کہیں سے کوئی حرفِ معتبر شاید نہ آئے

شاہد سردار  اتوار 3 جون 2018

ملک کی سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان مسلسل بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ہر ہوش مند پاکستانی کے لیے بجا طور پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ملکی منظرنامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وقت کی رفتار پاکستان میں اس وقت بہت ہی تیز ہے۔ ہماری 71 سالہ تاریخ میں شاید ہی کبھی لمحے اتنی تیزی سے دوڑے ہوں گے۔

اتنا ہنگامہ، اتنا سنگین سیاسی داخلی اور خارجی بحران، انگریزی اخبار کو دیا گیا نواز شریف کا انٹرویو پڑھنے کے بعد لگا کہ وہ مکمل طور پر جنگی رویے پر اتر آئے ہیں اور وہ ضد اور انتقام کے راستے پر گامزن اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے درپے دکھائی دیتے ہیں اور اس حوالے سے وہ روایتی سیاست دانوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں، ان کے بھائی اور ان کی پارٹی دانتوں میں انگلی دبائے سکتے میں دکھائی پڑے اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بیانیہ کہ ’’ان کا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے اور وقت آنے پر وہ زبان کھول سکتے ہیں۔‘‘ (ن) لیگ کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان سب عوامل کی تردید کرتے رہے۔ لیکن یہ سب جو بھی ہوا بہت برا اور بہت برے وقت پر ہوا ہے۔

مہذب ملکوں میں تو ایسی صورتحال میں وزیراعظم استعفیٰ دے دیا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ ہر مہذب جمہوری ملک نہیں ہے۔ اور یہ تلخ بات جس کرب سے ہم کر رہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ 71 سال بعد قومیں پختگی اور بلوغت کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہو پا رہا۔ طرفہ تماشا یہ کہ ادھر ادھر، کونے کھدرے، رسائل اور جرائد میں ’’غدار۔ غدار‘‘ کی گردان سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہی ہے۔

تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک قوم کا غدار دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ایک دور کا غدار دوسرے عہد کا محب وطن یا ایک دور کا سب سے بڑا محب وطن دوسرے دور کا غدار کہلایا جاتا ہے۔ جہاں آزادی کی جنگیں ’’غدر‘‘ کہلاتی ہوں وہاں ہیرو غدار اور غدار راتوں رات محب وطن ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں ’’غدار، غدار‘‘ کی صدائیں یا ان کی بازگشت اور سیاسی افق پر حد درجہ پھیلا اشتعال اور تو تو میں میں کا یہ کھیل اس وقت گرم ہے جب کہ امریکا، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدگی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور یہ تینوں ملک ہمارے ہاں پوری قوت سے سیاسی بنیادوں پر نفرتوں کو نہ صرف ہوا دے رہے ہیں بلکہ خوں ریزی اور بدامنی کی طرف تیزی سے لے جانے میں مصروف ہیں۔ ملکی معیشت پہلے ہی تباہی کی طرف گامزن ہے اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہائی کی صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے۔

اس سب کے باوجود کوئی اپنے آپ کو الیکشن سے پہلے وزیراعظم کہلوا رہا ہے، کوئی وزارت عظمیٰ چھن جانے کی وجہ سے پاگل ہو رہا ہے، کوئی وزیراعظم بننے کے لیے پاگل ہو رہا ہے، کوئی ذاتی انا کی وجہ سے پاگل ہورہا ہے، تو کوئی ادارہ جاتی مفاد کی وجہ سے آپے سے باہر ہے۔ الغرض سبھی اپنے اپنے طور پر ملک دشمنوں کا کام سہل کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس پر بھی ہر کوئی اس زعم نما غلط فہمی کا شکار ہے کہ پاکستان کی فکر صرف اسی کو ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال میں جب خارجی اور داخلی مسائل سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں اور عام انتخابات صرف چار ہفتوں کی دوری پر ہیں ایسے میں وزارت عظمیٰ کی مسند پر فائز رہنے والے نواز شریف اگر متنازعہ گفتگو نہ کرتے تو بہتر ہوتا ۔ تاہم انھیں غدار قرار دینا یا ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ ہماری دانست میں انتہا پسندی ہے۔ لیکن یہ بات بڑی غور طلب، بڑی فکر انگیز ہے کہ نواز شریف پر غداری کے الزامات لگانے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب کی رائے عامہ بدل رہی ہے۔

ایک زمانے میں پنجاب کے دانشور اور سیاست دان خان عبد الولی خان ، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو غدار قرار دیا کرتے تھے۔ آج پنجاب کے اہل و دانش و سیاست پنجاب کے ہی ایک پاپولر سیاستدان کو غدار قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ نواز شریف نے اپنی سیاسی غلطیوں، حماقتوں اور حکمت عملیوں سے خود کو اور اپنی پارٹی کو جتنا اور جس قدر نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا لیا اب خاکم بہ دہن ملک کو نقصان پہنچنے والا ہے۔

غداری کے الزامات، مطالبوں اور اس کے نعروں نے آج تک ہماری تاریخ نہیں بدلی البتہ ایسے الزامات نے ہمارا ملکی جغرافیہ ضرور بدل ڈالا ہے۔ لیکن جو واقعی ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان توڑنے کا اعلان کرتے تھے ان پر کبھی کوئی مقدمہ نہ چلا۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ ابھی بھی التوا کا شکار ہے، کیونکہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پرویز مشرف کو خود پاکستان سے بھگایا۔ آج سیاست سے نااہل ہونے کے بعد نواز شریف خود غداری کے الزامات یا نعروں کی زد میں ہیں۔

ہمیں ان الزامات سے کوئی سروکار نہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو حصول زر کی ہوس اور اقتدار کی وسعت کے لیے اخلاقیات کی آخری حدوں سے نہیں گزرنا چاہیے جس ملک نے انھیں عزت، بے پناہ دولت اور بین الاقوامی شہرت دی ہو اسے صرف ’’چراگاہ‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے اور اقتدار، مال و زر، اپنی ذات اور آل اولاد کو پالنے اور بچانے کے لیے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ملک یا دھرتی کو ’’ماں‘‘ کی حیثیت بھی دی جاتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ارباب اختیار، ہمارے سیاست دان دھرتی کے احترام، اس کے تقدس، اس کے وقار اور اس کی آزادی کے تحفظ میں جان سے گزرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ اس کی توقیر کو اپنا شعار بنائیں اس لیے بھی کہ دنیا میں کوئی نہ کوئی حق چھوڑ دینا چاہیے ورنہ دوسرے حقوق سے دستبردار ہونا پڑ جاتا ہے۔

وطن عزیز میں سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے ممکن ہے کسی فریق کو کسی حد تک کوئی وقتی فائدہ حاصل ہو سکے لیکن اس صورتحال کا جاری رہنا یا وقفے وقفے سے ظہور پذیر ہونا ملک کے لیے بہرطور سخت نقصان دہ ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کو درپیش داخلی، خارجی یا بین الاقوامی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے معاملے کے تمام فریق افہام و تفہیم، حقیقت پسندی اور ماضی کی غلطیوں کی درستگی کی راہ اپنائیں کہ قومی بقا و سلامتی کو یقینی بنانے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ لیکن کیا ہے کہ اب یہ ملکی روایت سی بن گئی ہے کہ ہر اہم واقعے یا المیے پر کچھ روز شور مچا کر بالآخر خاموشی اختیار کرلی جائے۔

شاید اسی روایت کے نتیجے میں آج ہم اس مقام تک آ پہنچے ہیں جہاں ہم سے اب اپنا ہی چہرہ پہچانا نہیں جاتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی بڑی یکسانیت کا احساس ہونے لگتا ہے اور ایک ہی بات کو کہتے کہتے ہم خود شرمندہ سے ہونے لگتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہو وہاں کچھ صحیح پیش کرنے کے لیے بھی لمبی تمہید باندھنا ہی پڑتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔