میرے عزیز ووٹرز

جاوید قاضی  جمعرات 31 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میں ادنیٰ شہری ہی سہی اور میں یہ کہنے سے قاصر ہوں کہ میرے عزیز ہم وطنو ! یا یہ بھی کہنے سے قاصر ہوں کہ میرے پیارے بھائی اور بہنو ۔ میں کسی اسٹیج پر بھی نہیں کہ میرے سامنے عوام ہیں ۔ میں توایک ادنیٰ اور عام آدمی ہوں آپ جیسا لیکن میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں مخاطب ہونا چاہتا ہوں آپ سے کہ الیکشنز اب قریب ہیں، یہ دور ووٹرزکا دور ہے۔ ہم ووٹرز جو اس مملکت خداداد میں طرح طرح سے بٹے ہوئے ہیں۔ یہ بٹوارے کہیں کہیں فطری اور حقیقی بھی ہیں ،کہیں رجعتی، مفاد پرست، ذات پات و جبلتی بھی ہیں۔

یاد رکھیے کہ ہم سب صرف ووٹرز ہیں ، ہم الیکشن میں کھڑے نہیں ہوسکتے ۔ یوں تو ایک چھوٹا سا پروسیجر ہے اتنا مہنگا بھی نہیں الیکشن میں کھڑا ہونا مگر الیکشن لڑنا امیروں کا کھیل ہے۔ بیس بیس کروڑ قومی اسمبلی اور دس دس کروڑ صوبائی اسمبلی پر ۔یہ جو ہمارا پارلیمان ہے اور یہ جو کہتا ہے کہ ان کا جھگڑا خلائی مخلوق سے ہے ، ان کے اس خلائی مخلوق کے جھگڑے کے حوالے سے میں پارلیمنٹ کے ساتھ ہوں۔

یوں مان لیجیے کہ وہ بھی خلائی مخلوق ہیں یہ جو ہم سے ووٹ لیتے ہیں ۔ یہ سب ہم میں سے نہیں کیونکہ یہ ووٹ لیتے ہیں اور ہم ووٹ دیتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ ایوانوں میں میں چلے جاتے ہیں اور ہم کو بھول جاتے ہیں ۔ ایک فاصلہ سا آجاتا ہے، دوریاں سی رہ جاتی ہیں اور ہم وہیں کے وہیں فیض کی ان سطروں کی طرح

زرد پتوں کا بن

جو میرا دیس

درد کی انجمن

جو میرا دیس

میں کہاں میٹرو بس میں بیٹھوں گا اور کہاں اورنج ٹرین میں سفر کروں گا۔ سنا ہے پنجاب کا 90% بجٹ لاہور پر خرچ کیا جاتا ہے اورکراچی جو پورے پاکستان کو اپنی جیب سے بھر کردیتا ہے۔ اس کا عالم بھی آپ خود ہی دیکھ لیں۔ اب کراچی کے ہر گھر میں موٹر سائیکل کی شکل میں اپنے گھرکو سواری مہیا کردی ہے بلکہ ہر گھر میں جتنے افراد اتنی موٹر سائیکلیں۔ پورے کراچی میں موٹر سائیکلز کی بھرمار ہے اور ان پر ٹریفک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ بدترین ٹریفک نظام کی وجہ سے یہ شہر بجائے پھیلے، صرف اونچائی کی طرف جا رہا ہے، بڑی بڑی کئی منزلہ عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں۔

مجھے پینے کا صاف پانی چاہیے، بچوں کے لیے بہترین نظام تعلیم چاہیے۔ یہ ہمارا پارلیمان جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خلائی مخلوق نہیں بلکہ ہم میں سے ہے ان سے ایک سوال ہے کہ آخر میرے پینے کا صاف پانی کہاں جاتا ہے؟ میرے اسپتالوں سے دوائیاں کہاں جاتی ہیں؟ بہترین نظام تعلیم کیوں مہیا نہیں؟ خلائی مخلوق یا نیم خلائی مخلوق ؟ ایک خلائی مخلوق ہے تو دوسرا نیم خلائی مخلوق ۔ وہ بھی ہم میں سے نہیں اور یہ بھی ہم میں سے نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کو ہمارے ووٹ کی ضرورت نہیں اور ایک کو ہمارے ووٹ کی ضرورت ہے۔

میرے عزیز ووٹرز ، کتنا بدل گیا ہے پاکستان، یہ بھی حقیقت ہے بھلے سادہ ہی سہی ۔ اب یہ انتخابات 1990 ء کے انتخابات کی طرح ہائی جیک نہیں کیے جاسکتے۔ وہ خلائی مخلوق جو1990 ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے کام آئی تھی اب وہ موجود نہیں۔ نہ کوئی مہران بینک ہے اور نہ جنرل درانی اور نہ ہی جنرل بیگ۔ فرض کرلیجیے اگر ہے بھی تو بھی الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوسکتی۔

اس دفعہ دھاندلی کا معیار کچھ مختلف ہے۔ مختلف انداز سے یوں کہ میرے سندھ کے غریب دہقان الیکشن میں ووٹ اسی پارٹی کو دیں گے جس پارٹی کے پاس پاور ہوگی، پولیس اور کچہری ہوگی، کمدار ہونگے،کھانے کے لیے مرغ مسلم ہوگا، پیجارو اور لگژری گاڑیاں ہوں گی اور ان گاڑیوں کے پیچھے لمبا پروٹوکول ہوگا۔یہ غریب دہقان ہاتھ جوڑ کر انھیں کو ووٹ دے آئیں گے۔ لیکن ہمارے حکمران یہی چاہتے ہیں کہ یہ غریب اسی ابتری اور بدحالی کا شکار رہیں تاکہ ان کا ووٹ بینک محفوظ رہے۔

اگر یہ دہقان پڑھے لکھے ہوں، ایک مضبوط مڈل کلاس ہوں یا لندن کے شہری ہوتے تو کیا ہر دفعہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتے؟ْ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں سندھ کی ترقی کے لیے ایک بھی انڈسٹریل زون نہیں بنایا کہ کہیں سندھ کے دہقان کسی نئے ہنر سے آگاہی نہ حاصل کر لیں۔ وہ ہی سندھی، ان کے وہی صدیوں پرانے ہنر، وہی ہل چلانا، وہی زمین بونا وغیرہ۔ یہ بھی ایک دھاندلی ہے ۔ کراچی کو بیانیہ دینے کے بعد جو کراچی کا حال کیا گیا وہ بھی ایک دھاندلی ہے۔

میرے عزیز ووٹرز! قصور کسی کا بھی نہیں۔ قصور میرا اور آپ کا ہے ہم ووٹ کی اہمیت کو نہیں جانتے۔ کون جائے صبح سویرے اٹھ کر بیلٹ باکس کی قطار میں کھڑے ہوکر ووٹ دینے کے لیے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ووٹ دیں یا نہ دیں انھیں حکمرانوں نے واپس آنا ہے۔ یہی خلائی مخلوق ہمارے ملک کا مقدر ہے۔ ہمیں شاید اپنے ووٹ کی افادیت کا علم ہی نہیں۔ اس وقت ہمارا فریضہ یہ بنتا ہے کہ گلی گلی اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ایک نئی سوچ کی آگاہی دیں کہ ہمارا ووٹ ایک قیمتی اثاثہ ہے اس اثاثے کو چونی اٹھنی اور روپے میں نہیں تولنا۔ یہ ووٹ ہماری آئندہ نسلوں کا امین ہے ان کی خوش آئندہ زندگی کی ضمانت ہے۔ ہم اس ووٹ کے استعمال میں مزید لاپرواہی نہیں برت سکتے ۔ یہی ووٹ ہے جس کے تحفظ سے نکلے گا آئندہ کا پاکستان۔

میرے عزیز ووٹرز! ایک مرتبہ آتے ہیں عام انتخابات پانچ سال کے عرصے میں،کیا ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم بڑھ چڑھ کے حصہ لیں۔ ہر امیدوار کو سنیں اور طے کریں کہ ہمارے آئندہ سالوں میں کونسا حکمران ہمارے ملک ،صوبے اور شہر کے لیے بہترین ثابت ہوگا اس طرح نہ صرف ہم اپنے ووٹ کا بہتر استعمال کر سکیں گے بلکہ اس طاقت کا استعمال بھی بہتر انداز سے کر سکیںگے۔

مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس بار بھی اسی نیم خلائی مخلوق نے اقتدار میں آنا ہے ۔ ایک ہی اشرافیہ ہے چاہے وہ اس پارٹی میں ہو یا اس پارٹی میں جائے۔ یہ پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور کریں گے۔ اس بات پر اگر غور کیا جائے کہ کونسی پارٹی ہے جو آپ کو اور مجھے سیٹ دیتی ہے؟کسی عام آدمی کو ٹکٹ دیتی ہے؟ یہ ٹکٹ صرف اسی اشرافیہ کو دی جاتی ہے۔ ان سب کے مفادات اپنے اپنے ہیں بظاہر چاہے وہ کتنا ہی ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات رکھتے ہوں۔

بات سمجھنے کی صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کا معیار بھی مختلف ہے یہاں جمہوریت تو ہے لیکن جمہوریت کے اقدار بہت ہی کمزور، پسماندہ اور خستہ ہیں اور ان کمزور اقدار کی ذمے دارہماری سیاسی قیادت ہے۔ اب ایک سفر ہے ایک سیاسی قیادت سے ایک نئی سیاسی قیادت کی طرف اور اس نئی قیادت کا وجود میرے ووٹ کی طاقت سے ہی عمل میں آئے گا۔

میرے عزیز ووٹرز! آئیں آج اپنے ووٹ کو شعور دیں ۔ پاکستان اس وقت بہت سے بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو ضایع نہ ہونے دیں، کیونکہ اس ووٹ کے تحفظ سے آپ اپنے آئندہ نسلوں کا تحفظ کریں گے۔ اسی ووٹ سے جنم لے گا ایک بہتر پاکستان بحرانوں سے پاک پاکستان۔کیونکہ اب کوئی گنجائش باقی نہیں کہ ہم پاکستان کو کسی پرانی قیادت کے حوالے کر دیں جن کو اپنے مفادات قوم کے مفادات سے زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی وراثت میں دبئی کی کمپنیز اور لندن کے فلیٹس شامل ہیں۔ جن کی رہائش ایکڑوں میں پھیلے گھروں میں ہے اور جن کے ٹیکس کی ادائیگی فقط روپوں میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔