پرندہ پرواز کر گیا ہے

نصرت جاوید  جمعـء 26 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل مشرف نے متحدہ عرب امارات کا جو پہلا دورہ کیا تھا، اس کے دوران ان کی شیخ زاید بن سلطان النیہان سے بھی ایک طویل ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے نوٹس لینے کے لیے پاکستان میں مقیم ایک سفارت کار بھی وہاں موجود تھے اور وہ میرے بڑے دوست تھے۔ اسلام آباد واپس آنے کے بعد انھوں نے مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلایا اور اس امر پر بڑی حیرت و پریشانی کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے لوگ عرب دُنیا سے اتنے دیرینہ اور قریبی تعلقات کے باوجود ’’صحرائی مزاج‘‘ کو نہیں سمجھ سکتے۔

اپنی بات کی وضاحت کے لیے انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے مرحوم صدر نے جنرل مشرف سے ملاقات کے دوران بڑی تفصیل کے ساتھ ہمارے نبی پاک کے اس رویے کا ذکر کیا جو انھوں نے فتح مکہ کے بعد دشمنوں کے ساتھ برتا تھا۔ جب وہ ملاقات ختم ہو گئی تو جنرل مشرف کے ایک وفادار معتمد نے میرے دوست سفارتکار سے جاننا چاہا کہ شیخ زاید فتح مکہ کا حوالے کیوں دے رہے تھے۔ ’’میرے صدر مختصر الفاظ میں نواز شریف کی جاں بخشی کی درخواست کر رہے تھے اور آپ کی حکومت کو اس ضمن میں کچھ کرنا ہو گا‘‘۔

سفارت کار کا یہ جواب سننے کے بعد وفادار معتمد نے فوراََ جواب دیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ سچی بات ہے خیال میرا بھی یہی تھا مگر میرے دوست سفارت کار نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب اور قطر نے بھی اعلیٰ ترین سطح کے ذریعے نواز شریف کی جاں بخشی کی بات جنرل مشرف تک پہنچائی ہے۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ ان تین خلیجی ممالک کے سربراہان نواز شریف کے بارے میں اتنے فکر مند کیوں پائے جا رہے ہیں۔ میرے علم میں اضافے کے لیے سفارتکار نے بتایا کہ نواز شریف صاحب بھارت سے جنگ ٹالنے کے لیے کارگل کے معاملے پر وہ سب نہیں کرنا چاہ رہے تھے جس کا مطالبہ صدر کلنٹن نے ثالث بنتے ہوئے کیا تھا۔

ایک موقعہ پر پاکستان کے وزیر اعظم نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر انھوں نے امریکی صدر کی بات مان لی تو ان کی فوج انھیں معاف نہیں کرے گی۔ صدر کلنٹن نے فوراََ جواب دیا کہ وہ ایسی صورت میں ان کا ہر ممکن دفاع کرنے کی کوشش کریں گے۔ 4 جولائی 1999ء کو واشنگٹن کے بلیئر ہاؤس میں ہونے والی اس بات چیت کا حوالہ دینے کے بعد مجھے اس سفارت کار نے مزید یاد دلایا کہ دسمبر 2000ء کے بعد کلنٹن امریکا کے صدر نہیں رہیں گے۔ ’’وائٹ ہاؤس کسی نہ کسی صورت اس تاریخ سے پہلے نواز شریف کی جاں بخشی کروا دے گا۔‘‘

پھر 2000ء بھی آ گیا۔ میں اس سال کے دوران جب بھی اس سفارتکار سے ملتا تو بڑے طنز سے انھیں یاد دلاتا کہ نواز شریف ابھی تک جیل میں ہیں۔ وہ محض مسکرا دیتے اور بالآخر وہ دوپہر بھی آ گئی جب انھوں نے مجھے خود فون کیا اور بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ لبنان کے رفیق حریری کا طیارہ اسلام آباد آ گیا ہے اور نواز شریف صاحب کسی بھی وقت اس طیارے میں بیٹھ کر سعودی عرب چلے جائیں گے۔ میں نے اپنے اخبار کے مدیر کو یہ واقعہ بتایا تو انھوں نے زیادہ اعتبار نہ کیا۔

اپنی خبر کی تصدیق کے لیے میں پھر بھی اِدھر اُدھر رابطے کرتا رہا اور بالآخر امریکی سفارتخانے کے ایک اہلکار سے اُگلوا لیا کہ ہاں ایک طیارہ آیا ہے اور نواز شریف پاکستان سے روانہ ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کی جماعت کے لوگوں سے رابطہ کیا تو سب نے بڑی شدت سے اس خبر کی تردید کی۔ پنجاب اسپیشل برانچ کے ایک چھوٹے اہلکار نے البتہ یہ اعتراف ضرور کیا کہ ’’نوازشریف کے گھر میں غیر معمولی ہلچل نظر آ رہی ہے۔‘‘ تنگ آ کر میں نے خود کو اپنے عرب سفارت کار دوست کے ہاں زبردستی مدعو کر لیا۔ انھوں نے اپنے موبائل سے مختلف لوگوں سے بات کی۔

چونکہ وہ یہ گفتگو بڑی فصیح عربی میں کر رہے تھے اس لیے مجھے خاص سمجھ نہ آئی۔ بالآخر انھوں نے انکشاف کیا کہ ہر چیز تیار ہے مگر نواز شریف کی روانگی میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ شہباز شریف پاکستان نہ چھوڑنے کی ضد کر رہے ہیں۔ انھیں قائل کیا جا رہا ہے اور بالآخر وہ بھی مان ہی جائیں گے۔

میں نے اپنے پاس موجود اطلاعات کو ایک خبر کی صورت دے کر اپنے ایڈیٹر کو ای میل کر دیا، اس پیغام کے ساتھ کہ اگر میری خبر رات گئے تک درست ثابت ہو جائے تو صبح کے اخبار میں چھاپ دی جائے۔ وہ خبر بھیجنے کے بعد میں اپنے ایک دوست کے ہاں پہنچا جنہوں نے مجھے اپنے گھر کھانے کے لیے بلا رکھا تھا۔ ہمیں ملنا تو شام 8 بجے تھا مگر ان کے ہاں میں تقریباَ َ9:30 بجے پہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ میرے اتنی تاخیر سے آنے پر شکوہ کرنا شروع ہو گئے۔ میں نے اپنے دفاع میں خبر لکھنے کی مجبوری بیان کر دی۔ میری بات سن کر وہاں بیٹھے ایک اور مہمان جنھیں میں نہیں جانتا تھا بڑے حیران اور کافی خفا ہو گئے۔ میرے دوست نے انکشاف کیا کہ وہ آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر ہیں۔ اگر وہ تردید کر رہے ہیں تو میں یقیناً غلط ہوں گا۔

میں بھی اپنی خبر پر اڑگیا۔ وہ مہمان ہاتھ میں موبائل لے کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ واپس لوٹ کر انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں ان کے مطابق ’’اسلام آباد ایئرپورٹ پر کسی آئل کمپنی کا طیارہ کھڑا ہے۔ اس کمپنی کا کوئی اعلیٰ افسر جنرل مشرف سے ملاقات کرنے آیا ہے۔ نواز شریف والی کوئی بات نہیں۔‘‘ میں خاموش ہو گیا۔ مگر خدا نے بالآخر میری عزت رکھ لی۔ میرے دوست سفارت کار کا فون آ گیا۔ “The Bird Has Flown out” (پرندہ پرواز کر گیا ہے) کہنے کے بعد انھوں نے فون بند کر دیا۔

یہ کالم یہاں تک پڑھنے کے بعد آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ ساری تفصیلات کیوں لکھی ہیں۔ آپ کی تسلی کے لیے اعتراف کر رہا ہوں کہ گزشتہ دو راتوں سے میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ جنرل مشرف کو لینے کے لیے طیارہ کب اور کہاں سے آئے گا۔ ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں ملا۔ یقیناً بوڑھا ہو گیا ہوں۔ جوانی کے رپورٹر والی بات نہیں رہی یا پاکستان واقعی بد ل گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔