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، جب کہ میری آمدنی صرف 10 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ سرکاری اسکول ویران پڑے ہونے کے سبب میرے2 بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، جن کی فیسیں میری اوقات سے زیادہ اور انھی نے مجھے مقروض رکھا ہوا ہے۔

ایک بیٹی کالج میں زیرِ تعلیم جس کی شادی کے بارے میں سوچنے پر غربت نے پہرے بٹھائے ہوئے ہیں جب کہ ایک بیٹا دو برس قبل فارغ التحصیل ہو کر جو ڈگری ہاتھ میں لیے روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے اور اب مجھ سے سوال کرتا ہے کیا یہ ڈگری کہیں بِک سکتی ہے؟ یا اس کا مستقبل رَدی کی ٹوکری ہی ہے، اب میں اس سے کیا کہوں کہ ڈگری نہ ہونا اتنا بڑا جرم کہ عدلیہ نے اچھے اچھوں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے، کیونکہ ڈگری ایک ضرورت تھی لیکن وہ جو لکھ پڑھ نہ سکے، جعلی ڈگریاں بنوا کر جرم کے مرتکب ہوئے لیکن جس نے اس جرم سے بچنے کی کوشش کی اور سترہ اٹھارہ برس لگا کر خون پسینے کی کمائی سے اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیمی اخراجات پورے کیے اور اصل ڈگری حاصل کر لی وہ بھی مجرم ٹھہرا، کیونکہ وہ بھوکا ہے، ننگا ہے، بے روزگار ہے اور اس کے پاس اس ڈگری کا نتیجہ ہاتھ میں ڈھاک کے تین پات سے زیادہ نہیں۔

یہ عوام کے اس طبقے کا چہرہ ہے جو سفید پوشی قائم رکھ کر سر اٹھا کر چلنا چاہتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی بالکل غربت کی لکیر کے نیچے ایک بہت بڑی تعداد جس کے پاس 120 گز کا مکان تو کیا سر ڈھانکنے کو چھپر بھی نہیں، اسکول کجا ان کے بچے چھ سال کی عمر سے ہی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، کوڑا چُنتے، قالین بُنتے، کڑی دھوپ میں بھٹے پر اینٹیں بناتے نظر آتے ہیں، بنیادی ضروریات سے بھی محروم زندگی بسر کرنے والا یہ طبقہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

اُن بڑے بڑے سیاسی جغادری نمایندوں کے لیے جو یہ بھی نہیں جانتے کہ بھوک کس چڑیا کا نام ہے؟ بیروزگاری اور فاقہ کشی کسے کہتے ہیں؟ بچہ کیوں فروخت کر دیا جاتا ہے؟ یا بغیر دوا کے بیمار کیسے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے؟ جب کہ ہمارے ہی ایوانوں میں بیٹھنے بیشتر وراثتی، اپنی نسل در نسل چلنے والی سیاست جس میں ان کے بچوں کے مستقبل کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی محفوظ بنا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس وڈیرانہ و جاگیردارانہ نظام کے حساب سے پہلے دادا حکمران ہوا کرتا تھا پھر باپ بنا ۔۔۔ اب بیٹا ۔۔۔ اور آنے والی کل پوتے کے لیے مختص ہے اور یہی طرزِ عمل اس معاشرے کا وہ خطرناک پہلو ہے جس میں ان دو فیصد اور اول الذکر اٹھانوے فیصد کا فرق وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

اب اگر ہم گزشتہ چھ دھائیوں کی طرف مڑ کر دیکھیں تو ترقی تو کجا، اس اٹھانوے فیصد کی تنزلی ہی تنزلی نظر آتی ہے۔ اس کے تدارک کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی حقیقت کو منوانے کے لیے اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانا اور سمجھا جائے اور انتخاب انھی افراد کا کیا جائے جو آپ کے جیسے مسائل سے گزر چکے ہوں، تبھی وہ آپ کی مشکلات کا حل نکال سکیں گے، دوسری لازمی شرط یہ کہ وہ منتخب ہونے کے بعد آپ کی دسترس میں بھی ہوں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ ہی میں سے ہوں۔

اس زمینی حقیقت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھا جائے گا، تو بہتری کے امکانات ہو سکتے ہیں، ورنہ ہم اور آپ جو کسی ملک یا ریاست کی اصل حقیقت اور قیمتی سرمایہ ہیں ان دو فیصد لوگوں کی گرفت میں ایسے ہی بندھے پڑے رہیں گے جیسے کسی شیرِ ببر کو پنجرے میں قید کر کے کسی چڑیا گھر میں بٹھا دیا جائے اسی طرح معصوم عوام کی ایک بہت بڑی تعداد وڈیروں اور جاگیرداروں کی کچھاروں میں قید ہے۔ میری اور آپ کی یعنی ’’عوام‘‘ کی طاقت اپنی جگہ مگر یہ فرسودہ نظام ہمارے لیے سنگلاخ پنجرے سے کم نہیں۔ لیکن اب نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آ گیا ہے ، کیونکہ جب تبدیلی آئے گی تبھی آپ کے بچے کا وہ اسکول جس میں آج وڈیرے کی بھینسیں بندھی ہوتی ہیں، صحیح درسگاہ بن سکے گا۔

آپ کا نوجوان اگر تعلیم و ہنر کے میر ٹ پر ہے تو وہ بے روزگار بھی نہیں ہو گا مگر اس کے لیے سبز باغ دکھانے والوں سے دامن بچا کر اپنے جیسوں کو ہی نچلی سطح سے اوپر تک کے ایوانوں میں اپنا نمایندہ بنانا ہو گا۔ گو کہ اس وقت بھی اس صفت کے لوگ ایوانوں تک پہنچے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ، مگر اس نمک سے سیاست کے ذائقے میں کم از کم تبدیلی ضرور آئی ہے کہ پورے پاکستان ،کراچی سے لے کر خیبر تک بشمول گلگت و کشمیر اور بلوچستان کے ، استحصالی طبقے نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہر فرد اپنی اور اپنے مسائل کی نمایندگی کسی ایسے کو ہی سونپنا چاہتا ہے جو اس کی ضرورت کو، اس کے درد کو اور اس کے مسائل کو بخوبی سمجھ سکے۔ اس کا منتخب نمایندہ اس کے اپنے حلقے میں موجود ہو، نہ کہ اسلام آباد کی پُر تعیش فضائوں میں بسیرا کر لے۔ جو پاکستانی سیاست کی پریکٹس رہی ہے۔ کیونکہ ووٹر وں اور منتخب نمایندوں کی دوری نے فرسٹریشن کو جنم دیا ہے۔

وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ منتخب نمایندے ایوانوں میں ہوں تو ایسی قانون سازی کریں کہ کچلے ہوئے طبقے کو اس کا حق دلوا سکے۔ اور حلقوں میں بیٹھیں تو ان قوانین کے نفاذ کو ممکن بنائے تا کہ عوام کو انصاف مل سکے ، اپنی کاوشوں سے حکومت اور بیوروکریسی کی راہ داریوں کی تنگی کو کم کریں تا کہ مسائل کی شنوائی ہو سکے، یہ سب حاصل کرنے کے لیے بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ اپنا نمایندہ اپنے میں سے منتخب کریں کیونکہ متوسط طبقے کی نمایندگی نے یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ وہ اٹھانوے فیصد کے لیے اپنی کارکردگی سے امید کی روشنی بنیں اور فرسودہ، سیاسی گھٹے ہوئے نظام میں آکسیجن کا کام کیا۔ تا آنکہ اس روشنی کو ملک میں چار سو پھیلانے کے لیے اور تنو مند بنانے کے لیے ہمیں آگے بڑھ کر فیصلے اپنے حق میں کرنے ہوں گے کیونکہ بحیثیت عوام ’’ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔