تحمل، شائستگی اور برداشت

رئیس فاطمہ  اتوار 3 جون 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

دانا کہتے ہیں ’’انسان اپنی زبان میں پوشیدہ ہے‘‘ یعنی گفتگو انسان کے اندر جھانکنے کا ذریعہ ہے، سو اس کسوٹی پر جب ہم اپنی سوسائٹی کو اور سیاست دانوں کو پرکھتے ہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، برا بھلا کہنا، انھیں گالیاں تک دینا ایک باقاعدہ کلچر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کو جوتا دکھانے سے کس کی توہین ہوئی؟ ظاہر ہے جوتا دکھانے والی خاتون کی۔ ان کی تہذیب اور شائستگی کا بھرم کھل گیا۔ اسمبلیوں کا حال دیکھ لیجیے، مچھلی بازار لگتا ہے۔ تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ حرص، طمع اور لالچ نے ہوس کی صورت اختیار کرلی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے لیے یہ لوگ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، پاکستانی روپے کی قیمت کم کرکے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے انھیں فائدہ ہوگا، جو حکومت میں ہیں یا حکومت کرچکے ہیں ان کا بس چلے تو ڈالر کو بازار میں آنے ہی نہ دیں بلکہ اپنی تجوریاں بھرلیں۔

صبر و تحمل اور ایمانداری بتدریج ختم ہوئی ہے۔ برائی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے، جیسا کہ کہتے ہیں کہ مچھلی ہمیشہ سر کی طرف سے خراب ہوتی ہے، اسی طرح کرپشن اور بے حساب بے ایمانی بھی حکمران طبقوں سے عوام الناس میں در آتی ہے۔ کچھ سال پہلے تک رشوت چھپ کر لی جاتی تھی، لینے والا تھوڑا بہت شرماتا بھی تھا۔ لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے، رشوت حق سمجھ کر لی جاتی ہے۔ جب افسران کھلے بندوں رشوت لیں گے تو اس کا ماتحت عملہ کلرک سے لے کر چپراسی تک بھی باقاعدہ مانگ کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، ورنہ سائل کو کورا سا جواب مل جاتا ہے کہ ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘۔

سماج میں بالائی سطح پر ہونے والی خرابیاں بتدریج معاشرے میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں اور دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، پچھلے پندرہ بیس برسوں میں سیاست میں شائستگی اور تحمل کی جگہ بدزبانی، دشنام طرازی اور گالیوں نے لے لی ہے۔ ہر پارٹی بجائے اس کے کہ اپنا ایجنڈا پیش کرے دوسروں پر الزام تراشی سے باز نہیں آتی۔ ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی کو برا بھلا کہتی ہے، پی پی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی پر دشنام طرازی کرتی ہے۔

پی پی کی دشنام طرازی میں ایم کیو ایم سرفہرست ہے کیونکہ معاملہ کراچی کی سیٹوں کا ہے، اس لیے اردو بولنے والوں کے علاقوں میں جاکر جلسہ کرکے اور برا بھلا کہہ کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، دوسروں کی لکھی ہوئی تقریریں کاغذ دیکھ دیکھ کر پڑھی جاتی ہیں۔ سنا ہے بچے کو اردو نہیں آتی اس لیے کوئی آنٹی یا انکل اسے رومن میں لکھتے ہیں، پھر انھیں ریہرسل کروائی جاتی ہے، لیکن جہاں دوسری پارٹیوں کو برا بھلا کہنے کی باری آتی ہے تو بچہ رواں ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ چیز اسے وراثت میں ملی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ خرابیاں لاشعوری طور پر عوام الناس میں بھی سرائیت کرتی جارہی ہیں۔

حال ہی میں دو سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کے درمیان لڑائی، مارپیٹ اور دھینگا مشتی کے مناظر ٹیلی ویژن پہ سب نے دیکھے اور افسوس کیا۔ حد تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی میں ماں اور بہنوں کو بھی گھسیٹا جاتا ہے۔ عجب معاشرہ ہے کہ غلطیاں اور جرائم مرد کریں اور گالیاں ماں بہنیں کھائیں۔

شائستگی اور متانت ان جماعتوں سے کب کی رخصت ہوچکی، حزب اختلاف اور برسر اقتدار پارٹی ایک دوسرے پر حملہ کرنے میں پیش پیش ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز بھی سیاسی اکھاڑا بن گئے ہیں، ہر جماعت کے پے رول پر مقرر کارکن اور وزیر ٹاک شوز میں بھی اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کا یہ پروگرام ہر جگہ دیکھا جارہا ہے، منہ سے جھاگ اڑاتے، مغلظات بکتے ہوئے انھیں اپنی عزت کا ذرا بھی پاس نہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے ٹاک شوز کے اکھاڑے میں مختلف سیاسی جماعتیں صرف انھیں پہلوانوں کو اتارتی ہیں جن کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ یہ نہ تو مخالفین کو بولنے دیںگے نہ اینکر پرسن کو سوال کا موقع دیںگے، بس ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے میں انھیں مزہ آتا ہے، ایک دوسرے کی ذات پر رکیک حملے، دریدہ ذہنی، دشنام طرازی ان کا وطیرہ بن گئی ہے۔

کیا جمہوریت اور کیا آمریت، اس ملک میں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بس یونیفارم کا فرق ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس موقع پر سیاسی پارٹیوں کو اپنا اپنا منشور پیش کرنا چاہیے، اس کی ابتدا عمران خان نے 100 دن کا پلان دے کر کی ہے۔ ایک دفعہ پی پی نے بھی 100 دن کا پلان دیا تھا جوکہ ایک مذاق ثابت ہوا تھا۔ نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم ہے ’’ روٹی‘‘ اس میں ایک فقیر سے کسی نے چاند کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا اسے تو چاند میں روٹیاں نظر آتی ہیں۔

عام آدمی تو جمہوریت کے معنی بھی نہیں سمجھتا، اسے تو یہ فکر ہوتی ہے کہ روزگار ملے گا بھی یا نہیں؟ بچے کیا کھائیںگے، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو کیا دیا، روٹی کے بدلے گولی، کپڑے کی جگہ کفن، وہ بھی ایدھی کا دیا ہوا اور مکان کی جگہ قبریں جو چند ماہ بعد نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔

جمہوریت کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن عقل کے اندھوں کو پاکستان میں جمہوریت کہاں نظر آتی ہے، سارا راگ درباری اقتدار سے جڑا ہے، حکومت میں ہیں تو فوج بہت اچھی ہے، اس کے سامنے مودب کھڑے رہیں گے، ان کی بریفنگ بھی ہاتھ باندھ کر سنیں گے لیکن جب فوج کا بھی پیمانہ صبر لبریز ہوجائے اور وہ ملک کی سلامتی کی خاطر احتساب کے عمل کو جائز قرار دے تو فوراً تن بدن میں شعلے اٹھنے لگتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔

کیا آپ جنرلوں سے اور اپنے گاڈ فادرز سے لکھواکر لائے ہیں کہ جب تک زندہ رہیںگے اقتدار سے چمٹے رہیں گے تاکہ ملک کی دولت کو لوٹ سکیں، اپنے بینک اکاؤنٹ ملک سے باہر منتقل کرسکیں۔ نواز شریف صاحب کا واویلا بہت خوب، لیکن کیا وہ بتائیںگے کہ اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں انھوں نے شرکت کی۔

اقتدار سنبھالتے ہی بیرون ملک دورے شروع ہوگئے، اپنے ملک میں نہ بیروزگاری دور کی، نہ غربت کے خاتمے کے لیے کوئی قدم اٹھایا، یعنی مقتدر قوتوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔ سارا وقت بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں صرف کیا اور اب باقاعدہ اداروں سے لڑائی مول لے لی، صرف پنجاب کو پاکستان سمجھا اور ساری ترقی بھی پنجاب میں ہوئی اور ہورہی ہے۔

یہ ایک کھلا تعصب ہے جو تینوں صوبوں کے عوام کو نظر آرہا ہے۔ رہ گئے آصف زرداری تو انھوں نے اپنے بچے کے کاندھوں پر بھی بھٹو کی لاش کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ بینظیر اور بھٹو کب تک کام آئیںگے؟ پنجاب میں ترقیاتی کام خوب ہوا اور ہورہا ہے، ہوسکتا ہے یہ گریٹر پنجاب کا کوئی سلسلہ ہو، کیونکہ پہلے بھی یہ آوازیں اٹھ چکی ہیں، لیکن سندھ میں تو دھیلے کا کام نہیں ہوا۔

کراچی جیسے میگا سٹی میں ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، تینوں صوبوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آرہے ہیں، پلاٹوں پر قبضہ کرکے آناً فاناً کچی بستیاں آباد کررہے ہیں، کنڈے کی بجلی استعمال کررہے ہیں، جس کا لوڈ عام صارف پر پڑ رہا ہے لیکن پی پی کو اس کی ذرا برابر پرواہ نہیں، لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں لیکن ٹینکر مافیا کو پانی بھرپور فراہم کیا جارہاہے۔ اسی ٹینکر مافیا سے پی پی کے ایک وزیر نے کروڑوں کمائے اور اب بھی کمارہے ہیں کہ سندھ میں پی پی کا راج ہے۔

ہوسکتا ہے بہت سے لوگ الیکشن کے نتائج کے بعد کسی اچھائی کی امید رکھتے ہوں، لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ بدامنی، صبر و برداشت کا ختم ہوجانا، آپس میں جوتم پیزار، گتھم گتھا ہونا، گالی تک بات پہنچنا اس بات کی علامت ہے کہ اب پاکستان میں اچھائی اور بھلائی کی امید رکھنا حماقت ہے۔ اپنی اپنی باریاں لینے کو لوگ تیار بیٹھے ہیں۔

عوام کو دکھانے کے لیے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے ہیں لیکن یہ پیغام بھی بھجوارہے ہیں کہ یہ بھی الیکشن کی ضرورت ہے ورنہ ہم تو ہمیشہ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے قائل ہیں کہ ایک باری تمہاری اور اگلی باری ہماری، چار سال تک ہم چپ بیٹھیں گے اور تم من مانی کرنا اور پھر جب ہماری باری آئے تو تم ہونٹوں کو سی لینا، ہم دونوں ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیںگے اور پانچویں سال بھر زبان کھولیں گے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے بازی کریں گے، جلسے کریں گے، توتکار کریںگے، الیکشن ہوتے ہوں تو ہوتے رہیں ہوگا، وہی جو ’’خاص لوگ‘‘ چاہیں گے، یہ سارا واویلا خاص لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ہے کاش یہ خاص لوگ اس دفعہ ملک اور قوم کے لیے سوچیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔