نسلی و مذہبی دہشت گردی؛ تدارک کیسے؟

عمران شاہد بھنڈر  جمعـء 1 جون 2018
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

ایک بات تو طے ہے کہ اگر پاکستان میں اقلیتوں پر کوئی ظلم مسلط ہوتا ہے تو اس کی بازگشت اور اس کے اثرات دیر تک سنائی دیتے ہیں ۔  پاکستان بدقستمی سے ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں  دہشتگردی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

سماج میں گھومنے والا میرے جیسا انسان اس احساس کے زیرِ اثر اپنی زندگی گزار دیتا ہے کہ اس ملک میں ریاست کا وہ وجود کہاں پر ہے، جو عوامی حقوق کے تحفظ کی ذمے داری  جیسا کہ روزگار، صحت، تعلیم، رہائش کے مواقعے  مہیا کرنا تو بہت دورکی بات ہے،کم ازکم مبنی بر امن وہ حالات ہی مہیا کردے کہ جن میں لوگوں کو اپنی جان کی بقا کے حوالے سے کچھ خود اعتمادی مل سکے۔

ایک احساس جو دلوں پر نقش ہوتا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کس آزاد روح اور ذی شعورکی زندگی کسی بھی وقت موت میں بدل سکتی ہے۔ اس معاشرے میں بظاہر پڑھے لکھے لوگ جوکہ جامعات سے وابستہ ہیں، جو ریاست کے مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں، ان کے اندر سے کب اورکس وقت دہشت گرد برآمد ہوجائے، ان کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب کسی ایسے شخص کی موت کا پروانہ جاری کر دیں، محض اس بنیاد پرکہ کوئی وہ آپ کے موقف سے متفق نہیں ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز پر جب انسان کے پاس سچائی اور جھوٹ کو الگ کرنے کے بہت سے فکری و فلسفیانہ طریقہ کار دریافت ہوچکے ہیں کہ مکالمے کو موثر طریقے سے فروغ دیا جاسکتا ہے، تاہم ہمارے ہاں آج بھی ساری ترجیح یہی ہے کہ دلیل و براہین کی جگہ ’ گولی ‘ کی حکومت قائم کی جائے۔ یہاں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک ایسی ترتیب قائم ہے کہ ہر ظالم اپنے سے کمزور پر ظلم کرتا ہے اور وہ مظلوم جو طاقتور ظالم کا ظلم سہتا ہے وہ اپنے سے کمزور پر ظلم کر کے اسی ظلم کو دہراتا ہے۔

سیاسی حوالے سے عام انسان سے کونسلر تک اورکونسلر سے شروع کرکے وزیر، وزیراعلیٰ اور پھر وزیرِ اعظم تک سبھی ایک ہی رویے کی گرفت میں ہیں ۔ دہشت گردی کم و بیش سبھی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ جو برسرِ اقتدار ہے وہ ریاستی اداروں کے ذریعے عوام پر دہشت مسلط کرتے ہیں ، جو مختلف تنظیموں کے سربراہ ہیں ان کے قہر کا شکار بھی عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔

محفوظ اگرکوئی ہے تو وہ ہیں مختلف اداروں پر براجمان حکمران، تاوقتیکہ حکمرانوں کے درمیان  سیاسی، معاشی یا نظریاتی غلبے کی خاطرکوئی ایسی دراڑ نہ پیدا ہوجائے کہ ایک دوسرے پر دہشت مسلط کرنا لازمی ٹھہرے۔ مجموعی طور پر عوام پر برپا کی گئی دہشت گردی کی ذمے داری صرف اور صرف حکمران طبقات کی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی سرمایہ دار حکمرانوں اور اس خطے میں سامراجی مفادات کو’’تحفظ‘‘ دینے کی خاطر برپا کی گئی جنگوں اور ان جنگوں کے نتیجے میں آئیڈیالوجی بنیادوں میں دہشت گردی کے رجحان کو ابھارا گیا ہے۔ بعد ازاں دہشت گردی کے رجحان کو اس حد تک پختہ کرکے لوگوں کے اذہان میں راسخ کر دیا گیا کہ بطورِ ایک آئیڈیالوجی کسی بھی جگہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ کرکے کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی ویسے تو غیر ریاستی بیانیہ ہے، اس کی جڑیں تنظیمی اور انفرادی رویوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہیں، جب کہ ہزارہ کے معصوم لوگوں کا قتلِ عام کوئی باقاعدہ تنظیمی کارروائی لگتی ہے۔

اب صورتحال بہرحال یہ ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر دہشت گردی سرمائے کو تحفظ دینے والا سب سے موثر نظریاتی ہتھیاربن چکا ہے اور یہ ساری دہشت گردی مذہب کے نام پر ہی برپا کی جارہی ہے اورسامراجی مفادات کے برعکس یہی دہشت گردی اس خطے میں جنگوں کا جواز بن کر اہل اقتدار کی حاکمیت سے لے کر معاشی و نظریاتی غلبے کا جواز بھی بن گئی ہے۔ تاہم اس خطے میں برپا کی جانے والی دہشت گردی کے امریکا اور مغربی ممالک پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں رہنے والے مسلمان، ہندو، سکھ اور دیگر ایشائی لوگ مغربی و امریکی نسل پرستی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

اس موضوع کو مفصل طریقے سے سمجھنے کے لیے مغربی مفکروں، صحافیوں اور دیگر سماجی تنظیموں کی کتابوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ مغرب و امریکا میں جو قتال یا جرائم ہوتے ہیں ان کی نوعیت مذہبی کے برعکس نسلی ہوتی ہے۔ وہ لوگ مذہب پوچھ کر نہیں بلکہ رنگ، نسل کی شناخت کرکے موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔

بی بی سی نے دو ہزار بارہ میں ایک رپورٹ شایع کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں ہر برس پانچ لوگ نسلی بنیاد پر قتل کر دیے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ان تمام لوگوں کی تفصیل بھی پیش کی گئی تھی، جن کو مختلف اوقات میں قتل کیا گیا تھا ۔ نکتہ میرا پھر وہی ہے کہ جب بھی کبھی ایسا نسل پرستانہ قتل ہوتا ہے تو یہاں کے مقامی لوگ اس قسم کے فضول ڈائیلاگ نہیں بولتے کہ’’ ہم‘‘ نے اتنے افریقی، اتنے پاکستانی، اتنے ہندوستانی قتل کر دیے، بلکہ واضح طور پر ان تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے جو قتال میں شامل ہوتی ہیں  اور اگر نسلی قتل کسی فردِ واحد کا کارنامہ ہو تو پھر بھی اس کی نفسیاتی حالت کو مشکوک قر ار دے کر یا کوئی اور بنیاد بنا کر خود کو اس سے ’’الگ‘‘ ہی رکھا جاتا ہے۔

جب آپ بی بی سی کی رپورٹ پڑھتے ہیں کہ جس کے تحت انیس سو تیرہ سے دو ہزار بارہ تک چھیانوے قتل نسل پرستی کی بنیاد پر کیے گئے تھے، تو آپ اس رپورٹ کو پڑھ کر اگر یہ جملہ ادا کریں گے کہ ’’ہم‘‘ نے ان کا قتل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نسلی دہشت گردوں کا حصہ ہیں ۔ اصول یہ ہے کہ خود کو ان سے الگ کرکے ان کے نسلی یا ان کے مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے قتل کی حوصلہ شکنی کی جائے، نہ کہ ان کا حصہ بننے کے جذبہ ندامت کو قبول کر لیا جائے

۔ یہ طفلانہ فقرے ادا کر کے کہ ہم نے فلاں فلاں معصوم انسان کو قتل کر دیا، بات کو پیچیدہ اور مبہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند منٹ کے لیے فرض کر لیجیے کہ نسلی، یا مذہبی دہشت گردی کا شکار بننے والے کسی انسان کے لواحقین اگر آپ کو اپنے بچے کا نسلی یا مذہبی قاتل قرار دیں توکیا آپ یہ تسلیم کریں گے کہ آپ حقیقت میں ان کے بچے کے اصل قاتل ہیں، یا پھر آپ انھی کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے ہم مذہبوں اور اپنی ہی نسل سے تعلق رکھنے والوں کا کھوج لگائیں گے، یا ایسے حالات کو پیدا کرنے کے لیے احتجاج برپا کریں گے، ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جن میں مزید قتال کا امکان نہ ہو؟

بات صرف یہ ہے کہ انسانوں کی جان کے تحفظ جیسے اہم اور سنجیدہ مسائل کو ہندوستانی فلموں یا ڈراموںکے مناظرکی روشنی میں حل نہیں کیا جاسکتا کہ جن میں مظلوم اپنا ہی گریبان پکڑکرکہتا ہے کہ وہ خود ہی اس ظلم کا ذمے دار ہے۔ضروری یہ ہے کہ ظلم و دہشت کے ماخذات کا سراغ لگا جائے، ان کی تہہ تک پہنچا جائے۔

ایک بار ان کی بنیادوں کی شناخت کرکے ان کے انہدام کی کوشش صدقِ دل سے کی جائے، تبھی دہشت پسندی کے اس مسئلے سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے۔ تاہم جس نظام میں ہم رہتے ہیں، وہ طبقات میں بٹا ہوا ہے، جس میں مختلف قومیں، مختلف مذاہب، مختلف فرقے اور لوگوں کے مابین لسانی اور علاقائی امتیازات موجود ہیں۔ اب صورتحال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ دہشت گردی قومیت، مذہبیت، زبان، فرقہ پروری وغیرہ کا ہتھیار بن چکی ہے۔

اب اس کو خاتمے کی خواہش کے برعکس اس کو زندہ رکھنا  ضروری سمجھا جاتا ہے ۔یہ نظریاتی ہتھیار کے طور پر اپنی طاقت کے حصول اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دہشت گردی اقتدار کو مضبوط کرتی ہے اور حکمرانی دہشت گردی کو تقویت دیتی ہے، یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے آکسیجن کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں انتہائی گھناؤنے تضادات کا شکار ایک ابھرتی ہوئی سرمایہ دارانہ ریاست دہشت گردی کو ختم کر پائے گی جس کا اپنا وجود ہی دہشت گردی کے فروغ سے جڑا ہوا ہے؟

اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نظریاتی شناختیں بشمول قومی، لسانی، مذہبی، علاقائی وغیرہ جو طبقاتی امتیازات کو قائم رکھتے ہوئے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ ان کو بالائے طاق رکھا جائے اور طبقاتی شناخت کے احساس کو ابھار کر ظالم اور مظلوم، حق اور باطل، استحصالی اور استحصال زدہ جیسی اصل شناختوں کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ بصورت دیگر ظلم، تشدد، دہشت، جبرو استحصال وغیرہ کی افزائش کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔